فواد چوہدری تحریک انصاف کے عدالتی امور کے حوالے سے ترجمان ہیں۔ وہ تحریک کے مخالفین کے توہین آمیز زبان و بیان کے استعمال کی شہرت رکھتے ہیں ۔موصوف پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں ۔ ان کے تایا چوہدری الطاف حسین متنازعہ گورنر تھے ۔ممتاز دولتانہ کے ساتھی ہونے کی بنا پر وہ جوڑ توڑ کی سیاست کے ماہر خیال کیے جا تے تھے۔ اپنی اسی شہرت کی بنا پر بے نظیر بھٹو نے انھیں پنجاب کو گورنر بھی مقرر کیا تھا ۔
فواد چوہدری کے ایک چچا شہباز حسین پرویز مشرف کی کابینہ میں وزیر تھے اور دوسرے چچا لاہور ہائی کورٹ کے جج۔ فواد چوہدری نے بھی اپنے سیاسی کئیر یر کا آغاز ق لیگ سے شروع کیا تھا ۔چچا کے ہائی کورٹ کا جج مقرر ہونے سے ان کی وکالت کوکافی مہمیز ملی تھی ۔ جب ان کے چچا کو جنرل پرو یز مشرف نے لاہور کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کیا تو فواد چوہدری کے وکیلانہ کئیر یئر کی لاٹری نکل آئی ۔
ان دنوں فواد چوہدری اور ان کے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ چچا افتخار حسین چوہدری کیا گل کھلاتے رہے اس کا ذکر عمران خان کے قریبی ساتھی اور ایک وقت میں تحریک انصاف کے نائب صدر حامد خان نے اپنی آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی طرف سے شایع کردہ حالیہ کتاب : پاکستان کی عدالتی تاریخ میں کیا ہے۔
حامد خان لکھتے ہیں کہ جسٹس افتخار حسین چوہدری کو 1994 میں بے نظیر کے دوسرے دور میں لاہور ہائی کورٹ کا ایڈیشنل جج مقرر کیا گیا تھا۔1995 میں انھیں مستقل جج کے طور پر کنفر م کیا گیا تھا۔ انھوں نے جنرل پرویز مشرف کے جاری کردہ پی۔سی۔اوز 1999 اور 2003میں حلف لیا تھا۔ انھیں جنرل پرویز مشرف نے لاہور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کیا تھا وہ2007 ۔2002 تک چیف جسٹس کے عہدے پر فائز رہے تھے ۔ا ن کا دور شاید لاہور ہائی کورٹ کا سیاہ ترین دور تھا ۔
یہ وہ دور تھا جب ہائی کورٹ میں کرپشن اور بد انتظامی اپنے عروج پر تھی۔جسٹس افتخار حسین چوہدری جنرل پرویز مشرف کے پسندیدہ جج تھے کیونکہ کسی قسم کے اصول کی پاسداری ان کے نزدیک کوئی اہمیت اور حیثیت نہیں تھی ۔ وہ جنرل پرویز مشرف کی بنائی گئی وفاقی اور پنجاب کی حکومتوں کی ہر طرح کی قانونی اور آئینی مدد کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے۔لاہور ہائی کورٹ ا ن کے دور میں انصاف فراہم کرنے والا ادارے کی بجائے ٹاوٹوں اور سودے بازی کرنے والے ایجنٹوں کا گڑھ بن چکا تھا۔جج صاحب کے پسندیدہ وکلا ہی کو ’انصاف ‘ ملتا تھا اور وہی پیشہ ورانہ حوالے سے کوئی قابل ذکر کام کرسکتے تھے۔
ان کا بھتیجا ( فواد چوہدری) یکایک معروف وکیل بن گیا جو ہر ا ہم اور قابل ذکر مقدمہ میں وکیل مقرر ہوتا تھا ۔ ان دنوں جج صاحب کے بھتیجے کے پاس موجود مقدمات کی تعداد سے لگتا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ میں وہی واحد قابل وکیل ہے۔ اور تو اور ماتحت عدلیہ کے ججوں اورعملے کی تعیناتیاں اور تبادلے بھی اس کے ذریعے ہوتے تھے۔ رشوت اور تحفے ان دنوں معمول کی کاروائی تھی۔ چیف جسٹس کھلے عام بار ایسوسی ایشنوں کے انتخابات میں مداخلت کرتے اور ماتحت عدلیہ کے ججوں کو اپنے پسندیدہ امیدواروں کو جتوانے کے لئے استعمال کرتے تھے۔
سنہ2007میں چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار محمد چوہدری کے خلاف جنرل پرویز مشرف نے جو ریفرنس فائل کیا تھا اس کے پس پردہ ایک کردار چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ افتخار حسین چوہدری بھی تھے۔انھوں نے لاہور کورٹ کے احاطے میں عدلیہ بحالی تحریک کے دوران وکلا کے خلاف پولیس فورس بھی استعمال کی تھی۔ 3۔جنوری2007میں جنرل پرویز مشرف نے عدلیہ کے خلاف جو کریک ڈاون کیا تھا اس میں انھیں جسٹس افتخار حسین چوہدری کی مکمل حمایت حاصل تھی۔2007 میں پانچ سال تک چیف جسٹس لاہور ہوئی کورٹ رہنے کے بعد وہ ریٹائر ہوگئے لیکن ان کے دور میں ہائی کورٹ کو جو نقصان پہنچا اس کا ازالہ شائد آنے والے کئی سالوں تک نہ ہوسکے۔
پاکستان کی عدالتی تاریخ از حامد خان ۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس صفحہ 451
ترتیب: لیاقت علی ایڈووکیٹ
One Comment