علی احمد جان
ذوالفقار علی بھٹو کے جرائم کی فہرست میں جمہوریت، سیاست ، دستور، قانون اور عوامی حقوق سے آگاہی سب سے بڑے جرم تھے جس کی پاداش میں ان کو جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔ ان کے منہ سے نکلے جمہوریت ، آئین اور قانون کے الفاظ کا ہی جادو تھا کہ مزارعے زمینداروں کے سامنے اور مزدور مل مالکان کے سامنے اپنے حقوق لینے کے لئے کھڑے ہوئے۔
دوسری طرف مقتدر حلقوں میں اس بات پر اتفاق تھا کہ اشرافیہ سے اٹھنے والے بھٹو نے جمہوریت کے نام پر جس طرح کمی کمیوں کی زبانوں پر لگی چپ کی مہر توڑ نے کےناقابل معافی جرم کا ارتکاب کیا ہے ۔ بھٹو کو ہٹا نا ملک کی اشرافیہ کا ایک متفق علیہہ مقصد بن گیا جس میں اپنے وقتی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ایک دوسرے کو کفر کے فتوے دینے والے، ایک دوسرے کے پیچھے نماز نہ پڑھنے والے ، ایک دوسرے کا منہ نہ دیکھنے والے، ایک دوسرے کو کمتراور نیچ سمجھنے والے سب ایک چھتری تلے جمع ہو کر بھٹو سےنجات پرمتفق ہوگئے ۔
بھٹو کو ہٹاکر ملک میں ایک غیر منتخب مجلس شوریٰ کے قیام اور ریفرنڈم کے ذریعےاقتدار پر قبضے کا غیرآئینی اور غیر اخلاقی جواز تراشنے کے بعد مقتدر قوتوں نے عوامی حقوق کی سیاست کرنے والے سیاست دانوں کی جگہ عوامی خدمت کے نام پر غیر سیاسی لوگوں کو آگے لاکر اس خلاء کو پر کرنے کی کوشش کی۔
غیر سیاسی لوگوں کو ایوانوں میں لانے کے پیچھے دو مقاصد کارفرما تھے جن میں سے ایک تو ملک سے پچھلے سالوں میں پنپنے والا سیاسی کلچر کا خاتمہ تھا اور دوسرا مقصد غیر سیاسی لوگوں پر مشتمل اسمبلیوں سے آمرانہ دور کے تمام غیر آئینی، غیر قانونی اور غیر اخلاقی اقدامات کو آئینی تحفظ دینا تھا ۔
ملک میں غیر سیاسی لوگوں کو سیاست میں لانے کی جستجو میں نئے چہرے سامنے آئے جن میں سندھڑی کے ماہر زراعت محمد خان جونیجو اور پنجاب کے صنعت کار محمد نواز شریف بھی تھے۔ محمد خان جونیجو بہت جلد ہی کچھ معاملات پر سیاسی موقف رکھنے کے جرم کی پاداش میں اپنے ہی منظور کردہ آئینی شق کو پیارے ہوکر گھر سدھار گئے۔ ان کے جانے کے بعد لاہور کے صنعت کار نواز شریف نے غیر سیاسی اسمبلیوں میں جنم لینے والی مسلم لیگ کی قیادت سنبھالی۔
نواز شریف جس مسلم لیگ کے گھوڑے پر سوار ہیں وہ ہر دور میں آمریت کی سواری رہا ہے۔ اس مسلم لیگ کا بھی جنم ایوب خان کی کنونشن لیگ اور مشرف کی قاف لیگ کی طرح اسمبلیوں میں ہوا ہے جس میں شامل ہونے والوں کو گھوڑوں کی طرح قومی خزانے سے خریدا گیا جس کے لئے ہارس ٹڑیڈنگ کی اصطلاح بھی مستعمل رہی ہے۔ اس مسلم لیگ میں سیاسی جدوجہد اور ریاستی دباؤ برداشت کرنے کی روایات مفقود ہیں اوراس جماعت میں ہمیشہ موسمی پرندوں کے دم خم سے رونق رہتی ہے۔
مسلم لیگ ہر آمر کی گھر کی باندی رہی ہے جس میں لوگ حسب ضرورت شامل ہوتے رہے ہیں اور پھر حالات کو نا موافق ہونے پر چھوڑ کر چلے جاتے رہے ہیں ۔ ایسے لوگوں کے لئے بے پیندے کے لوٹے یا تھالی کے بینگن کی اصطلاح بھی استعمال ہوتی رہی ہے جس کی وجہ سے ایسی بننے والی مسلم لیگ کو ہر دور میں لوٹا لیگ بھی کہا جاتا رہا۔
نواز شریف کی سیاست اور طرز عمل سے یہ نظر آتا ہے کہ وہ اپنے مربی اور مرشد جنرل ضیاء کی طرح اسمبلیوں کو صرف اقتدار کے ایوان تک پہنچنے کا زینہ سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک اسمبلی میں جانا وہاں بیٹھنا وقت کا ضیاع ہے جو خدمت پر یقین رکھنے والے کسی حکمران کا شیان شان نہیں۔ عدالتوں کے بارے میں ان کا طرز عمل یہ رہا ہے کہ جب تک عدالتیں ان کی سنیں وہ ان کے نزدیک عدل کے ایوان ہیں جب ان کے خلاف ہوں تو وہ ان کے کسی فیصلے کو ماننے کو تیار نہیں ہوتے۔
ججوں اور عدلیہ کو ہمیشہ انھوں نے دھونس، چمک اور تعلقات سے تابع رکھنے کی کوشش کی ہے۔ آزاد اور خود مختار کہلانے والی چوہدری افتخار کی عدلیہ کی بحالی کے لئے ان کی کوشش بھی ایک تو عدلیہ کو بحال کرکے اپنا احسان مند کرنا تھا اور دسرا مقصد اپنے حریف آصف زرادی کے خلاف عدلیہ کو بطورآلہ کار استعمال کرنا تھا جس میں وہ کامیاب ہوگئے۔
نواز شریف کے سیاسی سفر کے اس انوکھے اور غیر متوقع موڑ سے ایک سبق یہ ملتا ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سب سے لمبی مدت تک وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف بھی ان بنیادی حقوق کے طلب گار ہیں جن کا ہر شہری حقدار ہے۔ نواز شریف جب سیاست میں آئے تو ان کا مطمع نظر بنیادی انسانی اور شہری حقوق کی پاسداری، نگہبانی یا فراہمی سے زیادہ اپنے ذاتی مفادات کا تحفظ تھا جس کو انھوں نے وقت کے آمر کا ساتھ دیکر حاصل کیا جو اس وقت اپنے ہی ملک کے عوام کے خلاف تاریخ کے سب بڑے جبر کا ارتکاب کر رہے تھے۔
ان کی سر پر گورنر ہاؤس کے بٹلر کی ٹوپی رکھ کر ان کے تمسخر اڑانے والے جنرل جیلانی کو معلوم تھا کہ ایک صنعت کار اپنے کاروبار کی ترقی اور اپنے ذاتی فائدے کے لئے ان کے ہر اس حکم کو بجا لائے گا جو ایک نظریاتی سیاسی کارکن کے لئے ممکن نہیں ۔ ان کا انتخاب ایک سیاسی مدبر اور راہنما کے طور پر نہیں بلکہ نئے بچھے بساط سیاست پر ایک مہرے کے طور پر ہوا تھا۔
نواز شریف کا انتخاب جس مقصد کے لئے ہوا تھا اس کو احسن طریقے سے نبھایا ۔ آج لاہور کے اس حلقے میں جہاں سے وہ الیکشن لڑتے رہے وہاں پیپلز پارٹی کو صرف چند سو ووٹوں تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ پورے پنجاب سے پیپلز پارٹی اور دیگر آئین اور دستور کی بالادستی، شہری آزادیوں اور انسانی حقوق کی بات کرنے والی جماعتوں کا صفایا ہو چکا ہے۔ وسطی پنجاب تعمیر و ترقی کا ایک نمونہ بن چکا ہے جس کو دیکھ کر محسوس ہی نہیں ہوتا کہ اس ملک میں کہیں پینے کا پانی بھی میسر نہیں اور لوگ نان شبینہ کو ترستے ہیں۔
آج نواز شریف پر شہری آزادی کے لئے سیاسی جدوجہد کے دوران قانون توڑ نے کا کوئی مقدمہ نہیں۔ ان پر کسی ترقیاتی منصوبے میں بدوعنوانی کا بھی کوئی مقدمہ نہیں اور نہ ہی ان پر کسی غریب سیاسی ورکر کو نوکری دینے کا الزام ہے۔ ان پر مقدمات اپنے کاروبار کو فروغ دینے اور اس کو مزید پھیلانے کے لئے قوانین توڑنے کے ہیں جو ان کے لئے کبھی کوئی جرم ہی نہیں تھا۔
آئین توڑنے والے آمر نے بھی ان کا انتخاب صرف اس لئے کیا تھا کہ وہ جمہوریت، سیاست ، دستور، قانون اور عوامی حقوق کے تحفظ جیسے ناقابل معافی جرائم کا ارتکاب نہیں کرے گا جو اس نے احسن طریقے سے انجام دیا۔ نواز شریف نے بھی گزشتہ چالیس سالوں سے اپنے کاروبار اور ذاتی منفعت کو جرم سمجھا ہی نہیں تھا اس لئے اب وہ یہ پوچھنے پر خود کو حق بجانب سمجھتے ہیں کہ ان کو کس جرم کی سزا دی جارہی ہے۔
شاید نواز شریف کا دل اس بات کو ماننے کے لئے بھی تیار نہیں کہ اب ہواؤں کا رخ بدل چکا ہے، سیاست کی نئی بساط بچھائی جا چکی ہے جس کے لئے اب نئے مہروں کی ضرورت ہے اور اس کھیل کے قواعد کے مطابق ان کو سکندر مرزا، محمد خان جونیجو اور ظفر اللہ جمالی کی طرح خاموشی سے گھر بیٹھ جا نا ہے اور میدان سیاست نئے کھلاڑیوں کے لئے چھوڑ دینا ہے۔
♦
One Comment