لاہور کے حالیہ ضمنی انتخابات پر سوشل میڈیا میں رد عمل ابھی تک جاری ہے۔ یہ ردعمل کہیں دلچسب ہے کہیں پریشان کن۔ مختلف تجزیہ کار ان انتخابات کے نتائج سے اپنی مرضی اور پسند کے نتائج اخذکر رہے ہیں۔ ا ن میں وہ لوگ شامل ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ انتخابات پاکستان میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں لا سکتے۔ ہر انتخاب کے نتیجے میں امراء ، اونچے طبقے یا شرفاء کی ہی حکومت قائم ہوتی ہے۔ چنانچہ لوگ اس سے مایوس ہوتے ہیں۔ وہ جمہوریت پر ہی سوال اٹھاتے ہیں۔
اس حوالے سے چند باتیں اہم ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ انتخابی نتائج پر مایوسی کا اظہار تب جائز ہے جب انتخابات در حقیقت نظام تبدیل کرنے کے لیے منعقدہوتے ہوں۔ کسی پارٹی یا امیدوار نے اپنے انتخابی منشور میں نظام کی تبدیلی کا کوئی پروگرام دیا ہوا۔
یوں تونئے پاکستان یا تبدیلی کا نعرہ ایک فیشن بن گیا ہے۔ یہ نعرہ تو اب خود سب سے زیادہ حکمران طبقات لگاتے ہیں جن کے ہاتھ میں تبدیلی کا پورا اختیار ہے۔ مگر اگر آپ تفصیل میں جائیں تو کسی بھی بڑی پارٹی کے انتخابی منشور میں نظام کی تبدیلی کا کوئی حقیقی خاکہ یا بلیو پرنٹ نہیں ہو تا۔ اس مد میں سب پارٹیوں کے منشور تقریبا ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ بس ان کے الفاظ اور اصطلاحات میں تھوڑا بہت فرق ہوتا ہے۔ مگر گھوما پھرا کر سب بڑی پارٹیاں سٹیٹس کوہ برقرر رکھنے اور موجودہ نظام کے تسلسل کی بات کرتی ہیں۔
کچھ چھوٹی پارٹیاں نظام میں بنیادی تبدیلی کی بات کرتی ہیں ، مگر ان کو اس وقت عوام میں پزیرائی نہیں ہے۔ ان میں کچھ بائیں بازوں کی ترقی پسند پارٹیاں ہیں جن کو سماج میں سپیس نہیں دیا جا رہا ۔ اور کچھ دائیں بازوں کی رجعت پسند پارٹیاں ہیں جو حقیقی معنوں میں نظام تبدیل کرنے پر یقین رکھتی ہیں۔ مگر اس نظام کو وہ جس نظام سے بدلنا چاہتے ہیں اس کے لیے عوام ان کو چننے کے لیے تیار نہیں۔ لاہور کے ضمنی انتخابات میں جماعت اسلامی کے ووٹ اس کی تازہ ترین مثال ہیں۔
یہ درست ہے کہ پاکستان کے سب انتخابات میں، سوائے ایک آدھ کے ، صرف اشرافیہ ہی جیتتی ہے۔ مگر اشرافیہ کی جیت کا ہر گز مطلب یہ نہیں ہے کہ جمہوریت صرف اشرافیہ کے فائدے میں ہے۔ اس کے برعکس جمہوریت ایک عوامی نظام ہے جس کا لازمی اور آخری فائدہ صرف عوام کو ہی ہوتا ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ یہ ایک سچی اور عوامی جمہوریت ہو۔
جمہوریت کا مطلب صرف ووٹ دینا یا لینا نہیں ہے۔ یہ ایک پورا طرز زندگی ہے۔ اس میں معاشی اور سماجی انصاف شامل ہے۔ انسانی حقوق اور شہری آزادیاں ہیں۔ غیر مشروط اور غیر محدود حق اظہار رائے ہے۔ قانون کی حکمرانی ہے۔
پاکستان میں جمہوریت سے مایوسی ابھی بہت قبل از وقت ہے۔ یہاں جمہوریت کے سفر کا ابھی صرف آغاز ہوا ہے۔ چنانچہ اس نے ابھی اس تاریخی تجربے سے گزرنا ہے جس سے دنیا کی کامیاب جمہوریتیں گزر چکی ہیں۔ جمہوریت کے خلاف جو دلائل ہمیں آج سنائی دیتے ہیں یہ مختلف ادوار میں مختلف ملکوں میں اٹھائے گئے تھے۔ ان پر مکالمہ ہوا۔ اور ان کے حتمی جوابات فراہم کر دئیے گئے۔
جمہوریت کے آغاز کے ساتھ ہی اس کے خلاف آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی تھیں۔ ان میں کئی بہت ہی بلند اور طاقتور آوازیں شامل تھیں۔ کئی بڑے بڑے فلاسفر تھے۔ کئی مفکر اور دانشور تھے۔ کئی امرا ء و شرفاء تھے۔ کئی بڑے بڑے انقلابی تھے۔ اور کئی سیاست دان۔
آغاز قدیم ایتھنز سے ہوا تھا۔ظاہر ہے یہ جمہوریت آج کی جیسی نہیں تھی۔ اس میں بے شمار قباحتیں اور خامیاں تھیں۔ مگر ان کا ازالہ بھی ایک سست رفتار اور صبر آزماسفر میں تھا۔ اور بلاآخر ہوا بھی ایسے ہی۔ جمہوریت کے ابتدائی ناقدوں میں افلاطون اورارسطو جیسے فلاسفر بھی شامل تھے۔ ان کے خیال میں جمہوریت کے ذریعے ریاست جاہل اور لالچی لوگوں کے ہاتھوں میں چلی جائے گی۔ جب کہ ریاست کا نظام چلانے کے لیے ایک خاص ذہانت اور تربیت کی ضرورت ہے۔
یہ ذہانت اور مہارت چندخاص لوگوں کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ امراء اور شرفاء کی حکومت کا تصور ی یہاں ہی سے ابھرتا ہے۔ کہ حکومت سب سے قابل، با کردار، نیکو کار اور تجربہ کار لوگوں کے ہاتھوں میں ہونی چاہیے۔ یعنی اریسٹوکریسی ، جس کامطلب ہی بہترین لوگوں کی حکومت ہے۔ یہ بہترین لوگ ذہین، دانشمند، سوچ و بچار کرنے والے، منصف اور ایماندار ہوں گے۔ اس سوچ کے نتیجے میں فرانس، انگلنیڈ اور یورپ کے دیگر ممالک میں اشرافیہ کی حکومتیں قائم ہوئیں۔
مگر ان لوگوں نے یورپ میں جس طرح کا لوٹ کھسوٹ کا نظام تشکیل دیااس کے رد عمل میں یورپ میں کئی انقلاب رونما ہوئے۔1774سے لیکر1848 تک یورپ اس کے رد عمل میں ان حالات سے گزرا جسے انقلابوں کاعہد کہا جاتا ہے۔ اس دوران یورپ مطلق العنان بادشاہتوں سے نکل کر آہنی ریاستوں اور ریپبلکس میں تبدیل ہوا۔ اس طرح کسی نہ کسی شکل میں عوام کو ریاستی اورحکومتی نظم و نسق میں شامل کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اسی لیے جمہوریت کو عوام کی تحریک سمجھا جاتا ہے۔
مگر بد قسمتی سے انقلابوں کے عہد سے گزرنے کے بعد بھی جمہوریت کی مخالفت یا اس سے مایوسی کا سلسلہ جاری رہا۔ بلکہ اس کی مخالفت میں اضافہ ہوا اس لیے کہ نئے دور میں جمہوریت کا سوال معاشی اور سماجی انصاف کے سوال کے ساتھ جڑ چکا تھا۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ کے بانی نے جمہوریت کے خلاف دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ نظام ہمیں جائداد کی خطرناک مساوی تقسیم کی طرف لے جائے گا۔
اس سچائی کا اظہا رکرتے ہوئے ایک امریکی مصنف او۔آر آدم جونےئر لکھتا ہے کہ ہمارے فاوئنڈنگ فادرزایسی حکومت قائم کرنے سے خوفزدہ تھے جس میں بہت زیادہ خالص جمہوریت ہو۔ انہیں اس تباہی کا خوف تھا جو اکثریت سب کو برابر بنانے کے عمل میں لا سکتی ہے۔ اور اس سلسلہ عمل میں وہ ہماری جائدایں اور حق جائداد چھین سکتے ہیں۔ اور ہماری وہ آزادیاں چھین سکتے ہیں جنہیں خدا کی دی ہوئی آزادیاں سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے بانیوں اور باپ دادا کو اس رابن ہڈقسم کے مائنڈ سیٹ کے پھیلنے کا خوف تھا جس کا آج ہمیں سامنا ہے۔ یعنی امیر سے لواور غریب کو دو۔ یہ سوشلزم کی طرف جمہوری ڈرفٹ ہے۔
بنجمن فرینکلن نے کہا تھا جمہوریت دو بھیڑیوں اور ایک بھیڑ کے درمیان اس بات پر ووٹنگ ہے کہ ہم آج دوپہر کے کھانے میں کیا کھائیں گے۔ اس طرح تھامس جیفرسن نے جمہوریت کو انبوہ گردی یعنی عامیوں کی حکومت کہا تھا جس میں اکیاون فیصد ، انچاس فیصد کا حق چھین سکتے ہیں۔ پرولتاریہ کی آمریت کا تصور اپناتے ہوئے مارکس اور اینگلز کے ذہن میں بورژوا جمہوریت کے لیے تحفظات تھے۔ لینن نے پرولتاریہ کی آمریت کو ایک مکمل سوشلسٹ جمہوریت کی طرف پیش قدمی کے دوران ایک عبوری قدم کے طور پر لازمی قرار دیا تھا۔ ان کے خیال میں اس عبوری عہد میں عام لوگ اس قدر تعلیم وتربیت یافتہ ہو جائیں گے کہ پرولتاریہ ٓ امریت اور ریاست خود بخود غائب ہو جائے گی۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جمہوریت سے مایوسی یا اس کی مخالفت کوئی نیا یا صرف پاکستان کاہی مسئلہ نہیں۔ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے جو انسان کو تاریخ کے ہر دور میں درپیش رہا۔ جمہوریت میں کئی خامیاں ہیں۔ یہ کوئی مکمل نظام نہیں۔ مگر اپنی تمام ترخامیوں کے باوجود معلوم اور مروجہ نظاموں میں یہ ہی سب سے بہتر نظام ہے۔ یہ ایک سچی عوامی تحریک ہے جس میں اگر تسلسل رہے تو یہ حقیقی معنوں میں عوام کا مقدر بدل سکتی ہے۔
♥