ارشد نذیر
ہر شخص یہاں اپنی اپنی انفرادیت لئے پھرتا ہے۔ اگر “انفرادیت” نہیں بھی لیے پھرتا تو پھر بھی اس خوش فہمی کا شکار ضروررہتا ہے کہ اُس کی اپنی کوئی نہ کوئی انفرادیت ہے۔ دنیا کے اس سٹیج پر بہرحال کچھ کردار ایسے ضرور ہوتے ہیں جو دوسروں کے ذہن پر اپنے انمٹ نقوش چھوڑجاتے ہیں اور اپنی مخصوص عادات کی وجہ سے کسی نہ کسی واقعہ میں ذہن کے دریچوں سے جھانکتے ہیں، ان کی یہ مخصوص عادات کبھی آپ کی تنہائی میں قہقہوں کا سامان پیدا کرتی ہیں تو کبھی آپ کے کرب میں اضافہ کرتی ہیں۔ سبب خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہو، یہ ایسے عجوبے اور نمونے بننے میں کامیاب ہوجاتے ہیں کہ ان جیسا دوسرا کوئی نہیں بن سکتا۔
ویسے آخری تجزیہ میں زندگی خود بھی تو ایک سٹیج ہے ناں، جہاں ہر شخص آتا ہے اور اپنا اپنا کردار ادا کرکے چلا جاتا ہے۔ اس حوالے سے “اگر انہوں نے خود کو لوگوں کے دلوں میں زندہ رکھنے کا فن سیکھ لیا ہے۔ خواہ ایسا کچھ عجوبہ عادات ہی وجہ سے کیوں نہ ہو، بہرحال میرے خیال میں انہوں نے کچھ برا تو نہیں کیا۔ بس برا ہواس زندگانی کا جو اچھے خاصے سنجیدہ اشخاص کو کیسے کیسے نمونے بنا دیتی ہے۔
اب رہی بات یہ کہ کوئی قلمکار ایسے کرداروں کو کس طرح دیکھتا ہے، وہ اُس کے ذہن کے پردہِ سیمی پر کس طرح ابھرتے اور ڈوبتے ہیں، اُس کی کون کون سی حرکتوں کو کس طرح محسوس کرتا اور اپنی تحریر میں کس طرح دوبارہ زندہ کرتا ہے، یہ اُس کے مطالعہ اور گہرے مشاہدہ پر منحصر ہوتا ہے۔ وہ ایسے مرتے ہوئے کرداروں کو کس حوالے سے زندہ کرجاتا ہے، اس کا اندازہ تحریر کے بعد ہی کیا جاسکتا ہے۔ ایسے چند کردار ہر عام و خواص کی زندگی کا حصہ ہوتے ہیں۔ وہ اُن کے متعلق کہانیاں بھی مزے لے لے کرسناتے ہیں۔
قلمکار بھی بس خاموش مطالعہ کرتا رہتا ہے پھر کسی وقت ایسی کیفیت طاری ہوتی ہے کہ وہ ایسے کرداروں کو اپنی تحریروں کے ذریعے زندہ کرجاتا ہے۔ ہمارے ایک بہت ہی اچھے دوست ہیں جن کی کچھ حرکات بہت ہی دلچسپ ہیں۔ ویسے تو سرکاری ملازم ہیں، بس کچی عمر سے “این جی او” این جی او” کھیلنے کی لت لگ گئی کہ اب ان سے رہا نہیں جاتا۔
این جی اوز سے مال بٹورنے کے حوالے سے تو ان کا دامن قطعاً داغدار نہیں ہے بلکہ کچھ زیادہ ہی صاف ہے کیونکہ اس حوالے سے ان کی اصطلاحات میں بھی این جی اوٹک مصنوعی دانشواری بالکل ہی نہیں جھلکتی بلکہ محفل ہی میں بے ساختہ اُن کے منہ سے نکل ہی جاتا ہے کہ صاحب ہم تو اس سیکٹر میں صرف “ششکوں” کے لئے آئے ہیں۔ ہمیں اور ہماری شخصیت کو ہمیشہ دوسروں نے کیش کیا ہے۔ ہمارے حصے میں لے دے کے بس یہی “ششکے” اور “عزت” ہی تو آئی ہے اور یہ ہے۔ لیکن ان ششکوں کے حوالے سے ان کی زندگی کے کچھ دلچسپ واقعات میرے پاس ہیں جو جب میں نے انہیں سنائے تو اُن کے اصرار تھا کہ میں اُن کا شخصی خاکہ اُنہیں کے حقیقی نام سے لکھ دونگا لیکن میری تحریرمجھے خود ایسا کرنے کی اجازت نہیں دے رہی۔ اس لئے اُن کا نام لینے سے قصداً گریزکررہا ہوں۔
کہیں بھی دو آدمی جمع ہوجائیں تووہ اس موقع سے کوئی نہ کوئی ایسی سرگرمی تراشنے کے چکر میں رہتے ہیں اور اُن کی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی نہ کوئی ایسی ایکٹویٹی ترتیب دے دی جائے کہ وہ سماجی اور این جی او طرز کی کوئی سرگرمی کہا سکے۔ این جی اوز کے گرم سرد چشیدہ ہونےکی وجہ سے انہیں اب اس ہنر پر خاصا ملکہ ہے۔
این جی اوز کے بڑے بڑے جگادری اُن کے سامنے ادھے گھنٹے میں یہ مانے بیٹھے ہوتے ہیں کہ وہ مارکیٹ میں “اپنا سودا” بیچنے کے لئے پھرتے ہیں۔ “سودا بیچنا” اور ” اپنی پُڑی بیچنا” اُن کی مخصوص اصطلاحات ہیں جو وہ اپنے اوپر “دانشوری” طاری کئے بغیر ہی بیچتے ہیں اور اس ہنر کو بڑی ہی اچھے انداز سے بیچتے ہیں۔ خیر بات ہی رہی تھی اُن کی ایک مخصوص عادت کی۔ میں آپ کو بتا رہا تھا کہ جہاں بھی جونہی دو افراد جمع ہوئے، ان کی اضطراری طبیعت میں ابال آنا شروع ہو گیا، اُن کی خواہش ہوتی ہے کہ اب کوئی نہ کوئی میٹنگ کی جائے اوراِس کی تصاویر بناکر واٹ سیپ اور فیس بک پر اَپ لوڈ کردی جائیں۔ کسی بھی 5 منٹ کی سرگرمی کی تصاویر اگر کم بھی ہوں تو 5 سو سے کم کبھی بھی نہیں ہوتیں۔
اگرچہ ابھی پورا خاکہ لکھنا ممکن نہیں ہے۔ البتہ ان کے حوالے سے دلچسپ، تازہ ترین اور مختصر واقعہ جس کا میں اور ہماری بھابھی یعنی ان کی مسز چشم دید گواہ ہیں، آپ کو سنائے دیتا ہوں۔ موصو ف ذیابیطس کے مریض ہیں۔ بائی پاس کراچکے ہیں، گزشتہ کچھ دنوں سے بائیں بازو کے سن ہوجانے کی شکایت کررہے تھے۔ آج جب شفا ہسپتال میں ان کے ٹسٹ کے حوالے سے جانا ہوا تو ڈاکٹروں نے کچھ چار پانچ ٹسٹ لینا شروع کردیئے۔ ایک ٹیسٹ میں معمولی سا کرنٹ لگا کرکمپیوٹر پراندرونی تحریک کا معائنہ کیا جارہا تھا۔
کرنٹ کے ہر بہاؤ کے ساتھ “سی” کی آواز نکالتی، ہماری طرف دیکھ کر کہتے یار اور تو کوئی ایکٹوٹی آج کل نہیں ہورہی تفریحی سیاحتی پروگرامز کے بینر ہی بنالیتے ہیں۔ یہاں سے فارغ ہوکر بینر بنوانے چلتے ہیں۔ دوسرے کرنٹ کے بعد کہنے لگے “یار! راستے میں شجرکاری مہم میں حصہ لیتے آئے ہیں، ان کی تصاویر کس کے موبائل میں ہیں۔” میں نے جواب دیا” فکر نہ کریں میرے موبائل میں موجود ہیں۔” کہنے لگے” یار یہاں سے فارغ ہوکر وہ تصاویر فوراً میرے واٹ سیپ پر بھیجو تاکہ اپ لوڈ کرکے دوستوں کو بھیجوں آخر ہماری پُڑی بھی تو بکے۔
” ڈاکٹر نے کہا ” بازو کی شکایت سنجیدہ ہے۔ اس بار اسے سنجیدگی سے لینا ہے۔” ایک ہفتے کے بعد آ کر ٹسٹ کی رپورٹس لے جائیں۔ بستر سے اُٹھے، اپنے کپڑے پہنے، اپنے کرتے کے بین پر سجائے گئے پانچ چھے بیجزجو کہ این جی اوز کے دیئے گئے تمغے ہیں اور وہ ہمیشہ ہی اپنے کرتے، یا ڈریس پر سجاتے ہیں، کو غور سے دیکھا اورباہر کی طرف چل دیئے۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی ڈرائیور کو کہا کہ گاڑی بینر بنانے والے کے پاس لے چلے، ان کو باہمراہی میرے وہاں چھوڑ دے اور اُن کی بیگم کو گھر چھوڑ آئے۔
بیگم صاحبہ اپنی متفکر آنکھوں کے ساتھ اوراپنے ہاتھ میں صدقے کے پیسے جو انہوں نے ایک مشرقی بیگم اور اپنی مذہبی عقیدت و محبت سے ٹسٹ کے دوران اپنے شوہرکی ہتھیلی میں تھمائے اور کافی دیرتک ہتھیلی کو اپنے ہاتھوں میں تھامے رکھا کو ساتھ لے کر چل دیں۔ میں نے پوچھا” یار ایسی بھی کوئی سی ایمرجنسی تھی کہ آپ اُٹھے اور بینرز کے پیچھے چلے آئے۔ آپ کے اس تفریحی پروگرام میں ابھی خاصے دن پڑے ہیں۔” میری طرح دیکھا اور کہنے لگے۔ “یار۔ زندگی میں بس یہی ششکے تو ہیں اور ہم نے اس زندگی سے پایا کیا ہے۔” میں نے کہا: “پھر بھی ایسی کیا ایمرجنسی تھی۔ کہنے لگے، یار تم ان باتوں کو چھوڑو۔ مجھے کسی اور ایکٹوٹی کا آئیڈیا دو۔
” اُنکی ان حرکات کو دیکھ کر ابھی ورطہِ حیرت میں گم تھا کہ اچانک انہوں نے میری طرف دیکھا۔ ایسے لگتا تھا جیسے اچانک کوئی اچھوتا خیال بجلی کی طرح ان کے ذہن میں کوند گیا ہو۔ کہنے لگے۔ “یار مجھے خیال آیا ہے کہ اس دفعہ اپنے اس تفریح پروگرام میں وزیرِ ماحولیات سے سرٹیفکیٹ تقسیم کرائیں گے۔ ہماری “پُڑی” خوب بکے گی۔ اُس وقت سے اب تک میں ہکا بکا اسی خیال میں گم ہوں کہ یار یہ کیسا شخص ہے ” ۔
♦