برکس کی جانب سے پاکستان سمیت خطے میں موجود دہشت گردی کی تنظیموں کے خلاف کاروائی کرنے کے اعلامیے کے بعد کابل میں متعین چینی سفیر یاؤ جینگ نے کہا ہے کہ بیجنگ حکومت افغانستان، پاکستان اور تاجکستان کے ساتھ مل کر انسداد دہشت گردی کے طریقہ کار کی تیاری میں مصروف ہے۔
چینی سفیر یاؤ جینگ نے یہ بات ان تینوں ممالک کی مشترکہ سرحد کے قریب واقع شمال مشرقی افغان صوبے بدخشان کے دورے کے موقع پر کہی، جہاں حالیه دنوں میں طالبان اور داعش کے حامی عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں میں نمایاں اضافہ دیکها جا رہا ہے۔ افغانستان کے صوبہ بدخشاں کی سرحدیں پاکستان کے خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان کے ساتھ چین کے سنکیانگ اور تاجکستان کے گورنو بدخشاں نامی خطوں سے ملتی ہیں۔
چینی سفیر نے واضح کیا کہ یہاں بڑهتی ہوئی دہشت گردانہ کارروائیاں نہ صرف چین اور افغانستان بلکہ تمام خطرے کے لیے تشویش کا باعث بن رهی ہیں، ” گزشتہ ماه تاجکستان منعقده اجلاس میں مختلف طریقہ کار پر بات هوئی۔ ہم کئی طرز کے عسکری تعاون پر غور کر رہے ہیں جیسا کہ مشترکہ مشقیں، سرحدوں پر مشترکہ گشت اور شاید مستقبل میں مشترکہ آپریشنز بهی اس میں شامل ہوں“۔ یاو جینگ نے افغانستان میں چینی سرمایہ کاری میں اضافے کی جانب اشاره کرتے ہوئے کہا کہ بیجنگ حکومت یہاں کئی منصوبوں میں سرمایہ کاری کر رہی ہے۔
انہوں نے بدخشاں میں فائبر آپٹک کیبل بچهانے کے منصوبے کا بهی ذکر کیا، “چینی حکومت شاہراه ریشم اقتصادی تعاون کے منصوبے پر کام کر رہی ہے جوکه حقیقت میں تو شاہراه نہیں بلکه خطے کے ممالک کے مابین اقتصادی رابطے بڑهانے اور مشترکه ترقی کا ایک نظریہ ہے اور افغانستان چین کا ایک قریبی ہمسایہ ہے“۔
حالیہ برسوں میں افغانستان کے کئی ایسے شمالی صوبے بدامنی کے لپیٹ میں آئے ہیں، جو گزشتہ کئی برسوں تک خاصے پر امن تھے۔ بدخشاں صوبہ ان میں سے ایک ہے۔ دیگر شمالی صوبوں جیسا که جوزجان، قندوز اور فاریاب میں بڑهتی بدامنی کی وجہ سے وسطی ایشیائی ممالک ازبکستان، ترکمانستان اور روس نے بهی اپنے خدشات ظاہر کیے ہیں۔
مبصرین کے بقول ان افغان علاقوں ایک بہت بڑی تعداد داعش کے حامی چیچین، وسط ایشائی، پاکستانی، عرب اور خود افغان عسکریت پسند فعال ہیں، جو طالبان سے بهی زیاده سفاک تصور کیے جاتے ہیں۔ تجزیہ نگار بریگیڈیئر محمد عارف کے بقول چینی حکومت نے کافی عرصے تک افغان تنازعے کے سیاسی اور جنگی پہلو سے خود کو دور رکها مگر اب بیجنگ ایک نمایاں اور فعال کردار نبهانے کی جانب بڑھ رہا ہے۔کچھ تجزیہ نگاروں کے خیال میں جو کام امریکہ نہیں کر سکا وہ شاید چین سرانجام دے دے ۔
“سال 2014 میں غیر ملکی افواج کی ایک بہت بڑی تعداد کے افغانستان سے چلے جانے کے بعد خطے کے لگ بهگ تمام ممالک جیسا کہ پاکستان، ایران، روس، وسط ایشیائی ممالک اور بهارت افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ بڑهانے کی جانب مائل ہوئے جبکہ حقیقت میں چین اس خطے کی ایک بہت بڑی طاقت ہے تو اس کا چین کا غیر جانبدار رہنا زیاده منطقی نہیں رہا“۔
سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کی سیکیورٹی ایسٹیبشلمنٹ بھارت سے متعلق اپنی پالیسی بدلے گی؟۔
پاکستانی ریاست ان دہشت گردوں کو اپنا سٹریٹجک اثاثے قرار دیتی ہے اور ان کی سرپرستی کی اہم وجہ خطے میں بھارت کے اثرورسوخ کو کم کرنا ہے۔دہشت گردوں کی سرپرستی سے پاکستان کو تو کچھ حاصل نہیں ہوا لیکن بھارت ہمسایہ ممالک سے باہمی تعلقات اور تجارت کی وجہ سے اپنا اثرورسوخ بڑھاچکا ہے۔ افغانستان سے تجارت کے علاوہ سٹرٹیجک پارٹنر شپ کا معاہدہ بھی کر چکا ہے جس کے تحت بھارت افغانستان کی فوج کی تربیت کے ساتھ ساتھ فوجی ساز وسامان بھی مہیا کرے گا۔
DW/News Desk
One Comment