بحیثیت ایک انسان کے مجھے برما کے مظلوم انسانوں سے مکمل ہمدردی ہے مظلوم جہاں بھی ہو جس مذہب، قومیت، رنگ و نسل سے تعلق رکھتا ہو اُن پر ظلم پوری انسانیت اور دنیا کے تمام مظلوموں پر ظلم اور بربریت تصور کرتا ہوں اور ظالم جہاں بھی ہو چائے جس مذہب اور قومیت سے تعلق رکھتا ہو اُن سے مجھے نفرت ہے بلکہ ہر انسان ایسے درندہ صفت ملک، قوم اور فوج سے نفرت کرتا ہے۔
لیکن میں خود ایک مظلوم ہوں میرا وطن مقبوض ہے، میرے لوگ غلامی کی زندگی بسر کررہے ہیں، میرے نوجوانوں کو اغوا کرکے غائب کیا جاتا ہے، ہمارے گھروں کو جلایا جارہا ہے، ہزاروں لاشیں اُٹھا چکے ہیں اور اب بھی اُٹھا رہے ہیں، بلوچستان کے ہر گلی میں ہر گھر سے ایک نوجوان لاپتہ اور ایک نوجوان شہید کردیا گیا ہے۔
بلکہ ایسے بھی گھر ہیں جہاں سے چار چار لاشیں اُٹھائی گئی ہیں ایسے بھی خاندان ہے جن کے پورے خاندان کو یا لاپتہ کردیا گیا ہے یا خاندان کے خاندان کو شہید کردئیے گئے ہیں۔ بس فرق صرف اتنا ہے برما میں ظلم و جبر کے پہاڑ توڑنے والے غیر مسلمان ہے، اور بلوچستان میں ظلم و بربریت اور خون کے ندیاں بہانے والے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مسلمان افواج ہے۔
برما کے مظلوموں کی خوش قسمتی ہے کہ اُن پر ظلم کے خلاف کئی ممالک کے لوگ آواز اُٹھا رہے ہیں میڈیا اُن کی لاشوں کو دکھا رہا ہے لیکن میرے بلوچستان کے مظلوم انسان اس سے بھی محروم ہےاور سوشل میڈیا پر بہت سے بلوچ غم سے ہلکان ہورہے ہے اور ہونا بھی چاہئے کیونکہ جس انسان کا خون کسی مظلوم پر ہونے والی ظلم پر نہ کُھلے وہ بھی ظالم کا ساتھی کہلاتا ہے۔
بہت سے بلوچ سوشل میڈیا پر برما جہاد کی مہم چلا رہے ہیں اور بہت سے بلوچ نوجوان اپنے پروفائل پر برما کے لوگوں سے ہمدردی کا اظہار کرکے اپنے تصویر کےساتھ وہاں قتل عام رُوکنے کے لئے آواز اُٹھا رہے ہیں لیکن میں سوچتا ہوں کہ ان کے نظروں سے پاکستانی میڈیا اور لوگوں کی طرح بلوچستان کیوں اُوجھل ہے۔
کیا بلوچستان کے لوگ انسان نہیں ہے کیا مظلوم نہیں ہے کیا مسلمان نہیں ہے کیا بلوچستان اور فلسطین، کشمیر، برما اور شام کے لوگوں کی خون میں فرق ہیں۔
عید سے دو روز قبل ہرنائی میں فوج نے بمباری کرکے 10 نہتے لوگوں کو قتل کردیا جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے لیکن کسی نے مذمت کے دو بول بھی نہیں بولے ، جن لوگوں کے ضمیر 7 ہزار بلوچوں کے لاشوں اور چالیس ہزار بلوچوں کو لاپتہ کردینے سے نہیں جاگے اور جو بلوچ اپنے کسی لاپتہ اور شہید ہمسائے کے گھر عید پر یکجہتی کے لئے نہیں جاسکتا اُنھیں برما کے لوگوں سے بھی کوئی ہمدردی نہیں بس سوشل میڈیا پر ایسے تصاویر لگانا اور باتیں کرنا ایک فیشن بن چکا ہے۔
لطیف بلوچ
One Comment