بھارت کے موتیوں کے شہر حیدر آباد میں کمسن لڑکیوں کے ساتھ شادی کرنے کی کوشش کرتے ہوئے خلیجی ممالک کے آٹھ شہریوں کی گرفتاری کے بعد سے کمسن لڑکیوں کے مبینہ استحصال کا معاملہ ایک بار پھر شہ سرخیوں میں ہے۔
بھارت کے جنوبی شہر حیدرآباد کی پولیس نے عمان کے پانچ اور قطر کے تین شہریوں کو کئی ہوٹلوں سے اس وقت گرفتار کرلیا، جب وہ کمسن لڑکیوں سے شادی کرنے کے لئے ان کا ’انٹرویو‘ لے رہے تھے۔گرفتار شدہ ایک شخص کی عمر تقریباﹰ ساٹھ برس ہے اور وہ چھڑی کے سہارے چل پا رہا تھا۔
گرفتار ہونے والوں میں کئی قاضی، دلال اور ہوٹل مالکان بھی شامل ہیں۔ پولیس نے ان کے قبضے سے جن بیس لڑکیوں کو آزاد کرایا ہے، ان میں سے بارہ کم عمر ہیں۔ تمام لڑکیوں کی عمریں پندرہ سے سترہ برس کے درمیان ہیں۔
\حیدرآباد کے پولیس کمشنر مہندر ریڈی کے مطابق شہر کے پرانے حصے کے مختلف علاقوں میں بیس خواتین سمیت پینتیس ایسے دلال سرگرم ہیں، جو عرب شیوخ کے ساتھ غریب لڑکیوں کی شادیاں کرواتے ہیں۔ اس کے لیے لڑکیوں کے والدین کو سبز باغ دکھاتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ دلال کمسن لڑکیوں کا برتھ سرٹیفیکٹ اور دیگر دستاویزات حاصل کر کے ان کی تاریخ پیدائش تبدیل کرا دیتے تھے تاکہ لڑکی کو قانونی طور پر بالغ ثابت کیا جاسکے۔ خیال رہے کہ بھارت میں قانونی طور پر شادی کے لئے لڑکی کی عمر کم از کم اٹھارہ سال اور لڑکے کی اکیس سال ہونی چاہیے۔
مہندر ریڈی کا کہنا ہے کہ شادی سے قبل لڑکیوں کو عرب شیوخ کے سامنے ’انٹرویو‘ کے لیے پیش کیا جاتا تھا۔ اگر لڑکی خوبصورت ہو تو دلال اس کی قیمت میں بھی اضافہ کر دیتے ہیں۔ یہ دلال عرب شیوخ سے وصول کردہ رقم میں سے سے ایک مخصوص حصہ ہی لڑکی کے ماں باپ کو دیتے ہیں۔ عرب شیوخ ایسی ہر شادی کے لئے عام طورپر دس لاکھ روپے تک ادا کرتے ہیں جب کہ لڑکی کے والدین کو ایک لاکھ روپے سے بھی کم دیے جاتے ہیں۔
حیدرآبا دمیں عمر رسیدہ عرب شیوخ کے ساتھ کمسن لڑکیوں کی شادی کا یہ معاملہ کوئی نیا نہیں ہے۔ کچھ لوگ اس طرح کی شادیوں کو بین الاقوامی انسانی اسمگلنگ سے جوڑتے ہیں۔ تاہم حیدرآباد کے سینئر صحافی ایم اے ماجد نے ڈی ڈبلیو سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا نے اس معاملے کو کافی بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے۔ عربوں کے ساتھ اس طرح کی شادیاں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ سن ستر کی دہائی میں ایسی شادیوں کا آغاز ہوا تھا اور اب تک دس ہزار سے زائد لڑکیوں کی شادیاں ہو چکی ہیں۔ زیادہ تر شادیاں عمان،کویت، قطر، سعودی عرب اور بحرین کے شیوخ کے ساتھ ہوئی ہیں۔
ایم اے ماجد کا کہنا تھا کہ کچھ لوگوں نے ایسی شادیوں کو کاروبار بنا لیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کی شادیوں کا ایک بڑا سبب غربت اور دوسرا مسئلہ جہیز ہے۔ غریب والدین کے لیے جہیز کے نام پر لاکھوں روپے نقدی اور گاڑی کا انتظام کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ دوسری طرف مسلم لڑکیاں اب زیادہ تعلیم حاصل کر رہی ہیں لیکن ان کے لیے مناسب جوڑا نہیں مل پاتا ہے۔ ایسے میں والدین سبز باغ دکھانے والے دلالو ں کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں۔ ایم اے ماجد کا تاہم کہنا تھا کہ چند استشنائی معاملات کو چھوڑ کر بیشتر شادیاں خوشگوار ثابت ہوئی ہیں اور لڑکیوں کے والدین کی اقتصادی حالت بھی اچھی ہوئی ہے۔
اس دوران پولیس نے ممبئی کے شہر قاضی فرید احمد خان کو گرفتار کر کے ان پر بین الاقوامی انسانی اسمگلنگ کے دھندے میں اہم کردار ادا کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ پولیس کا الزام ہے کہ قاضی فرید فرضی نکاح نامے تیار کرتے تھے۔ لیکن ان کے گھر والوں نے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ قاضی فرید احمد 1975ء سے سند یافتہ قاضی ہیں اور وہ نکاح نامے کا ترجمہ اردو سے انگلش میں کیا کرتے تھے۔
گو حیدرآباد میں عرب شیوخ کا کم سن لڑکیوں سے شادی کرنے کا سلسلہ کئی دہائیاں پرانا ہےلیکن مسلمان علما نے کبھی بھی ان شادیوں کے خلاف احتجاجی آواز بلند نہیں۔حالانکہ یہی علما عورت کو تین طلاق دینے کے معاملے میں اکٹھے ہوگئے تھے۔اس کی بنیادی وجہ اسلام میں کم عمر کی شادی کی اجازت ہے جسے مسلمان علما غلط عمل قرار دینے کی بجائے اسے سنت رسول کی پیروی قرار دیتے ہیں ۔
دریں اثناء حکومت نے عمر رسیدہ عرب شیوخ سے کمسن لڑکیوں کی شادیوں کو ریگولیٹ کرنے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔ حکومتی منصوبے کے مطابق اب غیر ملکی شہری کو شادی کے لیے اپنے ملک سے نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ لانا ہوگا، جس میں یہ درج ہو کہ بھارتی بیوی کے حقوق عرب بیوی کے مساوی ہوں گے۔ شادی کرنے والے شخص کی عمر لڑکی سے دس سال سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ غیر ملکی شہری کو مقامی پولیس کمشنر کو ایک مہینہ پہلے درخواست دینی ہوگی اور اس لڑکی کی تفصیلات بھی پیش کرنی ہوں گی، جس کے ساتھ وہ شادی کرنے کا خواہش مند ہے۔ شادی کے موقع پر لڑکی کے نام دس لاکھ روپے جمع کرانے ہوں گے اور شادی سرکاری حکام کی موجودگی میں ہونی چاہیے۔
DW/News Desk