آصف جاوید
گزشتہ ہفتے پاکستان کے صوبہ سندھ میں دو ایسے واقعات پیش آئے جس نے ہر صاحبِ ضمیر انسان کے دل اور دماغ کو جھنجوڑ کے رکھ دیا ہے۔ پہلا واقعہ آرتی مہاراج نامی ایک جوان اور خوبصورت ہندو اسکول ٹیچر لڑکی کا اغوا ،جبری تبدیلیِ مذہب اور اغوا کار سے شادی، دوسرا واقعہ ایک وڈیرے کی گاؤں کی خوبصورت اور جوان لڑکی پر بری نظر، تعلّقات قائم کرنے اور زبردستی شادی کرنے کے لئے دباؤ اور انکار پر دن دھاڑے پورے گاؤں اور لڑکی کے ماں باپ کے سامنے لڑکی کا قتل۔
وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ کے آبائی گاؤں جھانگارا میں تعلقات قائم کرنے اور شادی سے انکار کرنے پر با اثر وڈیرے خان نوحانی نے دسویں جماعت کی طالبہ تانیہ کو اس کے اپنے ہی گھر میں ماں باپ کے سامنے گولیاں مار کر بے دردی سے قتل کر دیا، با اثر وڈیرے خان نوحانی نے مزدور غلام قادر خاصخیلی کے گھر میں گھس کر فائرنگ کرکے 18 سالہ لڑکی تانیہ کو بے دردی سے قتل کیا اور فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا ہے۔
قتل ہونے والی لڑکی کے والدین نے بتایا کہ با اثر وڈیرے خان نوحانی نے بیٹی پر تعلقات قائم کرنے اور زبردستی شادی کرنے کے لئے دباؤ ڈالا، انکار کرنے پر اس نے گذشتہ روز اسلحہ کے ساتھ گھر میں داخل ہوکر ان کے ہی سامنے فائرنگ کرکے بیٹی کو قتل کر دیا ہے، انہوں نے بتایا کہ قاتل با اثر اور وڈیرا ہے، اس لئے پولیس کاروائی کرنے سے انکار کر ہی ہے، اور معاملے کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔ قتل کرنے والے وڈیرے اور پولیس نے میڈیا میں بیان دینے سے بھی سختی سے منع کر دیا ہے۔ اور دوسری جانب سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکی دے دی ہے،۔
انہوں نے کہاکہ وڈیرے نے بیٹی کو قتل کرکے ظلم کی انتہا کردی ہے، پولیس بھی مقدمہ درج کرنے کی بجائے با اثر وڈیرے کی کمداری میں مصروف ہے، قتل ہونے والی لڑکی کے والدین نے شہید بے نظیر بھٹو کا واسطہ دیتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری، وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ اور آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ سے روتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ واقعہ کاسختی سے نوٹس لے کر بیٹی کے قاتل با اثر وڈیرے کو فوری طور گرفتار کرکے ان کے ساتھ انصاف کیا جائے۔
ان دونوں واقعات میں قدرِ مشترک یہ ہے کہ تمام تر شور و غوغا کے باوجود ریاست کا قانون اندھا ہونے کے علاوہ گونگا اور بہرا بھی بنا رہا۔ نہ پرچہ کٹا، نہ مجرم گرفتار ہوئے۔ نہ قانون کے حرکت میں آنے کی کوئی امید ہے۔
صوبہ سندھ میں ہندو لڑکیوں کا اغوا قیامِ پاکستان سے جاری ہے۔ ماضی میں بھی میڈیا میں یہ واقعات رپورٹ ہوتے رہے ہیں۔ مگر گزشتہ دس سالوں میں سوشل میڈیا کے فعال ہونے کے بعد یہ واقعات ایک سماجی مسئلہ بن کر سامنے آئے ہیں۔
یہ واقعات خود بخود ظہور پذیر نہیں ہوتے۔ اندرونِ سندھ میں آج بھی فیوڈل راج قائم ہے، ریاست کا کوئی قانون شہریوں کے جان و مال کی حفاظت نہیں کرتا۔ پیروں، وڈیروں اور سرداروں کی عمل داری ہے، وہی آقا ہیں، وہی مالک، اور وہی قانون ہیں۔ ریاست ِ پاکستان سندھ کے پیروں اور وڈیروں اور سرداروں کے جرائم میں خاموش شریکِ کار کا درجہ رکھتی ہے۔
بھرچونڈی، مٹیاری اور امروٹ درگاہیں تبدیلیِ مذہب کے بڑے مراکز ہیں۔ بھرچونڈی، امروٹ، لاڑکانہ، جیکب آباد اور تھرپارکر میں سامارو، سندھ میں تبدیلیِ مذہب کے ایسے مراکز ہیں، جہاں ہر ماہ متعدد ہندو لڑکیوں کو اغوا کرکے مبینہ طور پر جبراً مذہب تبدیل کروایا جاتا ہے۔
گھوٹکی سندھ میں ریاست کی نہیں، پیر میاں مٹھو کی حکمرانی ہے۔ اگر آپ کو گھوٹکی ضلع سندھ میں زمین یا پلاٹ پر سے قبضہ چھڑوانا
ہے، یا کسی کی زمین پر قبضہ کروانا ہے، اگر کسی ہندو لڑکی کا ‘مذہب تبدیل’ کروانا ہے تو آپ بھرچونڈی شریف کے پیروں سے رابطہ کر سکتے ہیں۔
بھرچونڈی کے پیر عبد الحق عرف میاں مٹھو ایک سفّاک انسان کے طور پر جانے جاتے ہیں، یہ پیر صاحب پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ایم این اے منتخب ہو کر آتے ہیں۔ پوری ضلعی انتظامیہ غلاموں کی طرح ان کے اشارے پر ناچتی ہے۔ چھوٹے موٹےوڈیرے اور ڈاکو بھی ان کی پشت پناہی میں ظلم و جبر کا بازار گرم رکھتے ہیں۔ میاں مٹھو گذشتہ دو دہائیوں سے اپنے بیٹوں سمیت ہندو لڑکیوں کا اغوا اور ان کا مذہب تبدیل کرانے اور ان کی شادیاں اپنے کمداروں سے کروانے ، رسّہ گریری کرنے ، ڈاکو پالنے پر ملک گیر شہرت کے حامل ہیں۔
کینیڈا میں مقیم میرے ایک ہندو دوست جو کہ ایک سوشل ایکٹیوسٹ بھی ہیں، جن کا پورا خاندان سند ھ اور بلوچستان میں آباد ہے۔ انہوں نے مجھے بڑی ذمّہ داری کے ساتھ بتایا ہے کہ ان کی پنچایت کے پاس ریکارڈ موجود ہے کہ گذشتہ تین سالوں کے دوران صوبہِ سندھ میں ایک سو 100 سے زائد نوجوان ہندو لڑکیوں نے جبراً تبدیلیِ مذہب اور اپنے اور والدین کے دہشت زدہ کیے جانے کے سبب دل برداشتہ ہوکر خود کشیاں کر لی ہیں۔
اس ساری صورتحال میں سوال یہ ہے کہ ریاست کی کیا ذمّہ داری ہے؟؟؟؟؟
شہری کے جان ، مال ، عزّت و آبرو کی حفاظت کی ذمّہ دار ریاست ہوتی ہے، پاکستان اقوامِ متّحدہ کے انسانی حقوق کے عالمگیر چارٹرڈ کا دستخطی ممبر ہے، چارٹرد کی دفعات نمبر 2،3،4،5، 12،13،16کی رو سے آئین پاکستان اور پاکستان کا فوجداری قانون پابند ہے کہ ہر پاکستانی شہری کے جان ، مال ، عزّت و آبرو کی حفاظت یقینی بنائی جائے۔
صاحبانِ اہلِ فکر و نظر سے درخواست ہے کہ بنیادی انسانی حقوق سے متعلّق خالصتا“اس انسانی مسئلے پر ریاست کو اپنی ذمّہ داریوں کا احساس دلانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ ریاست کو شہریوں کے جان ، مال ، عزّت و آبرو کی حفاظت پر آمادہ کرنا ، ہر باضمیر شہری کی اخلاقی و سماجی زمّہ داری ہے۔ امید ہے کہ صاحبانِ فہم و دانش اس سلسلے میں اپنی سماجی و اخلاقی ذمّہ داریوں سے عہدہ براء ہوں گے۔ ورنہ وہ دن دور نہیں جب سندھ میں رہنے والی بیٹیاں اللہّ سے دعائیں کریں گی کہ اگلے جنم موہے بیٹی نہ کیجیو!۔
♥
3 Comments