آصف جاوید
اقتصادی جریدے “دی اکنامسٹ ” کی رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش کی فی کس آمدنی 1538 ڈالر ، جب کہ پاکستان کی فی کس آمدنی 1470 ڈالر ہوگئی ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان کے بے رحم چنگل سے آزادی کے وقت بنگلہ دیش کی صنعتی پیداوار کا ملک کی قومی پیداوار میں حصّہ صرف 7 فی صد تھا، جو کہ بڑھ کر اب 29 فیصد ہو گیا ہے ۔ اور گروتھ ریٹ یعنی ترقّی کی شرح 7 فی صد سالانہ سے زیادہ ہے۔ بنگلہ دیش کی ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات ، انڈیا اور پاکستان کی مجموعی برآمدات سے زیادہ ہیں۔
ادھر پاکستان کی معیشت کے اہم شعبے ٹیکسٹائل کی زبوں حالی کی صورتحال یہ ہے کہ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق سال 2006 ء سے 2014 ء کے درمیان پاکستان کی ٹیکسٹائل کی برآمدات صرف 18 فیصد بڑھی ہے، جبکہ اسی عرصے کے دوران چین ، بنگلہ دیش اور بھارت کی ٹیکسٹائل برآمدات میں 175فیصد تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
پاکستان میں ٹیکسٹائل سیکٹر کا ملکی مجموعی برآمدات میں حصہ 55 فیصد ہےٹیکسٹائل کا شعبہ مینوفیکچرنگ سیکٹر میں 38 فیصد ملازمتیں فراہم کرتا ہے اور ملکی جی ڈی پی میں اس کا حصہ 8 فیصد سے 9 فیصدہے۔ اگر بنگلہ دیش اور انڈیا کی طرح پاکستان کی ٹیکسٹائل کی برآمدات میں بھی 175 فیصد اضافہ ہوگیا ہوتا تو آج ملک کی معیشت اتنی بدحال نہ ہوتی۔ آئیے ان عوامل کا جائزہ لیتے ہیں کہ ملک کی معیشت کے اہم ترین شعبے میں اتنی بدحالی کیوں ہے؟
معیشت کے اہم شعبے ٹیکسٹائل کی زبوں حالی پر پر آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کا ردِّ عمل یہ ہے کہ خام مال کی عدم دستیابی، اضافی ٹیکس اور توانائی کا بحران ٹیکسٹائل برآمدات میں مسلسل کمی کا باعث بن رہا ہے۔حکومت نے اگلے 5سال میں ٹیکسٹائل برآمدات کا ہدف 26ارب ڈالر مقرّر کر رکھا ہے مگر بد قسمتی سے خطے کے دیگر ممالک کی نسبت پاکستان میں ٹیکسٹائل برآمدات پر سب سے زیادہ ٹیکس عائد ہیں۔
چین اور بنگلہ دیش میں ٹیکسٹائل ایکسپورٹ پر صرف 1فیصد ٹیکس ہے،جبکہ بھارت میں ٹیکسٹائل برآمدات ٹیکس فری ہیں، اس کے برعکس پاکستان میں ٹیکسٹائل ایکسپورٹ پر 5فیصد ٹیکس عائد ہے ۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ہماری ٹیکسٹائل مصنوعات دیگر مقابلاتی حریفوں بنگلہ دیش اور انڈیا سے تقریباً 8 سے 10 فیصد مہنگی ہیں۔
ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ جو کہ ٹیکسٹائل کی صنعت کے ایک بڑے صنعتکار ہونے کے علاوہ علاوہ معاشی و سماجی حرکیات (ڈائنمکس) کے ماہر ہیں۔ ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ کے مطابق گزشتہ سال زراعت کے شعبے میں منفی گروتھ دیکھی گئی تھی اور کاٹن کی پیداوار 14 ملین بیلز سے کم ہوکر 9.5 ملین بیلز رہی جبکہ بھارت نے جدید بیجوں کے استعمال سے اپنی کاٹن کی پیداوار 18 ملین بیلز سے بڑھاکر 36ملین بیلز سالانہ کرلی ہے اور آج بھارت دنیا میں کاٹن ایکسپورٹ کرنے والا اہم ملک بن چکا ہے“۔
اگر خطّے کی معیشت کا عمومی جائزہ لیں تو پاکستان کی صورتحال یہ ہے کہ گزشتہ30 برسوں کے دوران پاکستان کی فی کس آمدنی چین اور بھارت سے بھی گر چکی ہے ۔ تین دہا ئیاں قبل پاکستان کی فی کس آمدنی بنگلہ دیش کے مقابلے میں 80فیصد بلند تھی جو کہ گزشتہ تیس سالوں میں گھٹتے گھٹتے تیس فیصد کی سطح تک پہنچ چکی ہے،اس کا مطلب یہ ہے کہ بنگلہ دیش اور خطے کے دوسرے ممالک تیزی سے معاشی ترقی کی منازل عبور کر رہے ہیں، جبکہ بدقسمتی سے پاکستان ترقی معکوس کا شکار ہے۔
بنگلہ دیش کی بالغ شہری آبادی کی شرح تقریباً ساٹھ 60 فیصد ہے، اور نوجوانوں میں شرح خواندگی اکیاسی 81فیصد ہےجبکہ پاکستان میں یہ بالغ شہری آبادی کی شرح 56 چھپّن فیصد ہے، اور شرح خواندگی بہتّر 72فیصد تک محدود ہے۔
قارئین اکرام لفظ خواندہ سے غلط فہمی میں مبتلا مت ہوں۔ شرح خواندگی کا مطلب ہے کہ جس شخص کو اپنا نام لکھنا اور پڑھنا آتا ہو، وہ خواندہ کہلاتا ہے ۔شرح خواندگی اور تربیت یافتہ افرادی قوّت میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ تربیت یافتہ ہنر مندافرادی قوّت کا مطلب ہوتا ہے ، وہ ہنر مند افراد جیسے کارپینٹر، الیکٹریشن ، پلمبر، مشینسٹ وغیرہ جنہوں نے وقت لگا کر فن کی باقاعدہ تربیت ، علم اور تجربہ حاصل کیا ہوتا ہے۔
سرمایہ معیشت کا ایندھن ہوتا ہے ، مگر معیشت صرف سرمائے سے نہیں چلائی جاسکتی ہے۔ پوری دنیا میں رائج ایک آفاقی اصول کی بنیاد پر بنیادی تعلیم یافتہ ، ہنر مند افرادی قوّت کو معیشت کی ترقّی کا پہیّہ سمجھا جاتا ہے۔ اگرپہئیے ناکارہ ہوں تو صرف ایندھن سے معیشت نہیں چلائی جاسکتی ہے۔ ہمارا المیہ دوچند ہے، نہ مطلوبہ مقدار میں ایندھن دستیاب ہے ، نہ ہی مناسب چال چلنے والے پہئے ، اب گاڑی چلے تو کیسے چلے؟۔
ہماری تو حالت یہ ہے کہ ہم رواں مالی سال کے لئے جی ڈی پی کا مقرّرہ ہدف 5اعشاریہ 7 فیصد تک حاصل نہ کر سکے ہیں۔
قارئین اکرام ہمارے ترقّی پسند دانشور دوست ارشد محمود کا اس صورتحال پر بڑا دلچسپ تجزیہ ہے، آپ بھی ملاحظہ کریں” یہ لمحہ فکریہ ہے کہ جس مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کوہم نے گھٹیا کہہ کر کئی دہائیاں پہلے دھتکارا تھا۔۔ اس کی فی کس آمدنی پاکستان سے بڑھ گئی ہے۔۔ یورپ اور انگلینڈ ، امریکہ، کینیڈا کے اکثرورلڈ کلاس گارمنٹس سٹوروں میں آپ کومیڈ اِن بنگلا دیش کے کپڑے دیکھنے کو مل جائیں گے۔ جب کہ پاکستانی پراڈکٹس کا نام و نشان بھی نہیں ملےگا۔۔ پاکستان کے زوال کے دو بڑے اسباب ہیں۔ اور دونوں جڑواں بھائی ہیں۔ ایک ہماری سیکورٹی ریاست کے خود غرض اندھے کمانڈرز۔ جنہوں نے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ دشمنی، جنگ اورجہاد میں ڈال کرپاکستان کو تباہ کروایا ہے۔ اس ٹولے نے عوامی اورسیاسی قیادت کوپاکستان کا انتظام سنبھالنے سے روکا ہے۔ دوسرا مذہب پرپاگل پن کی حد تک فریفتہ ہوجانا۔ کوئی بھی قوم ہو۔۔ جو مذہب میں ڈوب جائی گی۔۔ وہ اخلاقی، معاشی، تہذیبی سطح سے گرتی چلی جائے گی۔
قارئین اکرام ملک کی معیشت خطرناک حد تک گر چکی ہے۔ ہم پست ترین ملکوں سے بھی پست ہوتے چلے جارہے ہیں، مگر ہمارے ارباب ِ اختیار کو ہماری پستی کا ادراک نہیں ہے۔ عسکری اشرافیہ، جہادی ملّا ؤں اور جاگیرداروں کی ٹرائیکا ، ہمارے ملک کو تباہی کے کنارے پر لاچکی ہے۔ ہمیں اس حالت سے نکلنے کے لئے کسی معجزے کا انتظار نہیں کرنا چاہئے، جب تک ہم عسکری اشرافیہ ، جہادی ملّا ئوں اور جاگیر داروں کو نکیل نہیں ڈالیں گے، پستی اور ذلّت کا شکار رہیں گے۔
♦