لیاقت علی
شخصیت پرستی اور ہیرو ورشپ سماجی طور پر پسماندہ معاشروں کی خصوصیت ہے۔ شخصیات مذہبی ہوں یا سیاسی ان کے گرد فرضی واقعات اور کارناموں کا ایک ایسا تانا بانا بنا جاتا ہے جس سے وہ سماج کے دوسرے افراد سے منفرد اور نمایاں نظر آنے لگتے ہیں۔ مذہبی شخصیات سے معجزے منسوب کئے جاتے ہیں جب کہ سماجی اور سیاسی شخصیات کو متھ بنا دیا جاتا ہے۔
ایک ایسی ہی متھ ہمارے ہاں نواب زادہ نصراللہ خان کی ہے جنھیں ہمارے میڈیا نے ْبابائے جمہوریتٗ کا لقب دے دیا ہے۔نواب زادہ جاگیر دارانہ سماجی پس منظر کے حامل تھے۔ انھوں اوائل عمری میں خاندانی روایات کے بر عکس احرار کے پلیٹ فارم سے سیاسی سر گرمیوں کا آغاز کیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد وہ مسلم لیگ میں شامل ہوگئے اور 1951 میں ہونے پنجاب کے صوبائی انتخابات میں رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔
وزیر اعلیٰ دولتانہ جب زرعی اصلاحات کرنے کی کوشش کی تو نواب نصراللہ نے ملتان کے معروف جاگیردار نوبہارشاہ کے ساتھ مل انجمن تحفظ زمینداراں تحت الشرعیہ قائم کی جس میں تمام جاگیرداروں کو زرعی اصلاحات کے خلاف اکٹھا کیا گیا تھا۔ نواب زادہ زرعی اصلاحات کو شریعت کے خلاف سمجھتے تھے اور جاگیرداری کو عین اسلام۔ بعد ازاں جب مسلم لیگ میں توڑ پھوڑ ہوئی تو انھوں نے حسین شہید سہروردی کی عوامی لیگ میں شمولیت اختیار کرلی۔
جب شیخ مجیب الرحمان نے چھ نکات پر مبنی پروگرام پیش کیا تو انھوں نے عوامی لیگ کا اپنا دھڑا بنا لیاتھا۔ 1962 کے آئین کے تحت ہونے والے انتخابات میں وہ رکن قومی اسمبلی بنے۔ جنرل ایوب خاں کے خلاف مختلف سیاسی جماعتوں کے اتحاد جمہوری مجلس عمل میں نواب زادہ نمایا ں رہے۔ جنرل ایوب خان نے جب سیاسی رہنماوں کی گول میز کانفرنس طلب کی تو اس کانفرنس میں شرکت کرنے والے اپوزیشن کے وفد میں نواب زادہ شامل تھے۔ وہ جنرل یحییٰ خان کے مارشل لا کو خو ش آمدید کہنے والوں میں بھی شامل تھے۔
جب کچھ سیاسی جماعتوں نے باہم مدغم ہوکر نئی سیاسی جماعت پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی بنائی تو انھوں نے اپنی عوامی لیگ کا دھڑا اس نوزائیدہ پارٹی میں ضم کر دیا تھا۔ نورالامین اس نئی پارٹی کے سربراہ مقرر ہوئے تھے۔ 1970میں ہونے والے الیکشن میں انھوں نے پی ڈی پی کے ٹکٹ پر دو نشستوں سے انتخاب میں حصہ لیا تھا لیکن دونوں نشستوں پر پیپلز پارٹی کے امیدواروں کے ہاتھوں ہار گئے تھے۔
بھٹو کے خلاف بننے والے اتحاد یو۔ڈی۔ ایف میں بہت متحرک تھے اور جب بھٹو نے قبل از وقت انتحا ب کا اعلان کیا تو راتوں رات بننے والے پاکستان قومی اتحاد کے نمایاں رہنماوں میں شامل تھے۔ بھٹو کے ساتھ مذاکرات کرنے والے پی این اے کے وفد کا حصہ تھے۔ جب جنرل ضیا الحق نے مارشل لا لگایا تو اس کا خیر مقدم کیا تھا۔ جنرل ضیا کی کابینہ میں اپنا ایک نمایندہ چوہدری ارشد نامزد کیا تھا جسے سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت جنرل ضیا نے دی تھی۔
نواب زادہ ایم آر ڈی تشکیل دینے والوں میں شامل تھے ۔ 1988 میں جب بے نظیر وزیر اعظم بنیں تو انھوں نے غلام اسحاق کے خلاف صدرارتی الیکشن لڑا جو وہ ہار گئے۔وہ بے نظیر کے خلاف جنرل اسلم بیگ اور غلام اسحاق کی سازشوں کا دانستہ یا نا دانستہ حصہ تھے۔ انہی دنوں سلمان رشدی کی کتاب شیطانی آیات کے حوالے سے مسلمان ممالک میں ایجی ٹیشن چل رہا تھا۔
پاکستان میں انٹیلی جنس ادارے اس ایجی ٹیشن کو بے نظیر حکومت کے خلاف استعمال کررہے تھے۔ یہ ادارے کچھ اس قسم کا تاثر پھیلارہے تھے جیسا کہ سلمان رشدی کی کتاب بے نظیر نے چھپوائی ہو۔نواب زادہ نے مولانا کوثر نیازی کے ساتھ مل کر اسلام آباد میں سلمان رشدی کی کتاب کے حوالے سے جلوس نکالا جس میں پولیس کی گولیوں سے دینی مدارس کے پانچ طلبا ہلاک ہوگئے تھے۔
جب یہ جلوس نکالا گیا تھا تو بے نظیر چین کے دورے پر گئی ہوئی تھیں۔بے نظیر کی پہلی حکومت کو ختم کرنے کی کوششوں میں وہ پیش پیش تھے۔ بعد ازاں جب نواز شریف حکومت بنی تو اس سے بھی وہ جلد ہی بے زار اور مایوس ہوگئے اور مختلف حیلوں بہانوں سے اس حکومت کے خلاف کام کرتے رہے۔ بے نظیر کی دوسری حکومت میں وہ پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی کے سربراہ بن گئے۔ یہ عہدہ وفاقی وزیر کے برابر ہے۔
نواب زادہ عوامی سیاست اور عوام کی طاقت پر قطعاً یقین نہیں رکھتے تھے۔ انھوں نے پی ڈی پی جس کے وہ تاحیات سربراہ رہے کو کبھی منظم نہیں کیا تھا اور اسے اپنے ہاتھ کی چھڑی اور کلائی کی گھڑی سے بھی کم اہمیت دیتے تھے۔ عوام ان کی سیاسی ڈکشنری میں کوئی مقام نہیں رکھتے تھے۔ وہ سیاست کو جوڑتوڑ سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے تھے۔ عوام کو شعوراور انھیں ان کے سیاسی ، معاشی ااور سماجی حقوق کی آگاہی دینا ان کی ترجیحات میں شامل نہ تھا۔ وہ سیاست کو شطرنج کے کھیل سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے تھے۔
وہ ڈیر ے دار قسم کے سیاست دان تھے جو ہر شام اپنے ڈیرے پر محفل جماتے اور تازہ ترین سیاسی صورت حال تبصرہ کرکے دل خوش کر لیتے تھے۔ ان کو نہ کوئی سیاسی پروگرام تھا اور نہ کوئی معاشی ایجنڈا ۔لاہور میں وہ جس مکان میں چار دہائیوں سے زائد عرصہ تک بطور کرایہ دار رہتے رہے اس کا کرایہ بھی باقاعدگی سےنہیں دیتے تھے اور مالک مکان کے خلاف سول عدالت میں مقدمات چلاتے رہتے تھے۔ یہ تو ان کی وفات کے بعد ہوا کہ مالک کو اس کا مکان واپس مل سکا ۔ یہ مکان اسی جگہ پر تھا جہاں آج کل ایمپریس روڈ پر لنڈا بازار ہے۔
One Comment