پاکستان اور افغانستان، ٹرمپ کے نشانہ پر

آصف جیلانی 

گذشتہ پیر کو فورٹ مائیر فلویڈا میں فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے ، صدر ٹرمپ نے افغانستان میں امریکا کی طویل ترین جنگ اور جنوبی ایشیاء سے متعلق اپنی نئی حکمت عملی کا اعلان کیا ہے۔ انتخابی مہم کے دوران ، ٹرمپ یہ کہتے آئے تھے کہ امریکا کو افغانستان سے اپنی فوجوں کو فی الفور واپس بلا لینا چاہئے کیونکہ وہاں امریکا کو جیت نہیں ہورہی ہے اور کھربوں ڈالر کے زیاں کا سامنا کر نا پڑ رہا ہے۔ لیکن حسب عادت ٹرمپ اپنے انتخابی وعدہ سے پھر گئے ہیں۔ انہوں نے اب مزید امریکی فوج افغانستان بھیجنے کا اعلان کیا ہے لیکن وہ بھی ابہام میں لپٹا ہوا۔

انہوں نے نہ تو تعداد کا اعلان کیا ہے کہ کتنی فوج وہ افغانستان بھیجیں گے اور نہ اس کا عندیہ دیا ہے کہ یہ فوجیں کب تک افغانستان میں رہیں گی۔ جواز یہ پیش کیا ہے کہ وہ امریکا کے دشمنوں کو نہیں بتانا چاہتے کہ ان سے لڑنے کے لئے کتنی فوج افغانستان پہنچے گی۔ افغانستان میں امریکی فوج کتنے عرصہ رہے گی ،اس کا دار ومدار حالات پر ہوگا۔ انہوں نے البتہ اس کی وضاحت کی ہے کہ امریکی فوجوں کا افغانستان بھیجنے کا مقصد وہاں ’’قومی تعمیر‘‘ نہیں ہوگا بلکہ صرف دہشت گردوں کوہلاک کرنا ہوگا۔ القاعدہ، طالبان اور داعش کا خاتمہ ہوگا۔

عام رائے یہ ہے کہ افغانستان میں جہاں اس وقت دس ہزار کے قریب امریکی فوج تعینات ہے ، مزید فوج بھیجنے کا فیصلہ در اصل ٹرمپ نے اپنے گرد جمع فوجی جرنیلوں کے دباو کے نتیجہ میں کیا ہے۔ اس وقت ان کے معتمد اعلی جنرل کیلی ہیں، قومی سلامتی کے مشیر جنرل میک ماسٹر ہیں اور وزیر دفاع ،جنرل جیمس میٹیس ہیں۔ ان میں سب ہی جنرل افغانستان کی جنگ میں حصہ لے چکے ہیں اور جنرل کیلی کا بیٹا افغانستان میں بارودی سرنگ کے دھماکہ سے ہلاک ہو گیا تھا۔گو ٹرمپ کا کہنا ہے کہ کتنی فوج افغانستان بھیجی جائے گی اس کا فیصلہ جرنیل کریں گے۔

بتایا جاتا ہے کہ ٹرمپ نے پینٹا گون کو مزید چار ہزار فوج افغانستان بھیجنے کا اختیار دیا ہے اور نایب صدر مایئک پینس نے کانگریس کو بتایا ہے کہ مزید 3900فوج افغانستان بھیجی جائے گی۔ اس وقت امریکا کی دس ہزار فوج افغانستان میں تعینات ہے اس لحاظ سے افغانستان میں امریکی فوج کی تعداد چودہ ہزار تک پہنچ جائے گی ، دفاعی ماہرین کا کہناہے کہ ٹرمپ نے افغانستان میں مزید امریکی فوج بھیجنے کا جو مقصد بتایا ہے وہ اتنی فوج سے حاصل کرنا ممکن نہیں۔ اس وقت آدھے ملک پر طالبان کا کنٹرول ہے اور طالبان کو القاعدہ اور داعش کی بھی حمایت حاصل ہے ۔اس صورت حال میں مقصد مزید امریکی فوجوں کو افغانستان بھیجنے کا طالبان کا قلع قمع نہیں بلکہ افغانستان میں بدستور امریکی فوجوں کے قدم جمائے رکھنا ہے۔

امریکیوں نے سولہ سال پہلے خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا کہ انہیں فوجی نوعیت کے اہم ترین مرکز افغانستان میں قدم جمانے کا موقع ملے گا۔ ایک طرف مشرق میں چین، دوسری جانب شمال میں وسط ایشیاء اور روس۔تیسری طرف بر صغیر اور مغرب میں ایران کی سرحد ہے۔پھر افغانستان میں جو بے شمار معدنی دولت ہے اسے امریکا کسی صورت میں ہاتھ سے نہیں جانے دے گا۔ عجیب و غریب بات ہے کہ افغانستان میں جنگ کے بارے میں پچھلے سولہ سال میں امریکا کے صدور کے مقاصد ریت پر لکھی گئی تحریر کی طرح ہوا میں اڑتے رہے ہیں۔

سنہ 2001میں صدر بش نے افغانستان کے خلاف جنگ ، 9/11کا بدلہ لینے ، طالبان کا تختہ الٹنے اور اسامہ بن لادن سے انتقام لینے اور القاعدہ کا قلع قمع کرنے کے لئے شروع کی تھی۔ پھر افغانستان میں امریکی فوجوں کو برقرار رکھنے کے لئے یہ جواز پیش کیا گیا کہ مقصد افغانستان میں جمہوریت کا قیام ہے اور انتخابات کا انعقاد ہے ۔پھر 2009میں اوباما نے آخری جوا کھیلا اور 34ہزار مزید امریکی فوج افغانستان بھیجنے کا اعلان کیا جس کے بعد افغانستان میں امریکی فوجو ں کی تعداد ایک لاکھ تک پہنچ گئی۔ مقصد سرعت کے ساتھ بھاری فوجی قوت کے بل پر طالبان پر فتح حاصل کرنا تھا لیکن اس میں بھی اوباما کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اور آخر کار انہیں امریکی فوجوں کی واپسی کا اعلان کرنا پڑا۔

ٹرمپ نے اپنی نئی پالیسی پیش کرتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ امریکا افغانستان میں فتح کے لئے لڑے گا۔ اس سے زیادہ گمراہ کن بات نہیں ہو سکتی ۔ اوباما ، امریکی فوجوں میں تین گنا اضافہ کرنے کے بعد بھی جنگ نہیں جیت سکے تو چودہ ہزار امریکی فوج سے ٹرمپ کیسے جنگ جیت سکتے ہیں۔ ٹرمپ کو غالبا یہ نہیں معلوم کہ افغانستان میں کسی غیر ملکی طاقت کو فوجی فتح حاصل نہیں ہو سکی ہے ۔امریکی فوجوں کی تربیت کے باوجود ، امریکیوں کا اعتراف ہے کہ ہر ماہ بیس افغان فوجی ، طالبان کے ہاتھوں ہلاک ہو رہے ہیں ۔ افغان وزارت داخلہ کے مطابق اس سال مارچ سے اگست تک ایک ہزار تین سو دو پولیس افسر مارے گئے ہیں۔

غرض ٹرمپ کی افغان پالیسی کا بنیادی مقصدامریکا کی طویل ترین جنگ کو اور طول دینا ہے اور اس پورے علاقہ میں امریکا کی فوجی قوت کو برقرار رکھنا ہے۔ اور امریکا کی اسی فوجی چوہدراہٹ کے تحت ، ٹرمپ نے پاکستان پر الزام لگایا ہے کہ وہ سرحد پار سے طالبان اور شدت پسندوں کی حمایت اور مدد کر رہا ہے۔ ٹرمپ نے زور دیا ہے کہ ہندوستان کو افغانستان کے معاملہ میں اہم رول ادا کرنا چاہیے لیکن انہوں نے اس کی وضاحت نہیں کی کہ وہ رول کیا ہوگا۔ ہندوستان اس پر بے حد خوش ہے کہ ٹرمپ نے پاکستان کو دھشت گردوں کی کمین گاہ قرار دے کر ہندوستان کے موقف کی بھر پور حمایت کی ہے ۔ ہندوستان یہ الزام لگاتا آیا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کا گڑھ ہے اور وہ سرحد پار سے دہشت گرد حملوں کو مدد دیتا ہے اور دہشت گردوں کو شہہ دیتا ہے ۔ دفاعی ماہرین کی رائے میں ہندوستان کو افغانستان میں شدت پسندوں کے خلاف رول ادا کرنے پر زور دینے سے خطرات کو دعوت دینی ہوگی۔

ٹرمپ نے جنوبی ایشیاء کے بارے میں اپنی حکمت عملی میں کہا ہے کہ ایک اہم ستون ہماری حکمت عملی کا پاکستان سے نبٹنے کے سلسلہ میں ہمارے طریق کار میں تبدیلی ہے ، ان کا کہنا ہے کہ امریکا اب پاکستان میں دہشت گرد تنظیموں ، طالبان، اور دوسری تنظیموں کی محفوظ کمین گاہوں پر خاموش نہیں رہے گا۔ ٹرمپ نے امریکا کا پرانا نعرہ دھرایا۔ ’’آپ ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے خلاف‘‘ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو افغانستان میں ہماری کوششوں میں ساتھ دینے میں فائدہ ہوگا اور پاکستان کو دہشت گردوں کو پناہ دینے میں سراسر نقصان ہوگا۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ افغانستان اور پاکستان میں امریکا کے مفادات واضح ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کی محفوظ کمین گاہیں ہیں جن کا خاتمہ بے حد ضروری ہے۔

ٹرمپ نے کہا ہے کہ ہمیں جوہری اسلحہ دہشت گردوں کے ہاتھ میں جانے سے اور ہمارے خلاف یا دنیا میں کہیں اور استعمال کرنے سے روکنا ضروری ہے ۔ یہ ٹرمپ کی طرف سے پاکستان کی جوہری تنصیبات کو تباہ کرنے کے لئے کاروائی کا جواز پیش کرنے کوشش ہے۔ اس دھمکی کے سلسلہ میں خطرناک پہلو ٹرمپ کا یہ کہنا ہے کہ آیندہ کسی کاروائی کے آغاز اور اختتام کاپہلے سے اعلان نہیں کیا جائے گا۔ ’’ ہم فوج کی تعداد اور فوجی کاروائی کے بار ے میں اعلان نہیں کریں گے‘‘ اس کا مطلب افغانستان یا پاکستان میں اچانک فوجی کاروائی ہو سکتی ہے۔

افغان صدر اشرف غنی کی حکومت نے ٹرمپ کی افغان جنگ کے بارے میں نئی حکمت عملی کا خیر مقدم کیا ہے ، خاص طور پر مزید امریکی فوج بھیجنے کے فیصلہ کے بارے میں، کیونکہ ایک تو طالبان کے سامنے پسپا ہوتی ہوئی افغان حکومت کو امریکی فوجوں کی کمک کی اشد ضرورت ہے ، دوسرے ٹرمپ کی طرف سے پاکستان کو دھمکی پر بھی خوش ہے ، افغان حکومت سمجھتی ہے کہ یہ اس کے موقف کی حمایت ہے ۔ صدر اشرف غنی ، افغان فوج کی ناکامیوں کی ذمہ داری کا تمام تر بوجھ پاکستان پر ڈالتے رہے ہیں اور ٹرمپ نے بھی یہی موقف اختیار کیا ہے۔

دفاعی ماہرین کی رائے ہے کہ ٹرمپ کی افغانستان اور جنوبی ایشیاء کے بارے میں نئی حکمت عملی ان اہداف کے حصول میں قطعی کامیاب ثابت نہیں ہو سکے گی جو ٹرمپ حاصل کرنا چاہتے ہیں بلکہ خطرہ ہے کہ اس کے افغانستان کے لئے سنگین نتائج برآمد ہوں گے اور دوسری جانب پاکستان کے ساتھ امریکا کے تعلقات جو پہلے پہ کشیدہ ہیں ابتری کا شکار ہوں گے۔

ٹرمپ کی افغانستان اور جنوبی ایشیاء کے بارے میں نٗی حکمت عملی میں ان کے جو عزائم سامنے آئے ہیں ان کے پیش نظر پاکستان کو امریکا کے ساتھ اپنے رویہ اور اپنی پالیسی پرانقلابی نظر ثانی ناگزیر ہے اوراشد ضرورت ہے کہ امریکا کے قدموں میں بیٹھنے اور خوشامدی کی پالیسی ترک کی جائے اور پاکستان جو بے پناہ قدرتی وسائل اور افرادی طاقت سے سر شار ہے، اپنی عزت نفس کی خاطر اپنے پیروں پر کھڑا ہوکر سرخ رو ہو۔ 

پاکستان کے پالیسی سازوں کو اب اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ سرد جنگ کے دوران پاکستان محض امریکا کے مفادات کی حاشیہ برداری کرتا رہا ہے اور 1965اور 1971کی جنگوں کے دوران جب پاکستان کو اپنی بقا کے لئے امریکی فوجی مدد کی ضرورت تھی تو فوجی معاہدوں میں شمولیت کے باوجود امریکا نے نہایت رعونت سے اس کا دامن جھٹک دیا۔اس تاریخی حقیقت سے پاکستان کے حکمران آنکھیں بند نہیں رکھ سکتے ۔ اگر ہم قومی وقار اور پنے دفاع کی خاطر امریکا پر اپنی محتاجی کی پالیسی ترک نہیں کر سکتے تو پھرہم اپنے آپ کو ایک آزاد ، خو د مختار اور خود دار ملک کہلانے کے حق دار نہیں ہیں۔

♦ 

One Comment