علی احمد جان
قذافی اسٹیڈیم لاہور ایک بار پھر تماشائیوں سے بھر گیا دنیا بھر کے کرکٹ کھیلنے والے ممالک کی نمائندہ ٹیم ورلڈ الیون کے کھلاڑی اپنے ہاتھ ہلاتے خصوصی طور پر تیار کئے گئے رکشوں میں بیٹھ کر جب اسٹیڈیم میں داخل ہوئے تو یہاں موجود لوگوں کو یقین آگیا کہ سچ مچ اب وہ کرکٹ کا کھیل اپنی جاگتی انکھوں سے دیکھ پائیں گے۔ پاکستان میں امن بحال ہوا جس پر دنیا نے یقین بھی کیا ، مختلف ممالک سے کرکٹ کے کھلاڑی خود بغیر تردد کے اس ملک میں آئے جہاں سال پہلے تک بنگلہ دیش اور افریقی ممالک کے کھلاڑی بھی خود کو غیر محفوظ سمجھتے تھےاور یوں بہت سارے لوگوں کا کرکٹ اپنی انکھوں سے دیکھنے کا خواب شرمندہ تعبیر ہواہے ، سب کو مبارک ہو۔
ہمارے ہاں بہت سارے کھیل ختم ہو گئے اب صرف کرکٹ رہ گئی ہے۔ کرکٹ کی پسندیدگی کا یہ عالم ہے اگر کوئی کرکٹ کھیلتا نہیں بھی ہے تو اس کھیل کے متعلق اپنی ماہرانہ رائے ضرور دے دیتا ہے۔ اس کھیل پر دوسرے کھیلوں کو شیطانی عمل قرار دینے والوں کا رد عمل بھی انتہائی مثبت ہی نہیں بلکہ اس کھیل کو بھی کھیلنے والے کھلاڑیوں کی وضع قطع بدل کر اسلامائز کرنے کی ان کی کاؤشیں بھی رنگ لائی ہیں۔
جب پڑوسی ملک سے کھیل ہورہا ہوتا ہے تو کرکٹ صرف میدان میں ہی نہیں کھیلی جاتی بلکہ ہر گھر میں کرکٹ ہورہی ہوتی ہے جہاں ہر مصلح پر تسبیح کے دانوں پر، ہر اچھلتی گیند پر گونجتے نعروں میں، جیت پر پٹاخوں کے شورمیں اور ہارنے پر تم جیتو یا ہارو کے ترانوں کی دھن پر کرکٹ ہی کرکٹ ہو رہی ہوتی ہے۔
فٹ بال، والی بال، ہاکی ، باسکٹ بال ، اسکوش، باکسنگ وغیرہ سب ایسے کھیل تھے جن میں اس ملک سے تعلق رکھنے والوں نے اپنا لوہا منوایا ۔ لیاری کی گلیوں میں فٹ بال کھیلنے والوں نے رونالڈو کی سرزمین برازیل میں اپنے شاندار کھیل سے دنیا کو ورطہ حیرت میں تو ڈالا لیکن کراچی کے فٹ بال گراؤند چائنا کٹنگ سے نہ بچ پائے اور نہ ہی پرانے گولیمار کے واحد فٹ بال کھیلنے کے میدان گٹر باغیچہ کو بچانے کی جنگ لڑنے والے نثار بلوچ کی جان بچ پائی۔
فٹ بال لیاری میں کھیلی جاتی ہے اور لیاری کراچی میں ہے جہاں کے کرتے دھرتے کرکٹ کو فٹ بال پر ترجیح دیتے ہیں۔ لیاری میں اس لاوارث کھیل کو کھیلنے والے اپنی مدد آپ سے اپنے جوتے ، نیکر اور بنیان خریتے ہیں، گراؤنڈ کی دیکھ بھال خود ہی کرتے ہیں اور ملک کا نام روشن کرتے ہیں۔ برازیل کے رونالڈہینو کو ہزاروں میل دور سے لیاری میں فٹ بال کا کھیل نظر آگیا مگر اسلام آباد میں رہنے والے اس کو دیکھنے سےاب تک قاصر ہیں۔
کوئٹہ کے باکسر وسیم اور ابرار کو کون نہیں جانتا جنھوں نے دنیا بھر میں ملک کا نام روشن کیا ۔ اولمپئک کھیلوں میں پاکستان کی کئی بار نمائندگی کرنے والے اور کئی ٹائٹل اپنے نام کرنے والے باکسر ابرار کو دن دھاڑے گولیاں ماری گیئں اور مارنے والوں کاپتہ بھی نہ چل سکا۔ کوئٹہ میں تن سازی ، باکسنگ ، جوڑو کراٹے کا جنون کی حد تک نوجوانوں کو شوق ہے اور وہ اس کو بغیر کسی سرکاری سرپرستی کے اپنی مدد آپ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس طرف کسی کی نظر نہیں جاتی۔
چلو کرکٹ بحال ہوئی ہے یہ خوشی کا موقع ہے اب ریلو کٹوؤں کے بجائے اصلی بین الاقوامی کھلاڑی آئینگے اور ہمارے کرکٹ گراؤنڈ پھر سے آباد ہونگے۔ اب پاکستان کے سافٹ امیج کو دنیا کے سامنے لانے میں آسانی ہوگی۔
کرکٹ سے پہلے جو لاہور سے رخصت ہوا وہ بسنت کا میلہ تھا جس کی واپسی کے اب بھی امکانات نہیں۔ بسنت لاہور کی پہچان تھا جس میں شرکت کے لئے دنیا بھر سے لوگ آتے تھے اور اس میلے کی لاہور کے لئے ایک معاشی اہمیت تھی۔ بتایا گیا کہ بسنت کو اس میلے میں اڑائی جانے والی پتنگ کی خونی ڈور سے کٹنے والے گلوں کی وجہ سے بند کیا گیا۔ بجائے خونی ڈور پر پابندی لگتی میلے کو ہی بند کر دیا گیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ موٹر سائیکل کی سواری پر بھی پابندی لگائی جائے جس سے ٹریفک حادثات میں سب سے زیادہ اموات ہوتی ہیں۔
کیاکراچی کے ساحل سمندر پر جانے پربھی پابندی لگائی جائے جہاں سالانہ درجنوں ڈوب کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ بسنت میں پتنگ کی ڈور سے مرنے والوں سے زیادہ اموات تو شادیوں میں زہریلا کھانے سے واقع ہوجاتی ہیں تو شادی پر کھانا کھلانے پر پابندی لگانی چاہئے؟ کرکٹ کی بحالی کے ساتھ کیا ایسی امید رکھی جائے کہ پتنگ کی خونخوار ڈور پر پابندی لگا کر اس عوامی میلے کی بھی اجازت دی جائیگی؟
پاکستان کے دہشت گردی کی جنگ میں شامل ہونے سے جس کشت و خون کی لہر ملک کے اندر عود آئی اس میں سب سے زیادہ متاثر ہمارے ہاں سیاحت ہوئی۔ 2001 کے بعد اگر ہم اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان آنے والے غیر ملکی سیاحوں کی تعداد سالانہ کم سے کم تر ہوتی چلی گئی۔ اس کے ساتھ ہی ملک کے اندر تفریح کی غرض سے ایک سے دوسری جگہ جانے والوں کی تعداد میں بھی کمی واقع ہوئی تھی۔ پاکستان کے لوگوں نے تو گزشتہ تین سالوں سے دہشت گردی سے اپنی آزادی کا جشن لاکھوں کی تعداد میں گھروں سے نکل کر منا یا اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے لیکن بین الاقوامی سیاحت ابھی بھی تنزلی کا شکار ہے۔ اب بھی بین الاقوامی سیاح پاکستان آنے کو ترستے ہیں مگر آ نہیں پاتے۔
ہمارے یہاں بین الاقوامی سیاحت تو پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے بعد ہی روبہ زوال تھی مگر اس کو زور کا جھٹکا اس وقت لگا جب 2013 میں دنیا کی نویں اور پاکستان میں دوسرے نمبر کی بلند ترین چوٹی ننگا پربت کے بیس کیمپ میں دس کوہ پیما بمع ایک پاکستانی معاون کے دہشت گردی کا نشانہ بنے۔ گلگت سکاؤٹس کی وردی میں ملبوس سولہ دہشت گردوں نے ان کوہ پیماؤں کو موت کی نیند سلادیا اور فرار ہوگئے۔
اس خبر کو دنیا بھر کے میڈیا نے خوب اچھالا جس کی وجہ سے پاکستان سے بین الاقوامی سیاحت بھی رخصت ہو گئی جو اب تک مکمل طور پر بحال نہ ہو سکی۔ ۲۰۰۱ ستمبر کے واقعہ کے بعد پاکستان سےزیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں سے ایک ہے ، جس میں سیاحت کا شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا اور گلگت بلتستان، چترال اور سوات جیسے سیاحت کے شعبے پر انحصار کرنے والے علاقے ملک میں جاری دہشت گردی کے جنگ سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔
بین الاقوامی سیاحت کی تنزلی کی وجوہات میں صرف دہشت گردی واحد وجہ نہیں ہے بلکہ پاکستان خطے کےدیگر ممالک مثلاً نیپال ، بھوٹان اور ہندوستان کے مقابلے میں بین الاقوامی سیاحوں کو اپنے ملک آنے کے لئے ویزہ دینے میں بھی بخیل ہے۔ اگر کوئی پاکستان آنا بھی چاہے تو اس کو مختلف سیکیورٹی ایجنسیوں سے کلیرنس حاصل کرنا ہوتا ہے جو کسی بھی خواہشمند فرد کے لئے اپنے ملک میں رہ کر حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
پاکستان میں مختلف سفارت خانوں اور بین الاقوامی اداروں میں کام کرنے والے غیر ملکیوں کو گلگت بلتستان، چترال اور سوات جانے کی حکومت پاکستان اور ان کے اپنے دفاتر کی طرف سے بھی اجازت نہیں۔ اگر کسی نے اپنے دفتر سے اجازت حاصل کر بھی لیا تو اس کو سرکاری اجازت نامہ قسمت سے ہی مل جایا کرتا ہے۔ یوں ہم نہ صرف باہر سے سیاح پاکستان لانے میں ناکام ہوئے ہیں بلکہ اپنے ملک کے اندر موجود غیر ملکیوں کو سیاحت سے دور رکھے ہوئے ہیں۔
دنیا کے آٹھ ہزار میٹر سے اونچے چودہ میں سے پانچ پہاڑ پاکستان میں واقع ہیں جو کوہ پیماؤں اور کوہ نوردوں کے لئے اس ملک سے عشق کی وجہ ہیں۔ سات ہزار میٹر سے زیادہ اونچے ایک سو سات پہاڑ اس کے علاوہ ہیں جبکہ چار اور پانچ ہزار میٹر اونچے پہاڑوں کی گنتی ہی نہیں ہے۔ دنیا کی دوسری اونچی چوٹی کے ٹو کے سامنے کھڑے ہو تو انسان خود کو سات اور آٹھ ہزار میٹر اونچے پہاڑوں کے جھرمٹ میں محسوس کرتا ہے اس لئے اس جگہ کو کو کانکورڈیا کا نام دیا گیا ۔
پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں کوئی آٹھ ہزار میٹر سے زیادہ اونجی چوٹی ننگا پربت کا نظارہ سڑک پر اپنی گاڑی کی سیٹ پر بیٹھ کر کرسکتا ہے جبکہ ایسی کسی دوسرے پہاڑ کی جھلک دیکھنے کے لئے کئی دنوں کا سفر درکار ہوتا ہے۔ کریم آباد ہنزہ میں آپ کے کمرے کی کھڑکی سے سات ہزار میٹر اونچے پہاڑ آپ کو جھانک رہے ہوتے ہیں۔ ایسا دنیا میں پھر اور کہاں ہے؟ اس دولت کو بغیر کسی خرچے کے دنیا کو صرف دکھا کر اربوں روپے کا زر مبادلہ کمایا جاسکتا ہے مگر اب تک ہم اس طرف سوچنے سے قاصر ہیں۔
پاکستان میں سیاحت ،کوہ نوردی اور کوہ پیمائی کے فروغ پر بات کرکے دیکھو تو اچھے خاصے پڑھے لکھے کہلانے والے ذمہ دار لوگوں کے کی رائے سن کر آپ کا دل اپنا سر دیوار سے ٹکرانے کو چاہتا ہے ۔ ان کے خیال میں کسی ذی شعور کاکام ویرانے اور پہاڑوں میں خوار ہونا نہیں اس لئے ان صاحبان بصارت کو اس مقصد سے یہاں آنے والےسب غیر ملکی جاسوس لگتے ہیں۔
ان کے نزدیک سوات،ٹیکسیلا اور گلگت میں بودھ مت کا اثار قدیمہ بھی کھنڈرات سے زیادہ نہیں اور یہاں آنے والے بھی اس بہانے سے جاسوسی کرتے ہیں۔ جس طرح لاہور میں پتنگ کی ڈور کی وجہ سے بسنت پر پابندی لگائی ہے بالکل اسی طرح شمالی علاقوں میں جاسوسی کے خوف سے بین الاقوامی سیاحت پر پابندی لگی ہوئی ہے۔
اگر کرکٹ کو اربوں روپے خرچ کرکے بحال کرکےپاکستان کا امیج بہتر کیا جاسکاتا ہے تو اس سے زیادہ بہتر امیج بین الاقوامی سیاحت کو فروغ دے بنایا جا سکتا ہے اور اربوں روپے کا زر مبادلہ بھی کمایا جاسکتا ہے ۔ مگر یہ اس وقت ممکن ہے جب ہم کرکٹ سے آگے سوچنا شروع کریں ۔
♦
One Comment