پاکستان میں ہم جنس پرستوں کی خفیہ زِندگی 

یوسف صدیقی

ہم جنس پسندی ایک ہی جنس کے حامل اِفرادکے مابین پائے جانے والے جنسی میلان کے رویے کا نام ہے ۔ہم جنس پرستوں کے مطابق یہ رویہ ’’موروثی‘‘ ہے۔ اُور اِس میں فرد کا کوئی عمل دَخل نہیں ہے۔دُنیا کہ بہت سے مذاہب میں ہم جنس پرستی کو گناہ سمجھا جاتا ہے ،اُور کچھ مذاہب میں ہم جنس پرستی کواختیاری طور پر یعنی آدمی کی’’ مرضی‘‘ پر چھوڑ دیا گیا ہے ۔

لیکن بہت سے جدید سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ہم جنس پسندی اِختیاری نہیں ہے، بلکہ جینیاتی ہے ،اور پیدائش سے قبل جب بچہ ہارمون کے زیرِ اثر ہو تا ہے، اِ س عمل سے تعلق رکھتی ہے ۔اِس طرح بہت سے ڈاکٹر اُور سائنسدان اِس بات پر متفق ہیں کہ ہم جنس پرست کے رویے کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا ہے ۔پہلے پہل ڈاکٹر حضرات ہم جنس پرستی کو ایک ذِ ہنی بیماری سمجھ کر اس کا علاج کر تے تھے۔ لیکن آج بہت سے ممالک میں ہم جنس پرستی کوذہنی بیماریوں کے زُمرے سے نکال دیا گیا ہے ۔دُنیا میں کچھ اِسلامی کمیونٹیز ہم جنس پرستی کا رُوحانی علاج کر رہی ہیں ۔اُور بہت سے ہم جنس پرستوں کا کہنا ہے کہ اُنھوں نے خود کو مخالف جنس کی طرف مائل کیا ہے ۔لیکن بہت سے لوگ ایسی باتوں پر یقین نہیں رکھتے ۔

ہم جنس پرستی کا تاریخی پس منظر بہت قدیم ہے ۔اُور ہم جنس پرستی کو قدیم یونان کے اہلِ علم قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔ہم جنس پرستی کے متعلق دُنیا بھر کے موجودہ سماجوں کے رویے کی جڑیں قدیم مذہبی ،قانونی اُور ثقافت کی مضبوط قدروں میں پیوست ہیں۔قرونِ وسطیٰ کے آغاز میں عیسائی چرچ ہم جنس پرستی کو برداشت کر تا یا کم اَز کم چرچ کے باہر ہم جنس پسندی کو نظر انداز کردیا جاتا تھا ۔تا ہم بارہویں صدی کے آغاز میں ہم جنس پرستی کو قابل نفرت نگاہوں سے دِیکھا جانے لگا ۔اُنیسویں صدی تک ہم جنس پرستی کو فطرت کے خلاف بغاوت تصور کیا جاتا تھا۔جس کی وجہ سے لوگ ہم جنس پسندی کی وجوہات معلوم کر نے کے لیے پہلے سے زِیادہ دلچسپی لینے لگے ۔

ماہرِ نفسیات سگمنڈفرائیڈ کا کہنا ہے کہ ’’ہم جنس پسندی کا تعلق اِنسانی موروثیت سے ہے ۔اِنسان بالاآخر منتخب کر تے ہیں کہ جنسی کشش کا کون سا طریقہ تسکین بخش ہے! ۔لیکن ثقافتی پابندیوں کی وجہ سے ہم جنس پسندی کے جذبات اِنسانوں میں دَب کر رہ جاتے ہیں۔اگر پابندیا ں نہ ہو تو عوام اُس طریقہ کارکو اختیار کریں گے جس کو وہ زِیادہ تسکین بخش سمجھتے ہوں۔اِس طرح وہ ساری زندگی گزار دیں گے کبھی ہم جنس پرست بن کر اُور کبھی مخالف ہم جنس پرست بن کر ‘‘۔

ہم جنس پرستی کی تاریخی نوعیت کے پس منظر کو دیکھتے ہوئے مغربی دُنیا ہم جنس پرستوں کوتسلیم کر چکی ہے ۔اُور کئی مغربی ممالک میں ہم جنس پرستوں کو آپس میں’’شادی‘‘ کرنے کی بھی اِجازت ہے ۔تاہم مغرب میں بھی ہم جنس پرستوں کے حقوق کا تعین اَبھی حال ہی میں ہوا ہے ۔ہم جنس پرستوں کی اِس وقت ساری دنیا میں سرگرمیاں جاری ہیں۔بعض ترقی یافتہ ممالک ہم جنس پرستی کے جذبات کو مذہبی اِنتہا پسندی اُور قدامت پرستی کے نظریات کے خلاف بطور ہتھیار بھی اِستعمال کر رہے ہیں۔ہم جنس پرستو ں کی بین الاقوامی تنظیم ’’لیسبئین اینڈ گے ٹرانس جینڈر ایسوسی ایشن‘‘ کا 1978 میں قیام عمل میں آیا ۔اِس تنظیم کا مقصد دُنیا بھر کے ہم جنس پرستوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کر نا ہے ۔اِس تنظیم کو2008 میں شہرت ملی، جب اُس کی کوششوں سے اِقوام متحدہ میں ہم جنس پرستوں کو حقوق دینے کی قرار داد منظو رہوئی ۔

اِقوام متحدہ تمام رُکن ملکوں کو ہم جنس پسندوں کے حقوق کے تحفظ کی تلقین کر تا ہے ۔اِس عالمی ادارے کے مطابق ’’ہم جنس پرستی یا جنسی ترجیحات کی بنیاد پر ہو نے والے اِمتیازی سلوک اُور تشدد کے خلاف بھی اِسی سختی سے کاروائی کی جائے جیسی اِنسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر کی جاتی ہے‘‘ ۔پاکستان میں ہم جنس پسندی ’’ممنوع‘‘ موضوعات میں شامل ہے۔پاکستانی ہم جنس پرستوں کے متعلق اِنگریزی اخبارت میں کبھی کبھار کوئی رپورٹ یاکالم شائع ہو جاتا ہے ۔اُردو اخبارات میں ہم جنس پرستوں کے موضوعات پر کسی بھی قسم کا کوئی مواد شائع کر نے کی اجازت نہیں ہے۔ 

اِکیسویں صدی کے دُوسرے عشرے میں بھی پاکستان کے ہم جنس پرست ’’خفیہ زندگی‘‘ گزارنے پر مجبور ہیں۔ اُور اِن کو کسی بھی قسم کے حقوق حاصل نہیں ہیں۔ پاکستان میں ہم جنس پرستوں کی زندگی ’’شرعی قوانین‘‘ میں جکڑی ہوئی ہے۔ اُور ’’ہم جنس پرستی‘‘ پاکستانی عوام کے لیے ہمیشہ سے ’’چو نکا ‘‘دِینے والا موضوع رَہا ہے۔پڑوسی ملک بھارت میں ہم جنس پرستی کو قانونی طور پر 2009 میں جائز قرار دیا گیا ۔بھارت میں ہم جنس پرستوں کو قانونی حق ملنے کے بعد پاکستان کے ہم جنس پرست بھی کافی زیادہ متحرک ہو گئے ہیں۔

اِس سلسلے میں کچھ سال پہلے کراچی جیسے تجارتی اُو ر پرُرونق شہر میں ہم جنس پرست نوجوانوں نے’’پریڈ‘‘ کا اہتمام کیا گیا تھا ۔ ہم جنس پرستوں کے پرچم کی نسبت سے سات رنگوں والی ٹی ۔شرٹ پہنے یہ نوجوان ایک دن شام کے وقت ایک پرُہجوم شاہراہ پر نمودار ہوئے، جو لوگ اِن کو جانتے تھے ۔اُور اِن کے کردار سے بخوبی واقف تھے ۔وہ لوگ ہم جنس پرستوں کو دیکھ کر ’’وکٹری‘‘ کا نشان بنا رہے تھے !۔پر یڈ میں شامل نوجوانوں نے بی۔بی۔سی جیسے بین الاقوامی نشریاتی اداروں سے بات چیت بھی کی۔ مگر اِن نوجوانوں کا چہرہ ’و یڈیوز‘ میں چھپایا گیا۔ جو کہ ایک قسم کے ڈر اُور گھٹن زَدہ سماجی حالات کی عکاسی ہے۔

اگرچہ پاکستان کے ہم جنس پرستوں کے بین الاقوامی ہم جنس پرست تنظیموں سے رَابطے ہیں۔ تاہم وہ تنظیمیں پاکستان کے سماجی حالات اُو ر مذہبی اِنتہا پسندوں کے اَثرو رُسوخ کی وجہ سے اِن کی مدد نہیں کر ر ہی ہیں۔دُوسری طرف پاکستانی حکومت ہم جنس پرستوں کے وجود سے ہی اِنکاری ہے ۔ہم جنس پرست حلقوں کا کہنا ہے کہ کراچی پریڈ کا یہ مقصد بھی تھا کہ ’’ہم جنس پسند پاکستانی سما ج میں موجود ہیں ،اُور ہمیں تسلیم کیا جائے ‘‘۔

یہ بات بھی اَپنی جگہ حقیقت ہے کہ جنرل ضیا الحق کے دور میں سماج کو ’’اِسلامیانے‘‘کے عمل سے گزارنے کے لیے ہنگامی سطح پر دِینی مدارس تعمیر کروائے گئے ۔ پاکستان میں بھٹو دور میں دِینی مدرسوں کی تعداد آٹھ سو تھی ۔جو ضیا دور میں 8000تک پہنچ گئی ۔اُور اَب یہ مدرسے لاتعداد ہیں۔چونکہ جنرل ضیاالحق دِینی مدرسوں کی اِمداد کیا کر تا تھا، اِس لیے یہ نفع بخش کاروبار بن گیا ۔ اِن مدرسوں کے بڑھنے سے جہاں مذہبی اِنتہا پسندی بڑھی وہاں’’جبری ہم جنس پرستی ‘‘میں بھی اِضافعہ ہوا۔دِینی مدرسوں میں جبری ہم جنس پرستی کو ڈھکا چھپا موضوعِ گفتگو نہیں ہے۔ جتنی منظم ہم جنس پرستی ہمارے مدرسوں میں ہوتی ہے ۔شاید پاکستان کے مجموعی سماج میں بھی نہ ہو تی ہو ۔اُستاد ،شاگرد اُور خدام سب ہم جنس پرستی کی بہتی گنگا میں اِشنان کر رہے ہیں۔

پاکستانی حکومت اُور رِیاست یہ سب جاننے کے باوجود ان مدرسوں کے خلاف کاروائی سے گریز کر رہی ہے ۔آئین پاکستان کے دفعہ 377پی پی سی، سی پی آر سی، کے تحت ہم جنس پرستوں کو پھانسی دی جاتی ہے ۔تا ہم یہ ’’دفعہ‘‘ زبردستی جنسی فعل کرنے والوں کے لیے ہے ۔رضا مندی سے جنسی تعلق رکھنے والوں کے بارے میں ابھی تک پاکستان کا آئین خاموش ہے۔’’ہم جنس پرست پارٹی‘‘ جس کو ہم جنس پسندوں کے اصطلاح میں’’گے پار ٹی‘‘ کہا جاتا ہے۔ اُور یہ ایک اہم اِیونٹ ہوتا ہے ۔اِس’’ ایونٹ‘ ‘کو رُوکنے کے لیے رِیاستی پولیس ہم جنس پرستوں پر دَھاوا بول دیتی ہے، اُور کھانے پینے کی اِشیاء لوٹ کر لے جاتی ہے ۔’’گے پارٹی‘‘ منعقد کرنے کے لیے سینچرکا دن مختص ہوتا ہے۔

گے پارٹی منعقد کرنے کے لیے ساحلِ سمندر اُور اِس کے علاوہ بڑے بڑے ہوٹل کرائے پرحاصل کے جاتے ہیں۔تاہم پاکستان جیسے قدامت پرست معاشرے میں یہ سب اِنتہائی’’ خفیہ ‘‘ہو تا ہے۔یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ سماجی رابطو ں کی ویب سائٹس پر ہم جنس پرستوں کے آپس میں رابطے ہیں ۔انٹرنیٹ کی سہولت نے قدامت پسند پاکستانی سماج میں ہم جنس پر ستی کو فروغ دیا ہے۔ اب پاکستانی سماج میں ہم جنس پرست خود کو تسلیم کروانے کی پوزیشن میں آ رہے ہیں ۔دوسری طرف پاکستانی رِیاست اُور سماج کی پسماندہ پرتیں ہم جنس پرستوں کو ’’تسلیم‘‘ کرنے سے اِنکاری ہیں ۔

لیکن اِس کے باوجود پاکستانی سماج میں ہم جنس پرستوں اُور جنس تبدیل کروانے والوں کی قابلِ ذکر تعداد موجود ہے ۔گاؤں کی سطح پر ہم جنس پرستوں کی پہچان آسانی سے ہو رہی ہے ۔اُور شہر میں ہم جنس پرست خفیہ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔جو لوگ رضا مندی سے جنسی تعلق رکھنا چاہیے اُن کو اجازت ہونی چاہیے ۔اُور اگر مدرسے کے ملاں کم سن بچوں سے زَبردستی جنسی تعلق قائم کریں تو اِن بچوں کی قانونی مدد کرکے ملاؤں کو نکیل ڈالنا وقت کی ضرورت ہے ۔اس وقت پاکستانی رِیاست کی ہم جنس پرستی کے حوالے سے کوئی پالیسی نہیں ہے ۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ رِیاست ہم جنس پرستی کے موضوع پر سنجیدگی سے غور کر نے کے بعد جامع پالیسی مرتب کرے ۔

♦ 

Comments are closed.