شہزاد ناصر
پہلے ایک بات کا اعتراف کرتا چلوں کہ میں قدرت اللہ شہاب، ممتاز مفتی، بابا یحیٰ وغیرہ کے سلسلے اور کڑی کے بانو قدسیہ اور اشفاق احمد کو ناپسندیدہ ترین ادیب سمجھتا ہوں ۔
یہ ممکن ہے کہ ان سب کی نیت ٹھیک ہو اور یہ ساری کاریگری، لفاظی اور کنفیوزڈ نان سینس انجانے میں سرزد ہوا ہو لیکن پاکستان کی ایک بڑی لوئر مڈل اور مڈل کلاس پر انکے اثرات تقاضا کرتے ہیں کہ بے رحم تجزیہ کیا جائے ۔ ان لوگوں نے پاکستان خصوصاً اہالیان پنجاب کو ذہنی طور پر لولا لنگڑا کیا, پوری پنجابی قوم کو دولے شاہ کا چوہا بنانے کی کوشش کی ۔
جنرل ضیا جہاں ایک طرف طاقت کا بے رحمانہ استعمال کررہا تھا دوسری طرف عام آدمی کو مُلا کے ذریعے شکار کررہا تھا جبکہ تعلیم یافتہ مڈل کلاس کو اشفاق احمد ، بانو قدسیہ قبیل کے پالتو دانشوروں کےذریعے برین واش کررہا تھا۔ پوری قوم کو تصوف کی افیم کھلا کر مزاحمت کا راستہ ترک کرکے ناجائز اور ظالم حکمران کی اطاعت کرنے کا درس دیا جارہا تھا ۔ ٰ یہ فوجی حکمران کے جوتے پالش کرکے اپنی خدمات کا صلہ وصول کرتے رہے اور قوم کو صبر و توکل کی افیم کھلاتے رہے ۔
جہاں فیض،جالب اور دیگر ترقی پسند ادیب و شاعر جیلوں میں بند تھے یہ دو میاں بیوی ٹی وی پر چڑھے ہوئے تھے، بغیر مزاحمت کے سارا میدان کھلا چھوڑا گیا تھا، کہ ریاست اور حکمران طبقات کے مفاد میں ذہن سازی کریں یہی کام علامہ اقبال نے کیا تھا کہ خود تو برٹش سے سر کا ٹائٹل لیا اور نوجوانوں کو پہاڑوں کی چٹانوں کا درس دے کر الو بناتے رہے۔
یہ لوگ حقیقی تخلیق کار بھی نہیں تھے ۔ علامہ اقبال نے زیادہ تر نظموں کا مرکزی خیال انگریزی نظموں یا جرمن فلاسفروں گوئٹےاور نطشے سے لیا ہے ۔ اسی طر ح اشفاق احمد نے بھی اپنے شاہکارناولوں کے آئیڈیاز غیرملکی ادب سے چرائے ہیں اور ان کواپنے نام سے اردو ادب میں ڈھال کرخود کو اعلی درجے کا ادیب منوایا ہے ، قوم کو بے وقوف بنایا ہے ۔
میں نے اشفاق احمد کا ایک لانگ ٹی وی پلے دیکھا ۔ پاکستان سے آتے ہوئے ساتھ لایا ۔ عنوان ہے ۔ سوناملا نہ پی ۔
اس میں گاؤں کا ایک سیدھا سادہ نوجوان اپنی معشوق کو انتظار کا کہہ کر پیسہ کمانے شہر جاتا ہے ۔ پھر اس کی رونقوں میں کھو جاتا ہے۔ زمانے بعد واپسی کا خٰیال آتا ہے تو وہ ویسے ہی کالے بالوں والا نوجوان ہوتا ہے اور اسکی معشوق سفید بالوں والی بوڑھی ۔ملاقات پر وہ اس کو اپنے چاہنے والا کا بیٹا سمجھتی ہے ،۔
درحقیقت یہ ایک لاطینی ناول ہے ، اس کا خیال چرایا گیا ہے کہ ایک نوجوان اپنی محبوبہ سے سمندروں کے سفر پر نکلتے ہوئے الوداع ہوتا ہے کہ میرا یہی انتظار کرنا ۔ وہ ہرروز شام کوساحل پر جاکراس کا انتظارکرتی ہے حتی کہ بیس سال گزرجاتے ہیں ۔ وہ ویسے ہی پرشباب ہوتی ہے کہ بیس سال بعد شام کو ایک کشتی ساحل پر آتی ہے ۔ اس میں سے ایک جھریوں بھرا بڈھا اترتا ہے اور اس لڑکی کی طرف بڑھتا ہے۔
لڑکی اپنے چہرے پر ہاتھ رکھ کر رونےلگتی ہے کہ تم وہ تو نہیں جس کا مجھے انتظار تھا۔
کتنا بڑا کلاسیک ناول اشفاق احمد نے کتنی بے رحمی سے چوری کیا اور پی ٹی وی پر چلادیا۔
اب بانو قدسیہ کے ناول راجہ گدھ کا ذکر… جو لفاظی کے سوا کچھ نہیں , اس میں جو فلاسفی بیان کی گئی ہے اس کا سائنسی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، سوائے بے سروپا باتوں کو تحریر کے زور پر لوگوں کے ذہن میں ٹھونسنے کی کوشش کی گئی ہے۔
چونکہ یہ تمام کوششیں زمانے کے اعتبار سے اپنا اثر کھو چکی تھیں.اس لیے کسی بھی طرح کے نتائج دینے میں ناکام رہیں اور بانو آپا اور اشفاق احمد کا فلسفہ بے پناہ عوامی مقبولیت کے باوجود کوئی قابل ذکر مثبت سماجی اثرات نہ پیدا کر پایا۔
میرا قیاس ہے کہ بانو آپا اپنی اس فکری شکست سے آگاہ تھیں. .ضمنا عرض کیا جا سکتا ہے کہ اشفاق صاحب اور بانو آپا کے مابعدالطبیعاتی نظریات اتنے حیران کن نہیں جتنی سحر انگیز آج کے دور میں کوانٹم فزکس بن چکی ہے۔ بدقسمتی سے بانو آپا اور اشفاق صاحب اپنے دور سے پانچ سو سال بعد پیدا ہوئے ۔
♦
5 Comments