انقلاب

ملک سانول رضا

کہتا ہے میرا ساتھ دو میں انقلاب لاؤں گا

میرا ساتھ دو میں نیا عمرانی معاہدہ کراؤں گا

میری سوچ بدل گئی ہے میرا روپ بدل گیا ہے میں پکا انقلابی بن گیا ہوں میں سچا باغی بن گیا ہوں

آج واقعی ثابت ہو گیا کہ آسمان صرف کتابوں میں، آسمان فقط استعاروں میں ٹوٹتے ہیں۔

انقلابیوں نے، باغیوں نے اپنے منتوں کو لفظوں کی حرمت پہ بشر مارنے کا چلن دیا ہوتا

تو آج چوکوں پر پاگلوں کے ساتھ ساتھ، انقلابی تجھے بھی آگ لگا دیتے

تجھے بھی جلا دیتے لفظوں کی توہین پر انقلاب کی تحقیر پر۔

ارے! ہر دربار کے آگے جھکنے والوں، ہر سرکار کے سامنے بِکنے والوں،

کی اولادیں باغی ہوتی ہیں کیا؟

انقلابی ہوتی ہے کیا؟

تُو کیا معاہدے دے گا تُو کیا وعدے کرے گا

تُو نے وعدے توڑنے والوں کی سربراہی کی تُو نے تو سازشوں کے جال بُنے

تُو ہی تھا ناں جس نے سرائیکی وزیر اعظم کو اسی عدالت سے ہٹانے کے عیاری کی

تُو ہی تھا جس نے بن لادن سے رقم لیکر سندھ رانی اتارنے کی تیاری کی

تُو ہی تھا جس نے قاضیوں سے کہا اس نہتی لڑکی کو قید کرو اس کے بچوں کو یتیم کرو

تُو ہی تھا جس نے سپہ سالاروں کو ہٹایا قاضیوں اور صدور کو لڑایا

تُو ہی تھا جو حرم کا شریف بنا اور اپنی ہی جنتا کا حریف بنا

ہاشمی! تُو دو تین گالیاں سہہ لینا، چار دن جیل میں رہ لینا.. میں آیا..۔

تیرے لئے مسند لائے، ڈھیر سارے تحفے اٹھائے …..۔

تُو ہی تھا چندے کھانے والا قرض اتارو ملک سنوارو کرنے والا۔

اپنے فائدے کے دھرنے دینے والا گندے دھندے کرنے والا۔

تُو نے ہی تو جونیجو پہ وار کیا تیرے والدنے ایک اور سندھو دار کیا ۔

تین وزیراعظم دو صدر دو سالار تیری مکاریوں کی نظر ہوئے ……….۔

تُو اب کہتا ہے میں انقلابی ہو گیا ہوں باغی ہو گیا ہوں.. ۔

تُو پھر چل پہلے میرے سندھو دریا کے پانی سے خود کو پاک کر …. ۔

پھر گڑھی خدا بخش کا طواف کر ۔

معافی مانگ آئی جی آئی بنانے کی شہید رانی کو ہرانے کی …….۔

یہ نہیں کر سکتا تو پھر چل میرے ساتھ ماڈل ٹاؤن لہور کی شکیلہ کی ماں کے قدموں میں بیٹھ معافی مانگ۔

اس کے منہ میں گولیاں مارنے کی، بیچ چوراہے لاشیں گرانے کی ۔

یہ بھی نہیں کر سکتا۔ معاہدے کرنے ہیں تُو پھر دکھی سرائیکیوں سے معاہدہ کر۔

ان کے در پر آ پیر فریدنڑ سرکار کے دربار پہ بیٹھ بھائی کو ساتھ لا

کابینہ ساتھ بٹھا اور کہہ

اے فریدنڑ سرکار میں نے تیرے دیس کو لُوٹا ہے۔

تیری زبان کو دھکیلا ہے

تیرے دیس کا پانی بیچا ہے

سرکار تقصیر معاف چا کر سرائیکی صوبہ قبول چا کر۔

یہ نہیں کر سکتا تُو پھر۔

انقلاب لانا ہے

تجھے پتا ہے انقلاب کے رستے میں میں کیا ہوتا ہے۔

نہیں معلوم تو پھر میرے سوالوں کے جواب دے

یہ بتا تیری کلثوم در در سوالی بن سکتی ہے؟

عدالتوں کے باہر اپنے پوتے پوتیوں کو لئے زندانوں کے آگے بیٹھ سکتی ہے؟

تیرا حسین پردیس میں تڑپتے جان دے سکتا ہے؟

تیرا حسن گھر کے سامنے گولیوں سے بھونا جا سکتا ہے؟

تیری مریم سکھر جیل کا بدبودار پانی پی سکتی ہے؟

تیری اسما لاٹھیاں کھا سکتی ہے؟

تُو دار چوم سکتا ہے؟

لہوری شاہدہ جبیں کی فریادیں سنی ہیں تُو نے؟

رزاق جھرنا کے رقص تو یاد ہونگے؟

اچھا حسن ناصر کی قبر پہ گیا ہے کبھی ؟

لندن تو گھر ہے تیرا ہائیڈ پارک کے مدفن پہ پھول چڑھایا ہے کبھی؟

نہیں اچھا چھوڑ ان باتوں کو انقلابی نصابوں کو ماما قدیر کا بیٹا لا سکتا ہے؟

زرینہ بلوچ کا والد ڈھونڈ سکتا ہے؟

کچھ بھی نہیں کر سکتا

جیلوں سے ڈر لگتا ہے

جلادوں سے ڈر لگتا ہے

تو پھر جیلوں کی باتیں نہیں کرتے

احتجاجوں کی باتیں نہیں کرتے

کسی سے معافی بھی نا مانگ ک

سی کو قید بھی نا کرا کسی کو سولی بھی نا چڑھا۔

آج یوم آزادی ہے

جناح کو یاد کرتے ہیں۔ محمد علی کو یاد کرتے ہیں۔

اجلاس بُلا کشمیر اسمبلی بھی تیری۔

بلوچستان حکومت بھی تیری

پختونوں کا حرم فروش بھی تیرا

پنجاب تو ہے ہی تیرے قدموں میں ۔

وفاق بھی تیرا

سالار بھی تیرا

فیصلہ کر خدا کی زمین خدا کے بندوں کو لوٹا دے

محلات کی تقسیم کر عدل کی نئی تفہیم کر نہیں کر سکتا

تو پھر تُو انقلابی ہے

نا باغی ہے

تو صرف داغی ہے

تو صرف فسادی ہے

تُو بیوپاری ہے

تُو صرف کاروباری ہے۔

2 Comments