تبصرہ: لیاقت علی ایڈووکیٹ
بلوچستان پاکستان کے وفاق میں شامل رقبے کے اعتبار سے سے بڑا ( پاکستان کے کل رقبے کا 42فی صد) اور آبادی کے اعتبار سے سب سے چھوٹا صوبہ ہے ( 2017 کی مردم شماری کے مطابق بلوچستان کی آبادی12.34 ملین)۔ کیا وجہ ہے کہ اتنی کم آبادی اور اتنا بڑا رقبہ ہونے کے باوجود بلوچستان ہمیشہ سے سماجی بے چینی اور سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔
وہ کون سی وجوہات اور محرکات ہیں جن کی بنا پر گذشتہ ستر سالوں میں بلوچستان کے عوام پاکستانی سیاست کے مرکزی دھارے کا حصہ نہیں بن پائے اور آج بھی انھیں اپنے حقوق کے حصول کے لئے ہتھیار اٹھانے پڑ رہے ہیں۔
بلوچستان کے عوام بالعموم اور بلوچ بالخصوص مرکز ی حکومت کے خلاف مختلف ادوار میں پانچ مسلح بغاوتیں کرچکے ہیں اور 2003 میں شروع ہونے والی مسلح جدوجہد کے بارے میں تو یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ گذشتہ چودہ سالوں سے وہ نہ صرف جاری ہے بلکہ بلوچ سماج کی بہت سی سماجی اور سیاسی پرتیں’ قومی آ زادی کی اس جنگ‘ میں بتدریج شامل ہورہی ہیں ۔
مسلح جدوجہد سے وابستہ افراد کا دعویٰ ہے کہ وہ بلوچستان کی’آزادی ‘ تک اپنی یہ جد وجہد ہر صورت جاری رکھیں گے۔ بلوچستان کی خود مختاری یا آزادی کا مسئلہ پہلے سے کہیں زیادہ سنگین صورت اختیار کرتا جارہا ہے بالخصوص فوجی کاروائی کے ذریعے نواب اکبر بگٹی کے قتل کے افسوس ناک سانحہ کے بعد وہاں حالات ایک ناقابل واپسی نقطہ پر پہنچ چکے ہیں ۔
بلوچستا ن کے مسئلے کی نوعیت کیا ہے ؟ پاکستان کا ریاستی بیانیہ ہے کہ وہاں سرے سے کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں اور جس ’ مسلح جدوجہد‘ کا دعویٰ کیا جاتا ہے وہ مقامی لوگوں کی بجائے بیرونی قوتوں بالخصوص بھارت کے خفیہ اداروں کی سازشوں کا نتیجہ ہے ۔
اگر صورت حال ایسی ہی ہے جیسا کہ حکومت دعویٰ کرتی ہے تو ہر ہفتے یہ’ فراریوں‘ کے ہتھیار ڈالنے کے دعوے کیوں کئے جاتے ہیں؟ ۔ ’نا راض‘ بلوچ رہنماؤں کو پاکستان آنے اور سیاسی عمل کا حصہ بننے کی اپیلیں کیوں کی جاتی ہیں ؟۔
ڈاکٹر عبدالمالک کی حکومت کا توسب سے بڑا دعویٰ ہی یہی تھا کہ وہ ناراض بلوچ رہنماؤں کو واپس بلوچستان لائے گی لیکن ڈھائی سال تک بلوچستان کی سیاوہ سفید کی مالک رہنے والی یہ حکومت کسی ایک ’ناراض‘ بلوچ رہنما کو واپس لانے میں کامیاب نہ ہوسکی ۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی حکمران اشرافیہ کے نزدیک بلوچستان ہمیشہ سے انتظامی مسئلہ رہا ہے۔ وہ یہ تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں کہ بلوچستان کا مسئلہ وہاں کے عوام کے سیاسی اور سماجی حقوق کا مسئلہ ہے۔ یہ بلوچستان کے قدرتی وسائل پر وہاں کے عوام کے حق کو ماننے کا مسئلہ ہے۔
بلوچستان کے مسئلے کو فوجی آپریشن سے نہیں وہاں کے عوا م کو ان کے جمہوری حقوق اور وسائل پر ان کی حاکمیت تسلیم کرکے حل کیا جاسکتا ہے۔ قیام پاکستان کے ستر سال بعد بھی بلوچستان کا مسئلہ کیوں حل نہیں ہورہا ؟ حسن جعفر زید ی نے اپنی کتاب بلوچستان : مسئلہ خود مختاری کا آغاز میں بلوچستان کے مسئلہ کا تاریخ تناظر میں مطالعہ کیا ہے ۔
انھوں نے برطانوی سامراج کی بلوچستان میں اختیار کردہ پالیسیوں ، برطانیہ اور روس کے مابین 19ویں صدی میں شروع ہونے والی گریٹ گیم اور بعد ازاں سوویت یونین اور کمیونزم کے اثرات کو روکنے اور مشرق وسطیٰ اور ایران میں تیل کے ذخائر پر قبضے کے لئے کی جانے سامراجی کوششوں اور بلوچستان کی جغرافیائی اہمیت کے پس منظر میں بلوچستان کی سیاسی تاریخ کا جائز ہ لیا ہے۔
برطانوی سرکار نے 1905 کی منٹو مارلے اور1919 کی مانٹیگو چمسفورڈ آئینی اصلاحات متحدہ ہندوستان کے دیگر صوبوں میں تو نافذ کی تھیں لیکن بلوچستان کو ان اصلاحات سے محروم رکھا تھا کیونکہ برطانوی حکومت بلوچستان کو فوجی چھاونی سمجھتی تھی جہاں کے باسیوں کو سیاسی حقوق دینے کی ان کے نزدیک کوئی ضرورت نہیں تھی ۔
بلوچستا ن کو صوبائی درجہ دینے کا مطالبہ پہلی بار مطالبہ 1925 میں مسلم سیاسی جماعتوں کی کانفرنس منعقدہ دہلی میں کیا تھا۔ جناح نے بعد ازاں اپنے چودہ نکات میں بھی بلوچستان کو صوبائی درجہ دینے کا مطالبہ شامل کیا تھا لیکن جب پاکستان بن گیا تو جناح نے بلوچستان کو صوبائی درجہ دینے سے صاف انکار کر دیا اور بر طانوی حکومت کی سامراجی پالیسی جاری رکھنے پر اکتفا کیا تھا۔
جناح کے انتقال کے بعد وزیر اعظم لیاقت علی خان نے بھی بلوچستان کو صوبائی درجہ دینے کی بجائے بلوچستان کو ایجنٹ ٹو گورنر جنرل کے ذریعے چلانے کی برطانوی حکومت کی سامراجی پالیسی جاری رکھی تھی۔ انھوں نے بلوچستان کے عوام کو ان کے جمہوری حقوق دینے کی بجائے پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو کی سامراجی حکمت عملی کے تحت سرداروں اور قبائلی عمائدین کو باہم لڑانے اور نوازنے کی پالیسی پر زیادہ سے زیادہ سے انحصار کرتے ہوئے بلوچستان کو جمہوری حقوق دینے سے گریز کیا تھا۔
اسے سیاسی مذاق ہی کہا جاسکتا ہے کہ بلوچستان کو پہلی مرتبہ صوبہ کا درجہ قیام پاکستان کے 23سال بعد یحییٰ خان کی مارشل لا انتظامیہ نے دیا تھا۔ حس جعفر زیدی کا موقف ہے کہ برطانوی حکومت دوسری عالمی جنگ میں سوویت یونین کی کامیابی سے خوف زدہ ہوگئی تھی اور سمجھتی تھی کہ مشرق وسطی میں سوویت یونین کے اثر و نفوذ کو روکنے کے لئے ترکی،مصر، اردن، عراق ،لبنان، ایران، سعودی عرب اور افغانستان پر مشتمل’اسلامی اتحاد ‘کی ضرورت ہے جو اس سارے علاقے میں کسی حریت پسند تحریک کو پنپنے کی اجازت نہ دے۔
اس منصوبہ کے پیش نظر بلوچستان میں جمہوری اصلاحات کی کوئی گنجائش نہیں تھی ۔ خان آف قلات کو 1945میں ہی اس برطانوی منصوبے کا علم ہوگیاتھا اس لئے اس نے اسی وقت سے پورے بلوچستان میں آ زاد و خو د مختار ریاست کے قیام کا خواب دیکھنا شروع کر دیا تھا اور وہ اپنا یہ خواب پورا کرنے کے لئے بلوچستان میں بر طانیہ کو ہر قسم کی مراعات دینے پر آمادہ تھا۔
اس کا خیال تھا کہ چونکہ اس نے ساری عمر سوویت یونین کے خلاف برطانیہ کی ہر قسم کی خدمات سر انجام دی تھیں اس لئے بر طانیہ اس کا یہ خواب پورا کرنے میں اس کی مدد کرے گا اور وہ بدلے میں برطانیہ کو اپنی ریاست میں فوجی اڈے قائم کرنے اور معدنی وسائل کا استحصال کرنے کی بلا روک ٹوک اجازت دے گا لیکن اپنے وسیع تر سٹریٹجک مفادات کے پیش نظر خان آ ف قلات کی یہ خواہش پوری کرنے سے قاصر تھا ۔
برطانیہ کے وزیر خارجہ ارنسٹ بیون اور وزیر برائے کامن ویلتھ امور نوئیل بیکر جیسے برطانوی سیاست دانوں کو پاکستان کی مسلم لیگی قیادت کی سامراج دوستی اور فرماں برداری پر اعتماد تھا ۔ انہیں پورا یقین تھا کہ جب کبھی ضرورت ہوئی بر طانیہ نہ صرف پاکستان کی سر زمین اور اور اس کے فوجی اور سول وسائل سوویت یونین کے خلاف استعمال کر سکے گا بلکہ پاکستان کے ارباب اقتدار مشرق وسطی میں اسلام کے نا م پر ایک سوویت مخالف فوجی گٹھ جوڑ قائم کرنے میں بھی موثر کردار کرنے میں بھرپور تعاون کریں گے۔
لہذا بلوچستان میں خان آ ف قلات کی آزاد و خود مختار ریاست کے قیام کی کوئی ضرور ت نہیں ہے۔ مصنف کے نزدیک قیام پاکستان کے چار سال بعد تک بلوچستان وہیں کھڑا تھا جہاں وہ 1835 میں انگریزوں کے عمل دخل شروع ہونے کے وقت کھڑا تھا۔ بلوچستا ن صرف ایک ڈگری کالج تھا ۔ ریڈیو نام کی کوئی چیز موجود نہیں ۔ پورے بلوچستان میں گریجویٹس کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی تھی ۔ معاشی اور سماجی ترقی کے اشاریے نہ ہونے کے برابر تھے۔
بلوچستان سے لا تعلقی کا یہ عالم تھا کہ بلوچستان کو سندھ میں ضم کرنے کی مہم مسلم لیگ بلوچستان کے رہنما اور سندھ کے وزیر اعلی ایوب کھوڑو چلاتے تھے۔ دنیا میں توانائی سب سے بڑے ذخائر کا مرکز خلیج فارس اور وسط ایشیا کے تیل اور گیس کے وسیع ذخائر کے درمیاں واقع بلوچستان دنیا کی تمام طاقتوں کی باہمی کشمکش کا عرصہ دراز سے میدان جنگ بنا ہوا ہے ۔گوادر بندرگاہ سے چمن تک تجارت اور توانائی کے روٹ اسی خطے سے گذرتے ہیں۔
چنانچہ لارکرزن وائسراے ہند لارڈ کرزن ((1905سے لے کر آ ج دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر یہ خطہ مختلف فوجی کاروائیوں سے ماضی میں گذر چکا ہے اور آج بھی گذر رہا ہے۔ایک جانب فوجی چھاونیاں، فوجی اڈے اور ائیر بیس موجود ہیں تو دوسری جانب پہاڑوں پر موجود مسلح جدو جہد کرنے والے بلوچ نوجوان صوبائی خودمختاری سے بڑھ کر مکمل آزادی کی راہ پر چل پڑے ہیں ۔
الزام لگایا جاتا ہے کہ ہمسایہ ممالک اور دیگر علاقائی اور عالمی طاقتیں بلوچستان میں موجود بے چینی سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ یہ بات ٹھیک ہے لیکن عالمی طاقتوں اور ہمسایہ ممالک کو یہ موقع کس نے فراہم کیا ہے اس سوال کا جواب بھی ملنا چاہیے۔
بلوچستان کی موجودہ صورت حال کی ذمہ دار ہماری حکمران اشرافیہ ہے جس نے گذشتہ ستر سالوں سے بلوچستان کے عوام کو مسلسل معاشی اور سیاسی حقوق سے محروم رکھ کر انھیں دیوار سے لگادیا ہے۔
ہماری حکمران اشرافیہ اگر بلوچستان کو پاکستان کے وفاق میں رکھنے کی خواہاں ہے تو اس کو بلوچستان کے عوام کو ان کے جمہوری و سیاسی حقوق دینا ہوں گے۔ بلوچستان کے وسائل پر بلوچستان کے عوام کے حق کو تسلیم کرنا ہوگا۔ محض لفاظی اور ہم سب مسلمان اور سب سے پہلے پاکستان جیسے نعروں سے بلوچستان کے مسئلہ کا حل نہیں نکلے گا۔
نام کتاب: بلوچستان ، مسئلہ خود مختاری کا آغاز
ترتیب و تکمیل : حسن جعفر زیدی
پبلشر : ادارہ مطالعہ تاریخ66/2- ایچ واپڈا ٹاون، لاہور
لاہور قیمت:400روپے
2 Comments