علی احمد جان
اپنی زندگی میں ہی راز مسرت پانے والے ڈاکٹر غلام جیلانی برق ایک شخص نہیں بلکہ ایک عہد کا نام ہے۔ چالیس کے لگ بھگ کتب کے مصنف ہونے کے ساتھ عربی زبان کے مستند استاد بھی تھے ۔ ان کو نہ صرف قرآن و حدیث پر عبور حاصل تھا بلکہ زبور، تورات اور انجیل کی بھی باقاعدہ تعلیم حاصل کی ہوئی تھی۔ان کو مغربی فلسفے کے علاوہ گوتم بدھ کی تعلیمات پر بھی مکمل دسترس حاصل تھا۔
اس وقت کے کیمبل پور اور آج کے ضلع اٹک سے تعلق رکھنے والے اس نابغہ روزگار نے اپنے دور میں رائج روایتی تعلیم یعنی مولوی، فاضل، منشی فاضل اور پھر ادیب فاضل کے مدارج طے کئے اور پھر انگریزی طرز تعلیم میں میٹرک ، ایف۔ اے، بی ۔اے اور ایم ۔اے کیا ۔ ان کا پی ایچ ڈی کے لئے ابن تیمیہ پر لکھا مقالہ مولانا مودودی کی نظر ثانی کے بعد آکسفورڈ اور ہارورڈ دونوں یونیورسٹیوں سے قبول ہوا اور وہ ڈاکٹر کہلائے۔
ساری زندگی درس و تدریس اور تنصیف و تالیف سے وابستہ رہے ۔ ان کی لکھی کتب آج بھی نہ صرف پڑھی جاتی ہیں بلکہ ان کا ایک بہٹ بڑا حلقہ اثر بھی موجود ہے۔
ان کی ایک کتاب ً اللہ کی عادت ً میرے زمانہ طالب علمی میں میرے ایک استاد نے مجھے پڑھنے کے لئے د ی تو میں نےیہ کتاب سرسری طور پر پڑھی ضرور لیکن اس وقت میں اس کی گہرائی نہ سمجھ سکا تھا۔ پچھلے دنوں یہ کتاب کسی بک سٹال پر نظر آگئی تو اپنے زمانہ طالب علمی اور اپنے اس شفیق استاد کی یاد میں خرید لایا اور دوبارہ پڑھنے کی کوشش کی۔
غلام جیلانی برق نے برصغیر کی آزادی، پاکستان کی تخلیق اور جب تک زندہ رہے نوزائیدہ ملک کے حالات و واقعات کو بطور بینا و دانا اپنی آنکھوں سے شعوری طور پر دیکھا اور اپنے مخصوص انداز میں ضبط تحریر میں لائے۔ یہ کتاب دراصل اس نو آزاد ملک میں رہنے والوں اور اس کو چلانے والوں کے لئے ایک انتباہ کا درجہ رکھتی ہے کہ اگر انھوں نے اپنی آزادی اور اختیار کی قدر نہ کی اور اپنے حدود سے تجاوز کیا تو اللہ کی عادت ہے کہ ایسی قوموں اور معاشروں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیتا ہے۔ اپنے اس انتباہ کے حق میں ڈاکٹر برق نے قرانی آیات کے علاوہ ، دیگر آسمانی کتب ، مغربی مفکرین اور فلسفیوں کی تعلیمات سے بھی دلیل کیا ہے۔
سنہ۱۹۴۷ سے ۱۹۵۵ تک انھوں نے ملک میں جو تبدیلی دیکھی ، معاشرے میں اخلاقی گراوٹ اور اس کے نتائج کو محسوس کیا ، ا س کو یوں بیان کرتے ہیں” ۱۹۴۷ میں دور حاضر کی سب سے بڑی اسلامی سلطنت یعنی پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ اس وقت سے لیکر آج تک اخلاقی انحطاط ، ملی انتشار، خود غرضی، شکم پرستی اور نفسا نفسی کے جو مناظر نگاہ سے گزرے ۔ ان سے مجھے یہ خطرہ پیدا ہوگیا ہے کہ کہیں نصیب اعدا ہمارا یہ ایوان سیاست و اقتدار زمین پر نہ آرہے اور ہماری داستان حریت و آزادی ، جو دس لاکھ نفوس کے لہو سے لکھی گئی ہے ، فسانہ ماضی نہ بن جائے”۔
شائد حالات اس زمانے میں اتنے دگر گوں نہ تھے اس لئے ڈاکٹر برق نے پاکستان میں اخلاقی پستی اور انحطاط کی بد ترین سطح کی تمثیل یوں کی ۔”فرض کیجئے کہ پاکستان میں کے تمام محکموں میں رشوت چلنے لگتی ہے ۔ کلرک اور حکام کاغذ کو دبا کر بیٹھ جاتے ہیں اور صرف وہی کاغذ چلتے ہیں جس کے ساتھ شہد لگا ہو ۔ رفتہ رفتہ عوام میں اضطراب ، پھر انتشار اور بالآخر اپنے ملک سے نفرت پیدا ہو جائیگی۔ اہل ہمت ہجرت کر جائیں گے اور بے ہمت حملہ آور کی راہ دیکھنے بیٹھ جائیں گے ۔ جوں ہی کسی طرف سے حملہ ہوگا عوام حملہ آوروں کا مقدمۃ الجیش بن جائیں گے اور اپنے حکام اور وزراء کو چن چن کر ختم کریں گے”۔
غلام جیلانی برق کسی حکومت کی مثال ایک کواپریٹیو سوسائٹی سے دیتے ہوئے کہتے ہیں” ًعوام مالیہ وغیرہ کی صورت میں روپیہ جمع کرتے ہیں اور پھر ایک منیجر (صدر یا وزیر اعظم ) انتظام چلانے کے لئے مقرر کرتے ہیں، اگر یہ منیجر یا اس کا کوئی ملازم فنڈ میں خرد برد شروع کردے ۔ عام احتجاج سے ٹس سے مس نہ ہو تو سوسائٹی کا فرض ہے کہ اس کو معزول کردے ۔ اگر وہ ممبران کی اکثریت کو کسی طرح ساتھ ملاکر اپنی مسند پر جم جائے اور احتجاج کرنے والوں کا گلا گھونٹنا شروع کردے توپھر سوسائٹی کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ اسے کیفر کردار تک پہنچا نے کے لئے دوسروں کی امداد حاصل کرے اور اسی کا نام ہے قومی زوال”۔
برق کے اس مفروضے اور یہ تمثیل پڑھ کر یوں لگتا ہے کہ ہم آج اس دور میں جی رہے ہیں جب ان کی پیش گوئی حرف بہ حرف سچ ثابت ہو چکی ہے۔ کاغذ کو چلانے کے لئے شہد لگانا انھوں نے بطور مفروضہ کہا تھا جب کہ اب اس دور میں فائل پر رشوت کے پہیے لگانے کی بات کھلم کھلا کی جاتی ہے۔ آج کے دور میں کسی بھی سرکاری دفتر میں رشوت کے بغیر کام ہونے کا مطلب صرف یہ ہے کہ سائل کی سفارش تکڑی ہے یا دھونس بڑا ہے۔
ریاست سے نفرت یا نظام پر عدم اعتماد کی وجہ سے حملہ آوروں کا انتظار اور ان کے ساتھ دینے کی مثالیں بھی ہم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھی ہیں۔ ایسی ایک مثال تو سوات کی ہے جہاں غریب ، بے زمین اور محکوم لوگوں نے حملہ آور طالبان کا ساتھ دیا اور ملک کے نظام عدل سے اپنی بے زاری کا اظہار انتہائی خونی انداز میں کیا۔ سرکاری افسران، با اثر خوانین اور سیاست دانوں کا قتل ہوا جس میں مقامی لوگ بھی شامل تھے ۔
جس بات کو ڈاکٹر برق قومی زوال سے تشبیہ دیتے ہیں وہ تو یہاں بار بار ہوا، چاہے ہم جیسے بھی تشریح کریں ہمارے ہاں زیادہ تر بیرونی طاقتوں نے ہی اپنے منیجر سے جان چھڑانے میں کوا پریٹیو سوسائٹی کے ممبران کی مدد کی ہے۔ جب بھی ہماری کواپریٹیو سوسائٹی کے منیجر کو معزول کیا گیا اس پر اخلاقی جرائم کا الزام لگا۔
ستم یہ ہے کہ منیجروں سے جان چھڑانے کے بعد ہر بار ان ہی بیرونی طاقتوں نے کواپریٹیو سوسائیٹی پر قبضہ کیا اور اخلاقی انحطاط میں اور اضافہ ہوا۔ اگر کرپشن کے الزامات پر فارغ کی گئی پہلی حکومت سے اب تک دیکھا جائے تو ہر بار اس الزام میں اضافہ تو ہوا مگر کمی نہیں آئی ۔ غلام جیلانی برق کے مفروضے پر دیکھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ملک مسلسل قومی زوال کا شکار ہے۔
ڈاکٹرغلام جیلانی برق انتباہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ “اقوام عالم کی تباہی کی وجہ صرف ایک تھی ،ایک ہے اور ایک رہے گی یعنی اخلاقی انحطاط۔ اخلاقی انحطاط وہ آدم خور ہے ، جس کا پیٹ ہزارہا اقوام کا مدفن ہے۔ یونانیوں، کلدانیوں، مصریوں، رومنوں، عباسیوں اور سلجوقیوں کی ہڈیاں آپ کو اسی گورستان میں ملیں گی اور اگر میری نوجوان قوم نے اپنے اعمال کا بہت جلد محاسبہ نہیں کیا تو وہ بھی اسی خاک میں مل کر خاک ہو جائیگی”۔
غلام جیلانی برق نے صرف اخلاقی انحطاط کا ابتدائی زمانہ دیکھا تھا ۔ انھوں نے اپنے بعد معاشرے میں پھیلتی عدم برداشت کی عفریت نہیں دیکھی۔ ابن تیمیہ پر تحقیق کرنے کے باوجود سقراط کو پیغمبر یونان سمجھنے والا برق مولانا مودودی اور علامہ اقبال کے ہمنشین بھی رہے۔ وہ آج زندہ ہوتے تو اقبال کے شاہین اور مودودی کے جان نثار ان کو اپنے اعتقاد پر رجوع کرنے پر مجبور کرتے۔ کچھ تو اب بھی بضد ہیں کہ انھوں نے مرنے سے پہلے توبہ نہیں تو کم از کم رجوع ضرور کیا تھا۔
گوتم بدھ کا نام لیتے ہوئے ہمیشہ ان پر اللہ کی سلامتی کا طالب آج جب یہ دیکھتے کہ ڈاکٹر روتھ فا ؤاپنی زندگی اس کی قوم کو کوڑھ کے عذاب سے نجات کے لئے وقف کرنےکے باوجود اللہ کی رحمت کی مستحق قرار نہ پائیں تو وہ نہ جانے کیا کہتے اور کیا لکھتے۔ اخلاقی گراوٹ صرف چند محکموں اور اعلیٰ سرکاری عہدیداروں تک ہی دیکھنے والے ڈاکٹر برق آج جب کالجوں اور جامعات میں اخلاقی پستی اور اس کے خلاف کھڑے ہونے والے مشال خان کے انجام کو دیکھتے تو یا تو وہ خود بھی ایسے ہی کسی انجام کا شکار ہوتے یا پھر ملک چھوڑ کر کہیں چھپ کر زندگی گزار نے پر مجبور ہوتے۔
♦
One Comment