دنیا کی پانچ اہم ابھرتی ہوئی معیشتوں کی تنظیم بریکس کی جانب سے پاکستان کی جہادی تنظیموں پر پابندی کے بعد پاکستان کے وزیر دفاع نے بھی اعترافی بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کو جیش محمد، لشکر طیبہ اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے خلاف اقدامات کرنا پڑیں گے تاکہ دنیا جان سکے کہ ہم دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سنجیدہ ہیں۔
گزشتہ سب پاکستانی نیوز چینل جیو کے پروگرام ’آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ‘ میں پاکستان کے وزیر خارجہ نے اعتراف کیا کہ پاکستان کی حکومت نے نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عمل درآمد نہیں کیا اور یہ بات بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے لیے شرمندگی کا باعث بنتی ہے۔
خواجہ آصف نے کہا،’’ضرب عضب، ردالفساد اور خیبر فور کے علاوہ کیا ہم نے دہشت گردوں کے مکمل خاتمے کے لیے دیگر اقدامات کیے ہیں؟‘‘۔
خواجہ آصف نے کہا کہ اس مرتبہ عید پر وزارت داخلہ نے پہلی مرتبہ اشتہار دیے ہیں کہ لشکر طیبہ، جیش محمد اور دیگر کلعدم تنظیموں کو کھالیں نہ دیں لیکن اس کے باوجود کچھ علاقوں میں انہیں کھالیں ملنے کی اطلاعات ہیں۔ خواجہ آصف نے کہا کہ ساری دنیا ہم پر انگلیاں اٹھا رہی ہے جب تک ہم کوئی ایکشن نہیں لیں گے تو ہمیں عالمی سطح پر شرمندگی کا باعث کرنا پڑے گا۔
پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف نے کہا ہے کہ برکس تنظیم کے مشترکہ اعلامیہ میں جن تنظیموں پر پابندی کا ذکر ہے ان پر تو خود پاکستان نے پابندی عائد کی ہوئی ہے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ نے کہا کہ ہمیں اپنے ماضی سے تعلق توڑنا پڑے گا۔
انہوں نے کہا،’’ سن 1979 میں جو فیصلہ کیا گیا اس کے بعد پوری دہائی ہم امریکا کے لیے پراکسی جنگ لڑ تے رہے، نو گیارہ کے بعد بھی ہم جنگ میں ملوث ہیں۔ پاکستان نے بہت نقصان اٹھایا ہے۔ ہمیں اب ماضی سے تعلق توڑنا پڑے گا‘‘۔
پچھلے تیس چالیس سال میں ہم نے جن کی پرورش کی ہے، کیا وہ ہمارا اثاثہ ہیں یا ایک بوجھ ؟ ہمیں قومی سطح پر اس کا جواب تلاش کرنا ہوگا۔ خواجہ آصف نے کہا کہ ہمیں اپنے ملک میں ایسے حالات پیدا کرنا ہوں گے کہ ہم پاکستان کے بارے میں قائم تاثر کو ختم کر سکیں۔ ہمیں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ہم اس خطے میں امن چاہتے ہیں۔ ہماری قربانیوں کی وجہ سے امن آیا ہے لیکن ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ انتہا پسند اسلامی تنظیمیں، لشکر طیبہ، جیش محمد، حزب المجاہدین،تحریک طالبان پاکستان حقانی گروپ اور دوسرے گروہ جنہیں پاک فوج کی حمایت حاصل ہے ہندوستان اور افغانستان میں دہشت گردی میں ملوث ہیں لیکن ریاست ان کے خلاف کاروائی کرنے میں ناکام ہے۔
یاد رہے کہ اکتوبر 2016 میں ڈیلی ڈان نے ایک رپورٹ شائع کی تھی جسے بعد میں ڈان لیکس کا نام دیا گیا تھا۔ رپورٹ میں حکومت پاکستان نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ پاکستانی ریاست کی پروردہ اسلامی انتہا پسند تنظیمیں جنوبی ایشیائی خطے، بھارت اور افغانستان، میں دہشت گردی میں ملوث ہیں جس کی وجہ سے پاکستان سفارتی تنہائی کاشکار ہو چکا ہے۔ حکومت نے کہا کہ جب بھی ان دہشت گردوں کو گرفتار کیا جاتا ہے تو آئی ایس آئی انہیں چھڑوا لیتی ہے۔۔
DW/News Desk
3 Comments