سعودی عرب نے اپنے 2030 کے وژن کا اعلان کردیا ہے۔ اس وژن کے مطابق سعودی عرب تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں اور بے روزگاری سے نمٹنے کے لئے سیاحت کو فروغ دے گا۔ سیاحت کے فروغ کے لئے وہ ساحلِ سمندر کے 180 کلومیٹر کو نیم خودمختیاری اور آزادی دے کر سیاحتی مقامات تعمیر کرے گا۔ یہاں پر بڑے بڑے ریسٹوران اور ہوٹل تعمیر کئے جائیں گے اور سیاحوں کو بین الاقوامی معیار کی “تمام آزادیاں” فراہم کی جائیں گی۔ خواتین کو بکنی پہننے کی اجازت ہوگی۔ اس کے علاوہ دیگر تمام آسائشیں اور عیاشیاں بھی دستیاب ہوں گی۔
سعودی حکومت اس پر 183 ارب امریکی ڈالر خرچ کرنے جارہی ہے۔ یہ منصوبہ سعودی ارامکو کمپنی جو کہ سعودی عرب کی تیل کی سب سے بڑی کمپنی ہے کے خطیر شیئرسے شروع کیا جائے گا۔ 2019 میں اس کا افتتاح ہونےجارہا ہے اوراس پراجیکٹ کا پہلا فیز 2022 میں مکمل ہو جائے گا۔ سعودی عرب جس نے گزشتہ چار عشروں سے محمد ابن عبدالوہاب کے کٹڑ اسلامی نظریات کو پورے مشرقِ وسطیٰ میں بیچا۔ آگ و خون کا کھیل کھیلا۔ جس نے مغرب کے کلچر کے بارے میں ہمیشہ نفرتیوں پھیلائیں اور اسلام کو مغرب کے مقابلے میں ایک طاقتور کلچر اور بیانیہ کے طورپر پیش کیا۔
انتہائی بے حسی اور بے غیرتی سے اپنی اُسی سرزمین جس کے بارے میں پاکستان میں انسانوں نے “اس کی گلیوں کا کتا ” جیسی تشبیہات اور استعاروں سے اپنی محبت کا اظہار کیا، آج وہی ملک مغربی اور بین الاقوامی منڈی کے کلچرکو گلے لگانے جارہاہے۔ اس فیصلے کے خود سعودی عرب کے اندر اور باہر کی اسلامی دنیا میں کیا مضمرات ہونگے، یہ سوال مذہبی طبقے کے لئے خاصہ پریشانی کا باعث ہے۔ اس پر کتنی مزاحمت ہوسکتی ہے، اس کے بارے میں تو ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔
البتہ جو لوگ سعودی عرب کے سخت گیر قانونی ڈھانچوں سے واقفیت رکھتے ہیں اور یہاں کے سلطنت کے ڈھانچے کو سمجھتے ہیں ، انہیں یہ سمجھنے میں کوئی زیادہ دیر نہیں لگے گی کہ سعودی حکومت اپنے اس منصوبے پر بغیر کسی بڑی مزاحمت کے عمل پیرا ہوجائے گی۔ علاوہ ازیں سعودی عرب میں خواتین کی آزادی کی جو آوازیں اٹھنا شروع ہوگئی ہیں، اُس پر مولویوں کی روایتی تشریحات چیلنج ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ اس کلچر پر ملاؤں کا بڑے پیمانے پرکوئی احتجاج ہوتا نظر نہیں آرہا کیونکہ یہ احتجاج ملاؤں اور حکومت کے مابین پائے جانے والے تضادات کو ہوا دے گا۔ اگرچہ اس پر احتجاج ہوسکتا ہے لیکن یہاں کے تنخواہ دار متوے(ملاں) اپنے ذاتی مفادات کی وجہ سے ان تضادات کو بہت زیادہ بھڑکانے سے خود ہی گریز کریں گے۔ خود ملاؤں کے پاس بھی سعودی عرب میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری کا کوئی حل موجود نہیں ہے۔
سعودی عرب کے اندرونی اور بیرونی حالات کسی بھی شورش کو برداشت کرنے کی قطعاً سکت نہیں رکھتے۔ اس لئے اگر یہاں کوئی ہلکی سی بھی شورش پیدا ہوئی تو سعودی حکومت اس کو فوراً اور بڑی سختی سے دبانے کی کوشش کرے گی۔ سعودی عرب میں غیرملکیوں بالخصوص پاکستانیوں، بنگلہ دیشیوں وغیرہ کے حالات بہت خراب ہیں۔ یہ لوگ اپنی غربت اور مالی مجبوریوں کی وجہ سے سعودیوں کے ہاتھوں اپنے استحصال کو برداشت کرنے پر مجبور ہیں اور ابھی تک سعودی عرب میں درمیانے اور نچلے درجے کے کام کرنے والے ان محنت کشوں کا تناسب دیگر تمام ممالک سے زیادہ ہے۔ اگرچہ انڈیا کے لوگوں کا بھی اس میں حصہ ہے لیکن انڈیا محنت کشوں کی اکثریت بھی مسلمانوں ہی کی ہے۔ ان پر ڈھائے جانے والے مظالم سعودی حکومت کے خلاف ان کا غم و غصہ مسلسل روزبروز بڑھا رہے ہیں۔
سعودی عرب بہت زیادہ ناگہانی بحرانوں اور انجانے خوفوں شکار ہے۔ یہ صورتحال شہزادوں اور شہنشاہوں میں فاصلے بھی پیدا کررہی ہے اور ان کے اندرونی تضادات کو بھی بڑھا رہی ہے۔ اگرچہ سعودی حکومت خاصی محنت کرکے ان اندرونی تضادات کو چھپانے کی کوشش کررہی ہے لیکن کوئی بھی ہلکی سی چنگاری ان تضادات کو بالکل عیاں کردے گی۔
سعودی حکومت کے اپنے سرکاری ذرائع کے مطابق سعودی عرب میں بے روزگاری کی شرح 60 .5 ٪ ہے۔ اگرچہ حقیقی بے روزگار اس سے کہیں زیادہ ہیں اور یہاں کے نوجوانوں میں بہت زیادہ بے چینی ہے۔ وہ مراعات جو وہ گزشتہ تین عشروں سے دیکھ چکے ہیں۔ وہ اب ان کے لئے خواب ہیں۔ انہیں اپنے سامنے کوئی مستقبل نظر نہیں آرہا۔ سعودی نوجوانوں میں نشہ کی شرح بھی بڑھ رہی ہے۔ یہ صورتحال دیگر جرائم کی طرف کی انہیں کھینچ کر لے جارہی ہے۔
سعودی عرب کا روایتی مذہبی کلچران مسائل کا کوئی حل پیش نہیں کرتا اور نہ ہی ان کی شدت اور گہرائی کی وجہ سے جنم لینے والے غم و غصے کا کوئی علاج فراہم کرتا ہے۔ لہٰذا اب سعودی عرب مجبور ہوکر اپنا مذہبی چورن بیچنے کے بجائے نئی منڈی تلاش کرنے جارہا ہے۔
البتہ یہ صورتحال ملک اور عالمی سطح پر پھیلی ہوئی مندی کا حل ہے اور نہ ہی یہ منصوبے یہاں کے نوجوانوں کی وسیع پیمانے پر پھیلی بے روزگاری کا مستقل حل فراہم کرتے ہیں۔ اس سے صرف سرمایہ دار طبقہ اور اس کے چند حواری ہی مستفید ہونگے۔ یہ صورتحال نوجوانوں میں غم و غصہ بڑھاتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ اس طرح ایسے منصوبے خواتین میں بھی روزبروز بڑھتی بے چینی کو مزید گہرا کرتے ہوئے معلوم ہورہے ہیں۔ اب “بدوانہ اسلام” بھی سعودیوں کی خدمت پرزیادہ دیر تک معمور نظر نہیں آتا۔
اگرچہ اس نظریہ کے زور پر سعودی حکومت کے توسیع پسندانہ مفادات کی سیاست ابھی کچھ مزید عرصہ تک کے لئے جاری رہ سکتی ہے لیکن سرمایہ داری کے بدلتے ہوئے کردار “اسلام“، “اسلامی نظام” اور “دہشت گردی” جیسی تعریفوں کو آنے والے دنوں میں نئے رنگ دینے جارہا ہے۔ آنے والے دنوں میں ان تمام کی ماہیت، کیفیت اور حالت بدل جائے گی۔
ہمارے جیسے ملکوں اور یہاں کے دانشوروں کے سامنے یہ سوال سر اٹھانے والا ہے آیا کہ کوئی “مذہبی کلچر” جسے کچھ لوگ کلچر کہنے پر مصر ہیں، بین الاقومی منڈی اور معیشت کے سامنے اور اپنی افادیت منوانے کی اور خود کو محفوظ رکھنے کی سکت رکھتا ہے یا پھر معیشت ہی کے سامنے ڈھیر ہوجاتا ہے؟ آنے والے دنوں میں یہاں کے مذہبی طبقوں کے لئے اس سوال کا جواب دینا کہ اب وہ اپنے اسلام کی تشریح کس طرح کریں گے بھی ضروری ہوجائے گا۔
♦
One Comment