محترم افتخار قیصر (مرحوم) میں آپ سے معافی چاہتا ہوں، یہ آپکی اور ہماری بدقسمتی ہے کہ آپکا جنم ایک ایسے معاشرے میں ہوا جہاں پر نہ فن کی کوئی قدر ہے اور نہ فنکار کی۔ ایک ایسی جگہ جہاں فنکار ہونا یا فن کا مظاہرہ کرنا تو گناہ کبیرہ ہے (جسکی واضح مثال چند سالوں پہلے معاشرے کو بی حیائی اور بے شرمی سے پاک کرنے کا عزم لئے خدا کی زمین پر خدا کا نظام کے نعروں تلے پشاور کے معروف اور تاریخی ڈبگری بازار کو فن اور فنکاروں سے پاک کرنا تھا۔
اور چند دن پہلے خیبر ایجنسی میں ہمیں اسکا ایک اورعملی مظاہرہ دیکھنے کو ملا جب خیبر ایجنسی میں اس ریاست کے چند بے لگام گھوڑوں نے موسیقی کے پروگرام کی عرض سے آئے ہوئے فنکاروں سے انکے آلات موسیقی چھین کر جلایا گیا اور ان فنکاروں کو بے عزت کر کے وہاں سے نکالا گیا) لیکن دن دیہاڑے سینکڑو بے گناہ لوگ کو پلک جھپکتے ہی موت کی نیند سلا دینا عین ثواب کا کام ہے اور ایسا کر کے آپ بہ آسانی نام نہاد (لوگوں) سے جنت کی بشارت حاصل کر سکتے ہیں۔
یقین مانیں آپ غلط جگہ پر پیدا ہوگئے تھے اور اگر اسی جگہ پیدا ہونا تھا تو آپکو چاہیے تھا کہ فن کاری کی جگہ اور لوگوں کو اپنے فن سے محظوظ کرنے اور انکے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنے کی بجائے کسی اور شعبے کا انتخاب کر لیتے۔ یقین جانیں اگر مجھ سے مشورہ کرلیا ہوتا تو میں آپکو بڑے کام کے مشورے دیتا۔
میرا پہلا مشورہ یہ ہوتا کہ آپ فوج میں چلے جائیں، ایسا کرنے سے چند کام آپ کے لئے نہایت آسان اور ممکن ہو سکتے تھے، آپکے بچے آپ ہی کے عسکری ادارے کے نگرانی میں چلنے والے ملک کے کسی اعلی سکول یا کالج میں آدھی فیس یا مکمل فری تعلیم حاصل کر کے اپنی زندگی کے شعبوں میں آگے بڑھ رہے ہوتے، رہنے کو کسی عسکری کالونی میں مفت سرکاری کوارٹر ملتا اور یہ بھی ممکن ہوسکتا تھا کہ آپ ہی کے ادارے کے نگرانی میں چلنے والی کسی ایک ہاوسنگ سوسائیٹی میں کوئی پلاٹ مل جاتا جہاں عسکری سیمنٹ کی برکت سے آپ اپنے خوابوں کا کوئی محل بھی بنوا سکتے تھے، آپکے یا آپکی فیملی کی کسی فرد کے بیمار ہونے پر کسی اعلی عسکری ہسپتال میں ماہر اور کوالیفائیڈ ڈاکٹروں کے زیر نگرانی مفت یا سبسیڈائیزڈ فیس پر بہترین علاج معالجہ ہوتا۔
ریٹائیرمنٹ کے بعد آپکو پنشن الگ سے ملتی، یوں زندگی بڑے سکوں کے ساتھ بسر ہو سکتی تھی۔ اور اگر اللہ نہ کرے ایسا ہوتا کہ دوران سروس آپ بارڈر پر کسی “ازلی دشمن” کی گولی کا شکار ہوکر “شہید” بن جاتے تو پورے فوجی اعزاز کے ساتھ اعلی سول اور عسکری افسران کی موجودگی میں بندوقوں کی سلامی کے ساتھ سپرد خاک کر دئیے جاتے، اخباروں اور ٹی وی چینلز میں آپکی “شہادت” کی خبر کچھ یوں ہوتی: “مٹی کا ایک اور سپوت وطن پر قربان ہوگیا“۔
بعد از مرگ آپکی “شہادت” کے نشاں کے طور آپکی قبر پر لہراتا پرچم آپکے محب وطن ہونے کے ثبوت کے ساتھ تاریخ میں امر ہوجاتا۔ آپکی اولاد میں سے کسی کو آپکے کوٹے میں بھرتی کرلیا جاتا۔ ہر سال 23 مارچ ، 14 اگست یا 6 ستمبر کو فوجی نغموں کی گونج میں آپکو یاد کیا جاتا۔ آپکے خاندان کا سر فخر سے بلند ہوجاتا اور آپکا کوئی فوجی بیٹا آپکے نقش قدم پر چل کر سوہنی مٹی کے لئے کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہ کرنے کی قسم کھاتا۔
میرا دوسرا مشورہ یہ ہوتا کہ آپ سیاستدان بن جائیں۔ اسکے بھی بے شمار فائدے ہوسکتے تھے۔ آپ اسمبلی کے ممبر بن کر اپنے خاندان والوں کو آلو ٹماٹر کے بھاو نوکریاں دے سکتے تھے۔ آپکو رہائش، ٹیلی فون اور پٹرول کے ایلاونسز مل سکتے تھے۔ ترقیاتی منصوبوں میں کمیش وصول کر کے آف شور کمپنیاں بناسکتے تھے۔ سٹیج پر چڑھ آپ کسی کے بارے میں بھی کوئی بھی زبان استعمال کر سکتے تھے۔
(اول الذکر مشورے میں ذکر ادارے کے باخداوں کے علاوہ)
اور آپکے سپورٹر آپکی ہر بیہودہ بات پر تالیاں اور سیٹیاں بجا کر (اتنی تالیاں آپ نے اپنی پوری فنی زندگی میں بھی نہیں سنی ہوگی) آپ کا حوصلہ بڑھانے میں لگے ہوتے اور اگر آپ اپنے سپورٹرز کو پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ پر حملہ کرنے کا بھی کہتے تو آپکے سپورٹر آپ کی بات کو کبھی نہ ٹالتے۔ آگر کہیں آنا جانا ہوتا تو پولیس کی سائرن بجاتی گاڑیوں کے بیچ آپ سرکاری ائیر کنڈیشنڈ گاڑی میں کسی بھی سگنل کی پروا کئے بغیر آ جا سکتے تھے۔
اس میدان میں ایک اور فائدہ بھی ہوتا آپ ایک الیکشن اگلے 5 سال کے ليے لوگوں کو ایک پارٹی کے نعروں سے دھوکہ دے سکتے تھے اور پانج سال بعد ٹوپی بدل کر کسی اور پارٹی کا جھنڈا لہرا کر اپنے حلقے کے لوگوں کسی دوسری پارٹی کے نعروں سے بہلا کران کو سہانے خواب دکھا سکتے تھے۔ اور وہ بغیر کچھ پوچھے، بغیر کوئی سوال کئے آپ کی “جے ہو” کرتے۔
آپکی موت کے بعد آپ کا بیٹا یا بھتیجا آپکے سنگھاسن کا وارث بن کر آپ ہی کی تاریخ دہرا سکتا تھا۔ آپکی وفات پر اخباروں اور ٹی وی چینلز پر “سیاست کا ایک درخشاں ستارہ آج جہان فانی سے کوچ کر گیا” یا کسی اور سیاسی رہنما کی جانب سے “ملکی سیاست میں “فلاں” کی کمی کا باب مشکل سے پورا ہوگا” جیسے بیانات بھی چل سکتے تھے۔
لیکن بات وہی آکر ٹک جاتی ہے، آپ نے شعبے کا انتخاب کرتے وقت کسی سے مشورہ ہی نہیں لیا، آپ نے اس شعبے کا انتخاب کیا جس سے ان لوگوں کا کوئی سروکار ہی نہیں، انہیں نہ فن کی قدر ہے اور نہ فنکار کی۔ اس لئے تو آپ کئی دنوں تک سرکاری ہسپتال کے ایک برآمدے میں مسیحا کے انتظار میں بے یار و مددگار پڑے رہے۔ نہ ڈاکٹروں کو توفیق نصیب ہوئی اور نہ وقت کے حکمرانوں کو کہ وہ آپکو علاج کی بہتر سہولیات میسر کر دیتے۔ اور جب سوشل میڈیا کے شور سے کچھ “باخدا لوگوں” کو ہوش آیا تب بہت دیر ہوچکی تھی۔
لیکن یہ صرف آپکی کہانی بھی نہیں، کل آپکا بیٹا آپکے علاج کے لئے اپنی بے بسی کا رونا رو رہا تھا تو کچھ عرصہ قبل معروف گلوکار گلزار عالم اپنے بیٹے کے علاج کے لئے امداد کا منتظر تھا۔
اور کچھ ہی مہینے پہلے کی بات ہے کی اسی ہسپتال کے ایک عام سے وارڈ میں معرف گلوکارہ وگمہ بھی کینسر کے مرض میں مبتلا بے یار ومددگار پڑی ہوئی تھی خدا جانے کس کی دعا رنگ لے آئی جو وہ آج ہم میں موجود ہے۔ اور ابھی کل ہی کی بات ہے پشتو کے ایک اور لیجنڈ احمد گل ماما کو ایک نجی ٹی وی کے شیشے پر ایک کچے کھنڈر نما گھر میں اپنی بیمار بیوی کے علاج کا رونا روتے دیکھا۔ زرسنگہ، ہدایت اللہ گل اور نوشابہ بی بی کی حالت بھی آپ جیسی ہی ہے۔
آپ پریشان نہ ہو ایک ایک کر کے آپکے شعبے “فن اور فنکاری” سے وابسطہ لوگ آپکے پاس آرہے ہیں۔
آپکے ساتھ تو میں اس وقت نہیں تھا جب آپ اپنے شعبے کا انتخاب کر رہے تھے لیکن آپکے بیٹوں اور بیٹیوں کو میں مشورہ دونگا کہ آپکی زندگی سے عبرت حاصل کریں اور کیرئیر کا انتخاب کرتے وقت اپنے والد کے نقش قدم پر بالکل بھی نہ چلیں، کیونکہ یہ معاشرہ بہرہ اور اندھا ہے، نہ فنکار کو سن کر اسکی قدر کر سکتا ہے اور نہ اسکے فن کو دیکھ کر اسکی داد رسی کر سکتا ہے۔
اجازت چاہتا ہوں،۔
از طرف:۔
ایک بے حس معاشرے کا فرد
مشتاق احمد درانی
پشاور