بلوچستان کے سیاسی کارکنوں نے ریاستی مظالم کے خلاف بیرون ملک آزاد بلوچستان کی پراپیگنڈہ مہم شروع کر دی ہے جس کے تحت سوئٹزر لینڈ کے دارلحکومت میں مختلف مقامات پر آزاد بلوچستان کے بینر لگائے گئے ہیں۔ جبکہ پاکستانی دفتر خارجہ نے سوئٹزرلینڈ میں پاکستان مخالف پوسٹرز لگائے جانے پر اسلام آباد میں تعینات سوئس سفیر تھوماس کولی کو طلب کر کے باقاعدہ احتجاج کیا ہے۔
اسلام آباد میں پاکستانی دفتر خارجہ کے بیان میں بھی کہا گیا ہے کہ سوئٹزرلینڈ پاکستان کا ایک اہم یورپی پارٹنر ملک ہے، جس کی حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنے ہاں پاکستان کے خلاف چلائی جانے والی اس مہم کے ذمہ دار عناصر کے خلاف کاروائی کرے۔
حکومت نے حسب دستور اس مہم کا ذمہ دار بھارت کو ٹھہرادیا ہے۔وزیر خارجہ کی عدم موجودگی کی وجہ سے سرحدی امور کے وزیر عبدالقادر بلوچ قومی اسمبلی میں جواب دیتے ہوئے ‘فری بلوچستان‘ نامی پوسٹرز مہم کی فنڈنگ کا الزام انڈیا پر عائد کیا اور بتایا کہ حکومت نے سوئٹزرلینڈ کی حکومت سے اس مہم کو بند کروانے کا مطالبہ کیا ہے۔
وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ نے ایوان کو بتایا کہ سوئٹزر لینڈ نے کہا ہے کہ اُن کے ملک میں تمام شہریوں کو آزادی رائے کا حق حاصل ہے۔
خیال رہے کہ جنیوا میں رواں ماہ کے آغاز میں متعدد مقامات اور بسوں پر ایسے پوسٹر آویزاں کیے گئے تھے جن پر بلوچستان کی آزادی اور پاکستان میں اقلیتوں سے ناروا سلوک کے بارے میں نعرے درج تھے۔
بلوچ سیاسی کارکنوں کے مطابق پاکستانی حکومت نے ان بینرز کے خلاف سوئس حکومت سے تو احتجاج کیا ہے مگر بلوچستان میں جاری ریاستی مظالم پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ یہی حال پاکستان کے آزاد میڈیا کا ہے جسے سوئٹزر لینڈ میں آزاد بلوچستان کے بینر تو پاکستان کے خلاف گہری سازش نظر آتے ہیں لیکن بلوچستان میں جاری ریاستی مظالم پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔
بلوچ رہنما میر بہاول مینگل کا کہنا ہے کہ آنکھوں پر سیاہ پٹی بندھی پاکستانی میڈیا کو چند سو کلومیٹر کے فاصلے پر بلوچستان میں ہونے والے ریاستی مظالم اور بلوچوں کی نسل کشی، مسخ شدہ لاشیں، جلتے گھر نظر نہیں آتے لیکن ہزاروں کلو میٹر دور جنیوا میں وہ فری بلوچستان کے پوسٹرز کو دیکھ بھی سکتے ہیں اور جھوٹی رپورٹنگ بھی کرسکتے ہے۔ دنیا پاکستان کی چال بازی، منافقت، مکاری اور دروغ گوئی کو جان چکی ہیں، اب پاکستان آنسو بہا کر اور جھوٹ بول کر دنیا کو بے وقوف نہیں بناسکتی، فری بلوچستان کے نعرے دنیا بھر میں گونجیں گے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستانی فوج ایک منظم حکمت عملی کے تحت اپنی قبضہ گیری معاشی مفادات کی خاطر بلوچوں کی نسل کشی کررہا ہے اور اس نسل کشی اور بلوچستان کے آزادی کیلئے اٹھنے والے تحریکوں کو انتہائی سفاکانہ طریقے سے کچلنے کیلئے طاقت کا بے دریغ استعمال کررہا ہے ، جس میں بلوچ آبادیوں پر بمباری ، متحرک بلوچ سیاسی کارکنوں ، تعلیم یافتہ طبقے اور صحافیوں کو خاص طور پر اغواء کرکے لاپتہ کرنا اور بعد ازاں اپنے غیر قانونی و غیر انسانی حراست میں انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بناکر مار کر انکی مسخ شدہ لاشیں بلوچستان کے مختلف علاقوں میں پھینکنا شامل ہے ۔
لاپتہ بلوچ افراد کے بازیابی کیلئے متحرک انسانی حقوق کے تنظیم انٹرنیشنل وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے مطابق اس وقت بیس ہزار سے زائد بلوچوں کو پاکستان فوج اور خفیہ ادارے اغواء کرکے لاپتہ کرچکے ہیں ، اور اب تک ان لاپتہ افراد میں سے دو ہزار سے زائد افراد کی قابل پہچان مسخ شدہ انتہائی تشدد زدہ لاشیں بلوچستان کے مختلف علاقوں سے مل چکی ہیں ، اسی طرح بلوچستان میں سینکڑوں اور ناقابلِ پہچان تشدد زدہ لاشیں مل چکی ہیں جن کے بارے میں یہی شبہہ کیا جاتا ہے کہ وہ بھی بلوچ لاپتہ افراد کی ہیں ۔ ان میں قابلِ ذکر 2014 میں بلوچستان کے علاقے توتک سے ملنے والی اجتماعی قبریں ہیں جن سے169 لاشیں نکالی گئی ان میں سے محض تین کی شناخت آواران بلوچستان کے رہائشیوں سے ہوئی جنہیں دن دہاڑے پاکستانی فرنٹیئر کور نے اغواء کیا تھا جبکہ باقیوں کے چہروں پر چونا انڈیل کر انہیں مسخ کیا گیا تھا ۔
♥