آصف جاوید
پاکستان کا اصل مسئلہ نا خواندگی ہے، زبان یا ذریعہ تعلیم نہیں۔ مگر آج ستّر 70 سال گزرنے کے باوجود ہم نہ تو نا خواندگی ختم کر سکے ہیں اور نہ ہی ذریعہ تعلیم طے کرسکے ہیں۔ ایک قومی شناخت اور یکساں معیارِ تعلیم قائم رکھنے کے لئے اصولی بنیادوں پر علاقائی، قومی اور بین الاقوامی زبان میں تعلیم اور ذریعہ تعلیم کا تعیّن بہت ضروری ہے۔ قومی زبان کے طور پر نفاذ ِ اردو سے انکار ممکن نہیں ہے، مگر اعلی تعلیم کے حصول کے لئے انگریزی کی اہمیت کے ساتھ ساتھ علاقائی زبانوں کو نظر انداز کرنے کی حماقت کبھی نہ کی جانی چاہئے۔
ہمارا استدلال یہ ہے کہ اردو کی ترجیح میں علاقائی زبانوں جیسے پنجابی، سندھی، پشتو ، بلوچی اور بین الاقوامی رابطے اور اور جدید علوم و فنون کی زبان انگریزی کو قطعی نظر انداز نہ کیا جائے۔ انگریزی گلوبل زبان بھی ہے۔ جدید علوم و فنون اور سائنس کی زبان بھی ہے، انگریزی کو نظر انداز کرنے کا مطلب پاکستانی قوم کی اجتماعی خود کشی ہوگا ۔ عظیم تر ملکی مفاد میں ہم تجویز کرتے ہیں کہ ہر صوبے میں پہلی جماعت سے لے کر میٹرک تک دس سال ہر بچّے کو لازمی طور پر تین زبانیں درجہ بدرجہ معیاری نصاب کی شکل میں پڑھائی اور سکھائی جائیں۔
یعنی ایک اس کے صوبے کی زبان جس کو آپ بچّے کی مادری زبان بھی کہہ سکتے ہیں۔ دوسری قومی زبان یعنی اردو، اور تیسری بین الاقوامی زبان یعنی انگریزی۔ کیونکہ دنیا تیزی سے ترقّی کر رہی ہے، اور سائنس و ٹیکنالوجی کا سارا علم انگریزی زبان میں ہے لہذا اعلی تعلیم کے لئے انگریزی کو ذریعہ تعلیم رکھا جائے تاکہ بحیثیت قوم ہم ترقّی سے محروم نہ رہیں۔ اور اردو قومی اور سرکاری زبان کی حیثیت میں پورے ملک میں رابطے اور دفتری کاموں میں بلا حیل و حجّت استعمال کی جائے۔
رہا ذریعہ تعلیم کا معاملہ تو بہتر ہے کہ ہر صوبے میں لازمی طور پر قومی زبان میں میٹرک کی سطح تک لازمی تعلیم دی جائے ، تاکہ پورے ملک میں یکساں نظام تعلیم و یکساں ذریعہ تعلیم کے نتیجے میں یکساں معیار کے طالبعلم فارغ التحصیل ہوکر نکلیں۔ اس حکمت عملی کو اپنانے سے صوبائی زبانوں کو احساسِ محرومی سے نجات ملے گی، صوبائی عصبیتوں اور نفرتوں میں کمی آئے گی۔ اردو بطور قومی و سرکاری زبان قومی رابطوں، دفتری زبان اور ملکی ذرائع ابلاغ کی زبان کے طور پر پھلے پھولے گی اور ہماری نوجوان نسل اعلی‘ تعلیم اور بین الاقوامی رابطوں کے حصول میں انگریزی جاننے کی وجہ سے کسی معذوری کا شکار نہیں ہوگی۔ قومی یکجہتی کو فروغ ملے گا۔
عدالت عظمی‘ نے اپنے ایک حکم نامے میں قومی سطح پر اس کے فوری نفاذ کا فیصلہ ایسے وقت میں جاری کیا ہے،جب پورا ملک لسّانیت ،عصبیت اور قومیت کی آگ میں بری طرح جل رہا ہے، عدالتِ عظمی‘ پاکستان کا قومی سطح پر نفاذِ اردو کا فیصلہ مزید مسائل کو جنم دے سکتا ہے۔ پہلے مذہب کے نام پر ملک بنایا گیا، پھر ریاست کا مذہب مقرّر کیا گیا۔جب پاکستان بنا تو اس ریاست کی جغرافیائی حدود میں مختلف مذاہب، عقائد اور فرقوں کے لوگ بستے تھے۔ مگر ریاست کے اکثریتی گروہ کے مذہب کو ریاست کا مذہب قرار دے دیا دیا گیا اور دیگر مذاہب کو اقلّیت قرار دے کر ان کو قومی اکائی سے الگ کردیا گیا ۔
پھر قراردادِ مقاصد گھڑی گئی ، دنیا آج تک ہنستی ہے اور کہتی ہے کہ پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس میں مقصد پہلے حاصل کیا گیا، اور پھر اس مقصد کے حصول کی قرارداد بعد میں گھڑی گئی۔ 1947 میں ملک بنا تھا اور 1949 میں قرار مقاصد تحریر کی گئی۔ پاکستان جب بنا تو اس کی جغرافیائی حدود میں متنوّع لسّانیتیں اور قومیتیں موجود تھیں۔ جن کی اپنی اپنی زبانیں اور اپنی اپنی ثقافتیں پہلے سے موجود تھیں۔ لوگ اپنی اپنی زبانوں اور ثقافتوں کے ساتھ گہرے رشتوں میں بندھے ہوئے تھے۔ بنگالی، پنجابی، سندھی، پشتون ،بلوچی، اور ہندوستان سے آئے ہوئے مہاجر اپنی گنگا جمنی تہذیب ، زبان اور ثقافت کے ساتھ موجود تھے۔ ہر زبان اور ثقافت کی تاریخ، لب و لہجہ، ادب ، رسم و رواج علیحدہ علیحدہ مگر ایک خوبصورت گلدستے کی مانند موجود تھے۔
اگر اس وقت سمجھداری سے کام لے کر ان سارے مذاہب، عقائد، فرقوں زبانوں ، لسّا نیتوں اور علاقائی قومیتوں کو ایک پاکستانی قوم میں تشکیل دینے کی حکمت عملی سمجھداری کے ساتھ ترتیب دے دی گئی ہوتی، تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا ۔ ناقص حکمت عملی اور عوامی مزاج اور فطرت کے تقاضوں کو سمجھے بغیر پہلے تو اس ملک کا ایک مذہب مقرّر کیا گیا، پھر علاقائی اور لسّانی ثقافتوں کے فطری مزاج اور ضرورتوں کو سمجھے بغیر ان پر ایک ایسی زبان کا اطلاق کردیا گیا جو کہ کسی بھی لسّانی اکائی کی فطری زبان نہ تھی۔
بنگالی عوام عددی اکثریت میں تھے، ان کی تہذیب تمدّن، زبان اور ثقافت کی ہزاروں سالہ تاریخ موجود تھی ، یکسر اور اچانک بنگالیوں کا اپنی زبان سے ناطہ توڑ کر ان پر اردو زبان زبردستی مسلّط کردی گئی۔ خود جناح صاحب نے نے مشرقی بنگال (مشرقی پاکستان) میں جاکر انگریزی میں خطاب کیا اور بنگالیوں سے کہاکہ اردو پاکستان کی واحد قومی اور سرکاری زبان ہوگی۔ستم ظریفی یہ ہے، خود اردو قائدِ اعظم کی زبان تھی، نہ ہی ان کو اردو آتی تھی۔ خود ان کی مادری زبان کاٹھیا واڑی گجراتی تھی۔ جس کو وہ پبلک میں نہیں بولتے تھے، پبلک میں وہ صرف ا نگریزی بولتے تھے۔
نفاذِ اردو سے یک لخت انہوں نے پاکستان کی سب علاقائی قومیتوں کی زبانوں کو دوسرے درجے کا قرار دے دیا۔ بنگالی اس صدمے کو جھیل نہ سکے اور یوں پاکستان میں لسّانیت اور قومیت کی بنیاد پر پہلی تفریق پڑی۔ دانشوروں کے ایک بڑے حلقے کا خیال ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی داغ بیل اس وقت ہی ڈال دی گئی تھی جب بانی پاکستان محمد علی جناح نے یہ اعلان کیا تھا کہ اردو مملکت کی سرکاری زبان ہوگی، اگرچہ مشرقی پاکستان میں بنگالی کو صوبائی زبان کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا تھا، یا پھر بنگالی کو دوسری سرکاری زبان کی درجہ دیا جاسکتا تھا مگر افسوس ایسا نہیں کیا جاسکا۔
مشرقی پاکستان، جہاں بنگالی زبان بولنے والے پاکستانیوں کی اکثریت آباد تھی اور جو اس بات کی امید لگائے بیٹھے تھے کہ اس ملک کی دوسری سرکاری زبان بنگالی ہوگی، آگے چل کر غیر بنگالی پاکستانیوں کے رویّوں ،امتیازی سلوک اور احساسِ محرومی سے تنگ آکر 1971 میں پاکستان سے علیحدہ ہوگئے۔ مگر ریاست نے ملک ٹوٹنے کے باوجود کوئی سبق نہیں سیکھا ۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ آئے دو سال گزر چکے ہیں، نہ تو ابھی تک نفاذاردو ہوسکا، نہ ہی مادری اور علاقائی زبانوں کو کوئی مقام مل سکا، صوبائی تعصّب اور باہمی نفرتوں میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ اس پس منظر میں یہ بہت ضروری ہے کہ کوئی ایسی راہ اختیار کی جائے کہ باہمی نفرتوں میں اضافہ نہ ہو ، قومی اور مادری زبانوں کو اہمیت حاصل ہو، ایک پاکستانی قومیت کے فروغ کی راہ ہموار ہو۔
One Comment