غلام رسول
میں اپنی ساٹھ سالہ زندگی میں ایک نتیجے پر پہنچا ہوں وہ یہ کہ وہ مسلمان جو خود کو جدت واعتدال پسند مسلمان کہلوانا پسند کرتے ہیں دراصل گرگٹ کی کوئی قسم ہیں، آپ جیسے ہی ان کے ساتھ گفتگو کا آغاز کرتے ہیں پتہ چلتا ہے کہ آپ ایک گول مول خالی مخولی دائرے میں گھوم رہے ہیں جس میں آپ جس قدر چاہے گھوم لیں آپ کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکتے۔
اگر آپ سلفیت اور وہابیت پر بات کریں تو یہ کہتے ہیں کہ وہ اسلام کی نمائندگی نہیں کرتے، اگر آپ مسلمان علماء کے ان عجیب وغریب فتاویٰ پر بات کرنا چاہیں جو وہ وقتاً فوقتاً جاری کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ یہ علماء اسلام کی نمائندگی نہیں کرتے، اگر آپ شیعہ اسلام پر بات کریں تو کہتے ہیں کہ یہ روافض اور کافر ہیں اور اسلام کی نمائندگی نہیں کرتے۔
اگر آپ تصوف پر بات کریں تو جواب آتا ہے کہ یہ مشرک ہیں اور اسلام کی نمائندگی نہیں کرتے، اگر آپ افغانستان، صومالیہ، سوڈان، سعودیہ یا ایران پر بات کرنا چاہیں تو جواب آتا ہے کہ یہ ممالک اسلام کی نمائندگی نہیں کرتے، اگر آپ پاکستان میں احمدیوں اورشیعوں یا دوسرے ممالک میں مسلم اقلیت کے قتل پر بات کرنے کی کوشش کریں تو کہا جاتا ہے کہ یہ جہادی لوگ اصل اسلام کی نمائندگی نہیں کرتے۔
اگر آپ طالبان اور اس کے جیسے دیگر مسلح اسلامی دہشت گرد گروہوں اور ان کے معصوم لوگوں پر خود کش حملوں کی بات کریں تو جواب پھر یہی آتا ہے کہ ہم سے طالبان کی بات نہ کریں یہ جہادی اصل اسلام کی نمائندگی نہیں کرتے، اور اگر آپ کہیں کہ جناب ان کا اسوہ حسنہ تو رسول ہیں جس کی سنت پر وہ عمل کرتے ہیں تو بھی یہی جواب آتا ہے کہ وہ اسلام کی غلط تشریح کرتے ہیں۔
اس کے بعد اگر آپ کوئی حدیث پیش کریں تو کہتے ہیں کہ یہ حدیث ضعیف ہے اور ضعیف احادیث سے استدلال جائز نہیں حالانکہ وہ خود ایسی احادیث سے استدلال پیش کرتے نظر آتے ہیں لیکن جب آپ کی باری آتی ہے تو یہ احادیث ظالمانہ اور جعلی احادیث بن جاتی ہیں جو اسلام کی نمائندگی نہیں کرتیں، اور اگر آپ صحیح حدیث پیش کریں تو کہتے ہیں کہ آپ کو اس حدیث کو کسی دوسری حدیث کے سیاق میں سمجھنا چاہیے اور اسے قرآن اور اس کے ناسخ ومنسوخ اور طالع اور مطلوع کی روشنی میں دیکھنا چاہیے۔
لیکن اگر صحیح حدیث کچھ زیادہ ہی خرافات پر مشتمل ہو تو پینترا بدل کر کہتے ہیں کہ ہم حدیث کو نہیں مانتے یا ساری احادیث پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا یا پھر یہ اسرائیلیات میں سے ہے، اگر آپ ترمذی سے کوئی حدیث پیش کریں تو کہتے ہیں بخاری سے پیش کرو اور اگر آپ بخاری سے پیش کریں تو کہتے ہیں کہ مسلم کے ہاں اس کا ذکر نہیں حالانکہ ترمذی بھی صحیح حدیث کی کتابوں میں شمار کی جاتی ہے اور ان ساری صحاح کتبِ احادیث پر بارہ سو سال سے اس امت اور اس کے علماء وفقہاء کا اجماع چلا آرہا ہے اور اب بھی تمام فتاویٰ انہیں کتبِ احادیث پر انحصار کرتے ہیں اور ساری شریعت انہی زرد کتابوں سے لی جاتی ہے۔
احادیث سے جواب نہ ملے تو کہتے ہیں کہ ہم سے قرآن کو سامنے رکھ کر بات کریں، اگر آپ قرآن کی آیات سامنے لائیں تو کہتے ہیں کہ قرآن کو اپنی مرضی سے سمجھنے کی کوشش نہ کریں پھر جب آپ قدیم مفسرین کی تفاسیر پیش کرتے ہیں جیسے طبری وغیرہ تو کہتے ہیں کہ نہیں جی یہ تفاسیر درست نہیں بلکہ یہ تو کچھ لوگوں کا اجتہاد ہے جو غلط بھی ہوسکتا ہے کیونکہ مفسرین انسان ہیں! اس پر اگر آپ کہیں کہ جناب اگر مفسرین انسان ہیں اور ان کی یہ تفاسیر غلطیوں پر مشتمل ہیں تو انہیں کچرے میں پھینک کر جدید افکار کو کیوں نہیں اپنا لیتے تو کہتے ہیں کہ قرآن میں سب کچھ ہے۔
اگر آپ کہیں کہ جناب پتھر (حجر اسود) کو چومنا بھی بت پرستی ہی ہے تو اسے مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ سنت ہے اور یہ مقدس پتھر ہے۔۔ بھئی بت پرستوں کے پتھر بھی تو مقدس ہی تھے آخر فرق کیا ہے؟
اگر آپ کہیں کہ قرآن میں کوئی سائنسی اعجاز نہیں تو کہتے ہیں کہ آپ اسلام کو نہیں سمجھتے کیا تم دیکھتے نہیں کہ تمام جدید دریافتیں قرآن میں پہلے سے ہی موجود ہیں اس پر اگر آپ کہیں تو پھر صدیوں سے اس کتاب کو رٹنے کے باوجود آپ ان سائنسوں کو کیوں دریافت نہ کر سکے تو کچھ یہ منطق پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ نے کفار کو مسلمانوں کی خدمت کے لیے یہ دریافتیں کرنے کے لیے وقف کردیا ہے۔
اگر آپ کہیں کہ قرآن میں بلاغت نہیں تو کہتے ہیں کہ آپ کو عربی نہیں آتی اس پر اگر آپ کسی عربی دان سے دلیل دیں تو کہتے ہیں یہ مستشرقین سے متاثر ہے!!۔
یہاں تک پہنچ کر آپ کو یقین ہوجانا چاہیے کہ جدت پسند مسلمان گرگٹ کی ہی کوئی نوع ہے۔
اگر آپ ان جدت پسند مسلمانوں سے اسلام میں آزادی اور رواداری کے بارے میں پوچھیں تو فوری جواب آئے گا کہ ”لا اکراہ فی الدین” اور یہ کہ ”لکم دینکم ولی دین” اور چونکہ اسلام کو ہر حال میں پاک صاف کر کے پیش کرنا ہی ان کا نصب العین ہوتا ہے وہ آپ کو یہ نہیں بتاتے کہ یہ آیات تلوار کی آیت جسے ”آیۃ السیف” کہا جاتا ہے سے منسوخ ہیں اور پوری سورۃ التوبہ مخالف کو قتل کرنے پر اکساتی ہے اس کے باوجود ان کا اصرار ہوتا ہے کہ اسلام امن، بھائی چارے اور رواداری کا دین ہے۔
پھر اگر آپ ان سے پوچھیں کہ اگر کوئی مسلمان مرتد ہوکر کوئی دوسرا مذہب اختیار کر لیے تو کیا آپ کو یہ قبول ہے؟ کیا آپ کو مسلمان عورت کی کسی غیر مسلم کے ساتھ شادی کو قبول کرتے ہیں؟ کیا آپ معاشرے کے تمام غیر مسلم طبقات کو وہی حقوق دینے پر رضا مندی ظاہر کرتے ہیں جو مسلمانوں کو حاصل ہیں؟ کیا آپ کو اس وقت کوئی شرمندگی ہوتی ہے جب خطیبِ مسجد منبر پر بیٹھ کردوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو گالیاں دیتا ہے اور انہیں بندر اور خنزیر کی اولاد قرار دیتا ہے؟
اس پر آپ کو تیار اور طویل لنگری تاویلیں سننے کو ملیں گی جن کے اختتام پر آپ کو یقین ہوچلے گا کہ وہ اسلام کے علاوہ کسی دوسرے عقیدے کو قبول کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہے کیونکہ اس کی نظر میں ہر حال میں اور ہمیشہ بس اسلام ہی حق اور درست ہے باقی ساری دنیا احمق گدھی اور خنزیر کی اولاد ہے۔۔ اور اسلام اور مسلمان دودھ کے دھلے ہوئے ہیں اور ہر وقت امن کی فاختائیں اڑاتے رہتے ہیں۔۔
اگر آپ پوچھیں کہ کیا آپ اجتہاد کی اجازت دیتے ہیں چاہے مجتہد کا اجتہاد اس نتیجے پر پہنچے کہ نقاب فرض نہیں اور ہم جنس پرستی قومِ لوط کا فعل نہیں تو فوری الزام آئے گا کہ آپ کافر ہیں اور فحاشی چاہتے ہیں۔
اگر آپ سوال کریں کہ کیا آپ اپنے مسلمان بھائی اسامہ بن لادن، ایمن الظاہری، ابو مصعب الزرقاوی ودیگر جہادیوں کی متشدد کاروائیوں کی مذمت کرتے ہیں ۔اس پر ان کا فوری جواب یہ آتا ہے کہ انہوں نے اسلام کو ٹھیک طرح سے نہیں سمجھا اور یہ حقیقی اسلام نہیں ہے، مگر ان کے جرائم کی مذمت کبھی نہیں کرے گا۔
اگر کوئی اسلام پر تنقید کرے تو فی الفور ان کی صدائیں بلند ہوتی ہیں کہ ”آپ کو میرے عقیدے کا احترام کرنا چاہیے” یا ”آپ کو اسلام پر بات کرنے کا حق نہیں کیونکہ آپ اسے نہیں جانتے” یا ”آپ کو اسلام پر تنقید کا حق نہیں” یا پھر ”آپ یہودی یا عیسائی ہیں اور اسلام کو بدنام کرنا چاہتے ہیں” وغیر وغیرہ…
سوال یہ ہے کہ کیا اسلام انسانی فکر کی آخری حد ہے؟ اور کیا اسے تنقید سے استثناء حاصل ہے جبکہ دیگر تمام مذاہب پر ہمیشہ سے تنقید ہوتی آرہی ہے اور اب بھی ہو رہی ہے؟
قرآن دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو گدھوں سے تشبیہ دیتا ہے (جن لوگوں کو تورات کا حامل بنایا گیا پھر انہوں نے اسکے حامل ہونے کا حق ادا نہ کیا انکی مثال گدھے کی سی ہے جس پر بڑی بڑی کتابیں لدی ہوں – سورۃ الجمعۃ آیت 5) یعنی عیسائی گدھے کی طرح ہیں جن کی پیٹھ پر کتابیں لدی ہیں مگر انہیں نہیں پتہ کہ یہ کتابیں ہیں یا۔۔
اسلام ایک قدیم اور ابتدائی دور کی فکر ہے جو عظیم فلاسفروں کے فکری تصنیف کی سطح کا نہیں ہے مگر مسلمان کی تربیت اسلامی فکر کی عظمت اور قدسیت پر اس قدر شدت سے کی جاتی ہے کہ وہ کسی با مقصد گفتگو کے قابل ہی نہیں رہتا اور قرآن اور اسلام پر تنقید برداشت کرنا تو گویا اس کے لیے تقریباً ناممکن امر ہوتا ہے اور زندگی اور موت کا سوال بن جاتا ہے گویا کہ اسلام تمام تر انسانی فکر کے ماحاصل سے بلند وبرتر ہو۔۔
اسلام بھی انسان کی دیگر ازمنہء قدیم کی فکری دریافتوں کی طرح ایک دریافت ہے اور انسانی میراث سے کسی طور الگ نہیں، اس پر بھی اسی طرح تنقید ہونی چاہیے جس طرح دیگر فکری تصانیف پر کی جاتی ہے… ۔
♦
9 Comments