علی احمد جان
دنیا کےآٹھویں عجوبے کا درجہ پانے والے قراقرم ہائی وےپر سفر کرنے والوں کی تفریح طبع کے لئے سڑک کے ساتھ سنگلاخ پہاڑوں پر پاکستان میں دینی سیاست کی بانی مبانی کہلانے والی ایک جماعت سے منتخب بغیر داڈھی والے ایک مونچھ بردار ایک سنیٹر اور ایک سڑکیں بنانے والے ادارے نے بڑا سامان کیا ہوا ہے۔
سنیٹر صاحب نے نظریہ پاکستان کا جورخ یہاں پہاڑوں پر بیان کیا ہےاور جس سوچ کی عکاسی کی ہے اس سے تو ان کی جماعت بھی اتفاق نہیں کرتی لیکن شاہراہ قراقرم پر اٹھارہ سے بیس گھنٹے تک سفر کرنے والے مسافر نہ صرف اس بات پر یقین کرنے مجبور ہوجاتے ہیں کہ اس شاہراہ کی تعمیر دراصل ان سنیٹر صاحب نے خود اپنے دست مبارک سے کی ہے بلکہ یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ قائد اعظم نے اپنی وفات پر کسی اور کو نہیں بلکہ ان کو ہی اپنے نظریے اور سوچ کا امین اور وارث قراردیا تھا جس کو بے ایمان مورخین نے چھپا رکھا تھا۔ اس لئے ان کانام تاریخ کی کتب کے بجائے اقبال کی شاہین کے مصداق ان پہاڑوں کی چٹانوں پر ملتا ہے۔
دوسری طرف اس سڑک کی مرمت پر معمور خاکی وردی میں ملبوس ٹھیکہ دار ادارے کی طرف سے لکھے انگریزی، اردو کے علاوہ مقامی زبانوں مثلاً شینا، بلتی اور کھوار زبانوں میں حب الوطنی اور وطن دوستی کے خوشنما نعرے پڑھ پڑھ کر مسافر سفر کی تکان کو بھول جاتے ہیں اور یقین کر لیتے ہیں کہ یہاں سے آگے دودھ اور شہد کی ندیاں بہتی ہیں ۔
جیسے ہی آپ گلگت میں داخل ہوجاتے ہیں تو ایک دم نیلے رنگ کی نمبر پلیٹ والی بے شمار گاڑیاں سڑکوں پر نظر آنے لگتی ہیں ۔ نمبر پلیٹ کا نیلا رنگ عموماً اقوام متحدہ (یو این ) کی گاڑیوں کے لئے مخصوص ہوتا ہے مگر یہاں بغیر کسٹم ادا کئے رکھی گاڑیوں کے لئے ہے۔ یہ گاڑیاں نان کسٹم پیڈ کہلاتی ہیں جو عموماً فاٹا کے علاوہ ملاکنڈ اور گلگت بلتستان میں پائی جاتی ہیں جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ افغانستان سے سمگل ہوکر آتی ہیں اور ان علاقوں میں استعمال ہوتی ہیں کیونکہ یہ علاقے ٹیکس فری زون ہیں ۔
ان میں کتنی گاڑیاں سمگل ہوکر آتی ہیں اور کتنی ملک سے چوری شدہ ہیں اس کا پتہ چلانا انتہائی مشکل کام ہے ۔ ایسی کسی گاڑی کو کوئی بھی تھانیدار ایک نمبر جاری کرتا ہے یا کوئی بھی اپنی مرضی سے نمبر لگا کر چلا سکتا ہے کیونکہ یہاں اس کام کی بظاہر آزادی لگتی ہے۔
بازاروں اور سڑکوں پر بے تحاشا چوری اور نان کسٹم پیڈ کہلانے والی گاڑیوں کو دیکھ کر جب آپ ہنزہ کے چھوٹے سے ٹاؤن کریم آباد میں پہنچتے ہیں تو چوراہے پر حاکم شہر کی طرف سے تمام ہوٹلوں کے کمروں کا نرخ نامہ آویزاں ہے جس کی خلاف ورزی پر آپ شکایت کر سکتے ہیں۔
آپ کو بھی میری طرح سمجھ میں نہیں آئیگا کہ جس حکومت کواٖفغانستان سے منسلک قبائلی علاقوں سے یہا ں تک پہنچائی جانے والی گاڑیوں کو پکڑنے کی توفیق نہیں وہ ایک دم یہاں پر اتنی موثر کیسے ہو گئی ہے کہ یہاں ہوٹل کے کمروں کے نرخ بھی اس کی مرضی سے طے ہوتے ہیں جس کی مثال پورے ملک میں کہیں اور نہیں ملتی۔
ملک کے آئین کے دائرہ کار میں نہ ہونے کی وجہ سے یہاں قانون کی عملداری بھی ملک کے دیگر علاقوں سے مختلف ہے۔ یہاں شہریوں کو ان کے حقوق کی فراہمی کے ضامن قوانین مثلاً معلومات تک رسائی اور مقامی حکومتوں کے قیام جیسے قوانین پر عملدرآمد کرنے میں سو سو رکاوٹیں ہیں جو زیادہ تر خود ساختہ بہانے ہیں لیکن انسداد دہشت گردی اور ملک کے خلاف سازش اور غداری جیسے قوانین پر عملدرآمد میں نہ صرف مستعدی نظر آتی ہے بلکہ ان قوانین کی توضیح اور تشریح بھی مختلف دکھائی دیتی ہے۔
اس بات کا فیصلہ کرنے کے لئے کوئی شخص ملک کے خلاف سازش کر رہا ہےاتنا ہی کافی ہے کہ اس سے ایک پرانی بندوق یا اس سے کسی قسم کی کتاب برآمد ہو۔ کسی آئینی عدالت کی غیر موجودگی کے باوجود بھی آج تک کسی پر بھی غداری ثابت نہ ہوسکی لیکن مقدمے میں تفتیش، پیشیوں اور قید جیسی اذیت میں کئی لوگوں کی زندگیاں تباہ ہو گئی ہیں جس کا مداوا کہیں سے نہیں ہو سکتا۔
شاید ایسے مقدمات بنانے کا مقصد بھی لوگوں پر غداری ثابت کرنا نہیں بلکہ اذیت دینا ہے جس کو اب کئی لوگوں نے اپنے ذاتی عناد اور انا کی تسکین کے لئے استعمال کرنا شروع کیا ہے ۔ فرقہ وارانہ۔ گروہی اور قبائلی طور پر تکثیریت کے حامل معاشرے میں لوگ اپنے مخالفین سے ذاتی ، گروہی اور فرقہ ورانہ عناد کی بنیاد پر ایسے مقدے بنوانے لگے ہیں ۔
ملک کے خلاف سازش جیسے حساس قانون کے بے دریغ استعمال سے شہریوں اور ریاست کے درمیان دوریاں پیدا ہو رہی ہیں کیونکہ جو شہری ایک دفعہ غداری جیسے سنگین مقدمے کے مراحل سے ہوکر گزرتا ہے وہ ذہنی طور پر اسی ریاست کا مخالف ہو جاتا ہے جس نے اس پر جھوٹا مقدمہ کیا ہوتا ہے۔
ایک اور عجیب بات یہ ہے کہ ایسے مقدمات قائم کرنے کے لئے مروجہ ضابطہ پر عمل درآمد بھی نہیں کیا جاتا اور نہ ہی اس ملک کی اعلیٰ عدالتوں میں کسی ملزم کو اپیل اور داد رسی کا حق ہے جس ملک کی غدار ی کے مقدمے کا سامنا ہوتا ہے۔ گزشتہ تیس سالوں میں جب سے ایسے مقدمات قائم کرنے کا سلسلہ شروع ہوا ہے ایسے مقدمات اور لوگوں کی تعدادمیں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جو ایک تشویش ناک بات ہے۔ شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات۔۔۔
ویسے تو گلگت بلتستان میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ آج تک رپورٹ نہیں ہو ا ہے البتہ یہ علاقہ فرقہ ورانہ فسادات اور عداوت سے مسلسل متاثر رہا ہے۔ صدیوں سے مذہبی ہم آہنگی کے حامل اس علاقے میں 1975 میں فرقہ ورانہ کشیدگی کا آغاز ہوا اور انتہا 1988 میں ہوئی جب ایک مسلح لشکر شاہراہ قراقرم سے گزر گلگت کے قریب و جوار پر حملہ آور ہوا اور تباہی مچادی۔
اس واقعے کے بعد سے یہ علاقہ فرقہ ورانہ بد امنی کا شکارہے۔ فرقہ واریت کی لہر میں وقت اور حالات کے لحاظ سے تیزی اور سستی آتی رہتی ہے مگر پائیدار امن اب بھی ایک خواب ہے جو شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔
جب ملک میں انسداد دہشت گردی کا قانون منظور ہوا تو اس کا اطلاق گلگت بلتستان پر بھی کیا گیا تاکہ یہاں دہشت گردی کا تدارک ہو اور فرقہ ورانہ کشیدگی کے خاتمے میں مدد ملے۔انسداد دہشت گردی کے قانون کے شیڈول (۴) میں ایسے تمام لوگوں کو شامل کیا گیا ہے جو اس قانون اور مشرف دور میں کئے گئے پولیس ریفارم سے پہلے پولیس تھانے میں بستہ الف، ب اور ج میں درج ہوتے تھے۔ اس شیڈول میں ان لوگوں کو بھی شامل کیا گیا ہے جن سے نقص امن کا خدشہ ہوتا ہے۔ اس شیڈول میں شامل لوگوں کو اپنے شہر اور تھانے کی حدود کو چھوڑنے سے پہلے متعلقہ تھانے میں اطلاع دیناہوتی ہے۔ بادی النظر میں اس فہرست میں شامل مذہبی فرقہ واریت کو ہوا دینےالے لوگ ہوتے ہیں جن کی تحریر و تقریر سے نقص امن کا خدشہ ہوتا ہے۔
گلگت بلتستان میں اس قانون کا اطلاق بھی ایسے مذہبی کشیدگی پیدا کرنے والے لوگوں کی نسبت سیاسی کارکنوں ، انسانی حقوق کے کارکنوں اور صحافیوں پر زیادہ ہوتا ہے۔ کسی کی سوشل میڈیا پر دی گئی رائے کے پسند نہ آنے سے لیکر عوامی اجتماع سے خطاب میں کی گئی کسی بھی بات یا کسی شخص کی شکایت کو بہانہ بنا کر لوگوں کو شیڈول (۴) میں ڈالا جاتا ہے اور ان کی تحریرو تقریر اور نقل و حمل پر پابندی لگا دی جاتی ہے۔
یہ زبان بندی کا وہ آسان نسخہ ہے جس کو انسداد دہشت گردی کے قانون کی آڑ میں استعمال کیا جاتا ہے۔ جن لوگوں کو قانوناً انسداد دہشت گردی کے شیڈول (۴) میں ہونا چاہئے ان کو سرکار ی عزت و تکریم حاصل ہے اور وہ دندناتے پھرتے ہیں اور انسانی حقوق کی بات کرنے والے سیاسی کارکنوں اور صحافیوں اور لکھاریوں پر اس قانون کی بے وجہ اطلاق سے یہاں پر لوگوں کا اعتماد ریاستی اداروں اور ایجنسیوں پر دن بہ دن کم ہوتا جارہا ہے۔
پاکستان اور چین کے درمیان تجارتی راہ داری کے آغاز پر واقع گلگت بلتستان ایک انتہائی اہمیت کا حامل علاقہ ہے جس کی پاکستان کے ساتھ وابستگی کسی آئینی اور قانونی بندھن میں نہیں بلکہ اعتماد اور وفاداری کی بنیاد پر ہے اور یہ اعتماد پہاڑوں پر نعرے لکھ کر نہیں بلکہ قانون کی برابری کی بنیاد پر عملداری اور انصاف کی فراہمی سے ممکن ہے۔
پاکستان کو اپنی وہ پالیسی ترک کرنا ہوگی جو چین نےسنکیانگ میں اپنا رکھی ہے جس کی بنیاد زمین کی اہمیت پر ہے اور لوگوں کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ پاکستان کو اس علاقے میں لوگوں کے اعتماد کو حاصل کرنے کے لئے سماجی انصاف ، سیاسی آزادی ، معاشی برابری ، معاشرتی اقدار سمیت تمام بنیادی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا۔
جس طرح لالچ اور طمع کی بنیاد پر لوگوں کی وفاداریاں خرید کر ان کو وقتی طور پر اپنا ہمنوا تو بنایا جاسکتا ہے مگر ہم خیال نہیں اسی طرح خوف اور جبر سے لوگوں کو وقتی طور پر خاموش تو کروایا جا سکتا ہے مگر ان کی سوچ اور فکر کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ ریاست سے لوگوں کی وفاداری اس وقت ممکن ہوتی جب ریاست لوگوں کو بلا تخصیص اپنا شہری سمجھتی ہو اور ان کے ساتھ جبر اور استبداد کے بجائے صلہ رحمی کا سلوک کرتی ہو۔
♦