تمام محاذوں پر بدترین شکست کے بعد ریاست نے شارٹ کٹ والا راستہ اختیار کیا ہے، گزشتہ کئی سالوں سے آواران و مشکے میں بلوچ کاز کےلیے جدوجہد کرنے والے ڈاکٹر اللہ نذر کو گھر گھر تلاش کیا جارہا ہے۔ ڈاکٹر اللہ نذر کو مارنے کے لئے پہاڑوں پر بلا اشتعال بمباری کی جارہی ہے۔ کیمیائی ہتھیاروں سمیت مختلف قسم کے مہلک ہتھیار استعمال کیے جارہے ہیں۔
اب صرف ایٹم بم کو استعمال کرنا باقی رہ گیا ہےلیکن تمام تر ظلم و بربریت اور ریاستی مشینری ، فضائی و بری افواج سمیت مخبروں کو استعمال کرنے کے باوجود ریاست اللہ نذر کو پکڑنے اور مارنے میں بُری طرح ناکام رہی ہے۔ ریاست اور اُس کے آلہ کاروں نے ڈاکٹر کو ڈھونڈ نکالنے اُنھیں مارنے اور لاش تک کو شناخت کا اعلان بھی کرچکی ہے۔ کٹھ پتلی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے ڈاکٹر اللہ نذر کو مارنے کی تصدیق کرتے ہوئے چیلنج بھی دیا تھا۔
جب ریاست کے تمام ظلم و زور و جبر کے تمام حربے مکمل ناکام رہےتو اب وہ اپنے پُرانی روایات کو دہرانے کی کوشش کررہی ہے جب 1958 میں بابو نوروز خان و اُس کے ساتھیوں سے ریاستی فوج شکست سے دو چار ہورہی تھی تو اُس زمانے میں بھی اپنی تمام تر فوجی طاقت استعمال کرنے کے باوجود پاکستانی فوج نواب نوروز خان کو مارنے اور پکڑنے میں ناکام رہی۔
جب اُنھیں ہر محاذ اور ہر طرف سے بے بسی اور مایوسی ہوئی تو اُنہوں نے مذاکرات اور عام معافی کا اعلان کرکے نواب نوروز خان کے پاس میڑھ قرآن پاک بھیج دئیے اور قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر معاہدہ کرنے کا اعلان کیا گیا لیکن جب نواب نوروز خان اور اُس کے ساتھی پہاڑوں سے اُتر کر نیچے آئے تو فوج اپنے ہی معاہدے سے مُکر گئی۔ نواب نوروز خان و اُس کے ساتھیوں کو گرفتار کرلیا گیا اُن پر ملٹری کورٹ میں مقدمات چلائے گئے۔
نواب نوروز خان کے بیٹے سمیت اُس کے سات ساتھیوں کو پھانسی دے دی گئی اور خود نواب صاحب جیل میں اذیتیں سہہ سہہ کر اِس دنیا فانی سے رخصت ہوگئے۔ اب بریگیڈئیر نوفل اپنے سابقہ پیشرووں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے شارٹ کٹ اختیار کرچکا ہے اور ڈاکٹر اللہ نذر کو مذاکرات کی دعوت دیدی ہے لیکن بریگیڈئیر کو یہ معلوم نہیں اب 1958 نہیں بلکہ 2017 ہے۔ اب ذی شعور بلوچ آپ لوگوں کے بہکاوے اور میٹھی باتوں میں نہیں آئیں گے۔
ریاست مذاکرات کے لئے جھولی پھیلا کر بھیک مانگ رہی ہے اور ڈاکٹر مالک اور حاصل بزنجو شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداری کا ثبوت فراہم کرکے بلوچستان میں آپریشن تیز کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ اِن پنجابی نما بلوچ پارلیمانی سیاستدانوں کے دل مسخ شدہ لاشوں ، اجتماعی قبروں، 40 ہزار بلوچ نوجوانوں بشمول خواتین و بچوں کی گمشدگی، گھروں کو جلانے، ہزاروں بلوچوں کو بے گھر کرنے، گاؤں کے گاؤں صفہ ہستی سے مٹانے سے بھی نہیں بھرا ہے۔
اب یہ مزید آپریشن کو تیز کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں اصل میں حاصل اینڈ مالک کمپنی یہ چاہتے ہیں کہ بلوچستان میں بلوچ نامی انسان اور حیوان نہیں ہوں بلکہ یہاں پنجابی آباد ہوجائے اور یہ آسانی سے بلوچ سرزمین کو سودا کرکے بدلے میں اقتدار اور وزارتیں حاصل کرسکیں۔