آصف جیلانی
ممکن ہے بہت سے لوگ برا مانیں لیکن اس حقیقت سے انکار محال ہے کہ پاکستان میں انصاف عنقا ہوگیا ہے ۔جی نہیں میں میاں نواز شریف کی نااہلی کے فیصلہ کی بات نہیں کروں گا۔ میں اس تلخ حقیقت کی بات کروں گا کہ پاکستان میں انصاف صاحب ثروت اور بااثر طبقہ اور غریبوں اور ناداروں میں بٹ گیا ہے۔ غریبوں اور متوسط طبقہ کے لوگوں کے لیے یا تو انصاف بے تحاشہ مہنگا ہے یا اس میں اس قدر تاخیر ہوتی ہے کہ عام لوگ انصاف سے محروم رہ جاتے ہیں۔
سابق وزیر پیٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین ، جن کو کراچی میں فوجی ٓپریشن کے دوران، 2015میں چار سو ساٹھ ارب روپے کی کرپشن اوراپنے اسپتال میں دہشت گردوں کو پناہ دینے اور علاج و معالجہ فراہم کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا ،اور جو حراست کے دوران کافی عرصہ اسپتال میں زیر علاج رہے ، اب عدالت نے انہیں دل کے عارضہ کے علاج کے لیے ملک سے باہر جانے کی اجازت دے دی ہے اور یہ اجازت ملتے ہی وہ لندن روانہ ہوگئے۔
کس قدر تعجب کی بات ہے کہ ڈاکٹر عاصم جن کے ایک نہیں کئی اسپتال ہونے کے باوجود ان اسپتالوں میں ان کا علاج ممکن نہیں تھا۔ لوگوں کے ذہنوں میں قدرتی طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یونیورسٹی درجہ کے ان اسپتالوں میں دل کے عارضہ کا علاج ممکن نہیں تو پھر ہمارے ملک کے اسپتالوں کا نظام ناقص ہے جب ہماے ہاں کینسر کا کامیاب علاج ممکن ہے تو دل کے عارضہ کا علاج کیوں نہیں ہوسکتا۔اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ صاحب ثروت اور بااثر ملزم گرفتار ہوتے ہی بیمار بن جاتے ہیں اور جیل سے بچنے کے لئے اسپتا ل میں داخل ہو جاتے ہیں اور پھر مقدمات سے بچنے کے لئے ملک سے فرار ہونا چاہتے ہیں تو بہانہ بیرون ملک علاج کا بناتے ہیں۔
ہمارے ہاں فوج کے اتنے اعلیٰ پائے کے اسپتال ہیں لیکن ، سابق فوجی آمر ، مشرف کی کمر میں موچ آئی تو وہ فوجی اسپتال میں علاج کرانے کے بجائے دوبئی فرار ہوگئے۔ حالانکہ جب انہیں مقدمات کی سماعت کے لئے عدالت بلا یا جاتا تھا تو راستہ میں فوجی اسپتال میں چھپ جاتے تھے۔ پرویز مشرف پر بھی ، ڈاکٹر عاصم کی طرح سنگین الزامات کے مقدمات زیر سماعت ہیں بلکہ انہیں ان سے زیادہ سنگین ، غداری اور بے نظیر بھٹو کے قتل کے الزام میں مقدمات کا سامنا ہے۔
اس بات کی کوئی تردید نہیں کرتا کہ سابق صدر آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی ، ڈاکٹر عاصم حسین کو سیاسی سودے بازی کے نتیجہ میں ملک سے باہر جانے کی اجازت دی گئی ہے ، تو کیا عدالتیں بھی اس سودے بازی کا حصہ ہیں؟
ادھر پرویز مشرف کے ملک سے فرار ہونے کے پیچھے فوج کا دباؤ کارفرما نظر آتا ہے۔ خود پرویز مشرف نے اعتراف کیا ہے کہ ان کے ملک سے باہر جانے کی اجازت کے لئے فوج کے سربراہ نے اپنا اثرو رسوخ استعمال کیا تھا۔ تو سوال یہ ہے کہ ہماری عدالتیں ، جن کے بارے میں عدلیہ کی آزادی کی تحریک کے بعد ، دعوی ٰ کیا جاتا ہے کہ آزاد ہیں ۔ کیا اب بھی مقتدر ، با اثر افراد کے دباؤکے سامنے گھٹنے ٹیک دیتی ہیں ۔
لوگ ابھی بھولے نہیں کہ امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی ، جنہیں سپریم کورٹ کے مقرر کردہ عدالتی کمیشن نے میمو گیٹ کی تفتیش کرنے کے بعد یہ فیصلہ دیا تھا کہ انہوں نے وہ میمو لکھا تھا جس میں امریکا سے ، زرداری حکومت کو فوج کی برطرفی کے خطرہ سے بچانے کے لیے ، پاکستان میں براہ راست مداخلت کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے جس نے یہ عدالتی کمیشن مقرر کیا تھا ، حسین حقانی کا جرم ثابت ہونے کے بعدیہ فیصلہ دیا کہ کمیشن نے محض اپنی رائے ظاہر کی ہے۔ لوگوں کو اس بات پر بھی سخت تعجب ہوا کہ سپریم کورٹ نے عدالتی کمیشن کے فیصلہ سے پہلے ہی 2012 میں حسین حقانی کو ملک سے باہر جانے کی اجازت دے دی ، جب کہ حسین حقانی پر سنگین الزام تھا۔
پانچ سال قبل حسین حقانی ملک سے ایسے گئے کہ اب تک وطن واپس نہیں آئے ہیں۔ لوگوں کو شبہ ہے کہ حقانی چونکہ سابق صدر زرداری کے قریبی ساتھی تھے اس لیے ان کی وطن سے فرار ہونے میں سیاسی آشیر باد حاصل تھی۔ اس زمانہ میں جب حقانی کے خلاف میمو گیٹ کے مقدمہ کی سماعت ہورہی تھی تو وہ پہلے ایوان صدر میں اور اس کے بعد وزیر اعظم گیلانی کے ایوان وزیر اعظم میں پناہ گزیں تھے۔
جنوری 2011 میں لاہور میں سر بازار دو نوجوانوں کو گولی مارنے اور ایک نوجوان کو کار سے روندھ کر ہلاک کرنے والے ، سی ٓئی اے کے ایجنٹ ریمنڈ ڈیوس کا معاملہ بھی لوگوں کو اچھی طرح یاد ہے کہ کس طرح آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل پاشا نے امریکی دباؤ میں آکر دیت کا سہارا لے کر ریمنڈ ڈیوس کو ملک سے فرار کردیا تھا۔ دیت کی رقم ، ریمنڈ ڈیوس یا امریکی حکومت نے ادا نہیں کی تھی بلکہ حکومت پاکستان نے خاموشی سے سرکاری خزانہ سے ادا کی تھی ۔ ایسے انصاف کی کہیں اور نظیر نہیں ملتی۔
یہ تو تازہ مثالیں ہیں عدالتی ناانصافیوں کی ۔ آیئے آپ کو63سال پہلے اس تاریخی مقدمہ اور اس کے فیصلہ کی جانب لے چلوں جس نے پاکستان کی تاریخ کا دھارا ہی موڑ کر رکھ دیا۔ اس مقدمہ کا میں عینی شاہد ہوں کیونکہ میں نے اسے پورا کور کیا تھا۔ اکتوبر 1954میں گورنر جنرل غلام محمد نے آنا فانا کوئی ٹھوس وجہ بتائے پہلی دستور ساز اسمبلی توڑ دی تھی ۔ دستور ساز اسمبلی کے اسپیکر مولوی تمیز الدین خان نے گورنر جنرل کے اس اقدام کو سندھ چیف کورٹ میں للکارا تھا، ان کا مقدمہ برطانیہ کے نامور قانون دان، سر ڈنگل فٹ نے لڑا اور جیت گئے۔
سندھ چیف کورٹ نے غلام محمد کے اقدام کو کالعدم قرار دیا اور اسمبلی کی بحالی کا حکم دیا تھا ۔ سندھ چیف کورٹ کے اس فیصلہ کے خلاف گورنر جنرل غلام محمد نے سپریم کورٹ میں جو اس زمانہ میں فیڈرل کورٹ کہلاتی تھی اپیل کی تھی۔ اس سے پہلے کہ چیف جسٹس محمد منیر اپیل کی سماعت کرتے، گورنر جنرل غلام محمد ، جھنڈا لہراتی کار میں جسٹس محمد منیر کی قیام گاہ پہنچے ۔ غلام محمد اور جسٹس محمد منیر ایک ہی ککے زئی ملک برادری سے تعلق رکھتے تھے۔
سربراہ مملکت اور چیف جسٹس کی اس غیر معمولی ملاقات کے بعد چیف جسٹس محمد منیر نے سندھ چیف کورٹ کے فیصلہ کے خلاف اپیل منظور کر لی اور دستور ساز اسمبلی کی تحلیل کا فیصلہ جایز قرار دیا ، جواز کے لئے ’’نظریہ ضرورت ‘‘ کا اصول پیش کیا گیا ۔ یعنی غیر قانونی اقدام بھی نظریہ ضرورت کے تحت جایز ہے ۔ جسٹس اے آر کارنیلیس واحد جج تھے جنہوں نے اس فیصلہ سے اختلاف کیا۔
فیڈرل کورٹ کے اس فیصلہ نے جو واضح طور پر گورنر جنرل کے دباؤکے تحت دیا گیا تھا، پاکستان میں ہمیشہ کے لیے سیاست کا رخ موڑ دیا اور جمہوریت کے مستقبل کو تاریکی میں دھکیل دیااور عملی طور پر ملک میں فوجی طالع آزماوں کے لئے دروازے کھول دئے۔
یہ ہمارے ملک میں انصاف کا عجیب و غریب پہلو ہے دوسری طرف انصاف کے حصول کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مہنگا انصاف ہے ۔وکلاء کی بھاری فیسوں کی وجہ سے ایک غریب اور عام آدمی کے لئے انصاف کا حصول محال ہوگیا ہے ۔ پھر ججوں کی کمی اور وکلا ء کے مالی مفادات کے نتیجہ میں مقدمات کی تاریخوں پر تاریخیں لگتی ہیں اور مقدمات فیصل ہوتے ہوتے برسوں لگ جاتے ہیں۔
انصاف میں تاخیر در اصل انصاف سے محرومی کے مترادف ہے۔ اسی کے ساتھ ، پٹواری ، پولس اور زمینداروں کے گٹھ جوڑ نے دیہات میں انصاف کا گلا گھونٹ دیا ہے۔کیسی ستم ظریفی ہے کہ 1956سے اب تک بے شمارلاء کمیشن قائم ہوئے ہیں لیکن عدالتی نظام کی اصلاح اور عوام کو سستے اور فوری انصاف کے حصول کی راہ میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔ کیا ہمارے نصیب میں انصاف نہیں لکھا؟
♦
One Comment