اس وقت پاکستان کی سیاست میں ’’جمود‘‘ کی شکار ہے ۔ریاست اور سیاست اپنی بقا اور پہچان کی تلاش میں ہے ۔جمہوریت کو قائم و دائم رکھنے کے لیے ’مکالمے‘ اور برداشت کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ رَضا رَبانی جیسے سنجیدہ سیاست دان کے بعد صدر ممنون حسین کے بیانات کی گونج میں یہ بات آسانی سے سمجھ آ سکتی کہ پاکستان کی سیاست بند گلی میں جا چکی ہے ۔اسلام آباد کے کنونشن سنٹر میں پاکستان کے اکہترویں یوم آزادی کی مرکزی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر ممنون حسین کا کہنا تھا کہ
۔ ’’ہماری قوم کا مزاج بنیادی طور پر جمہوری اور پارلیمانی ہے جس پر وہ بارہا اعتماد کا اظہار کر چکی ہے ۔تاریخ کا جبر ہے کہ مزاج سے مطابقت رکھنے والا نظام پورے طور پر برگ و بار نہ لا سکا ،ضروری ہے کہ قوم کو گروہی اورطبقاتی مفادات سے اوپر اُٹھ کر اپنے درمیان وسیع تر اتفاق رائے پیداکرے ۔جمہوری رویے میں بلوغت اور پختگی جبکہ قومی تری اور استحکام کا یہی راستہ ہے ۔اس وقت پاکستان کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ غیر جذباتی طریقے سے ان مسائل کا جائزہ لیکر ملک میں اعتدال اور معقولیت کو فروغ دیا جائے ،قوم امید رکھتی ہے کہ قائدین گروہی مقاصد سے اوپر اُٹھ کر ملک کے مستقبل کی حفاظت کریں گے‘‘۔
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ اِس وقت پاکستانی ریاست انتہائی کمزور اور شکستہ ہو چکی ہے ۔کوئی تسلیم کرے یا انکار کرے بلوچستان تباہی کے دَہانے پر کھڑا ہے ۔وہاں پر جاری قومی آزادی کی جنگ کو محض بندوق کی نوک پر ہم کب تک روکیں گے ؟۔کمزور اور لاچار لوگوں کو حقوق دینے کے متعلق بھی ہماری ریاست کی پالیساں سب کے سامنے ہیں ،سندھ میں بھی ’’پاکستان ‘‘ سے بے زاری کے جذبات پائے جاتے ہیں۔سندھی لوگ پاکستانی قانون اور آئین کی حکمرانی کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔خیبر پختون خواہ میں بھی پاکستانی ریاست کی عملداری اُونچے اُنچے پہاڑوں کو سَر کرنے سے معذور نظر آتی ہے ۔ریاست کی متشدد پالیسوں کی وجہ سے جنوبی پنجاب میں ’’سپاہ صحابہ‘‘ کی حکمرانی قائم ہے ۔
ایسے حالات میں پاکستان اپنی شناخت اور بقا کی تلاش میں ہے ۔ایسے میں سماجی معاہدے کی ضرورت پہلے سے زیادہ بڑھ چکی ہے،جس کی بازگشت ہم لوگ آج کل سن رہے ہیں۔تاہم اَب یہ طے کرنا ہو گا کہ پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنایا جائے یا ایک مذہبی ریاست کے طور پر قائم رکھا جائے ۔مذہبی ریاست ہونے کی وجہ سے پاکستان کے بہت سے طبقات کو ہم پہلے ہی عضوِ معطل بنا چکے ہیں رہی سہی کسر مذہبی انتہا پسندوں نے پوری کر د ی ۔پاکستانی ریاست کی کم ظرفی اور بے ہمتی ملاحظہ کریں کہ ہمارے قومی سلامتی والے اقلیتیوں،شیعہ مذہب کے پیروکاروں ،بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں،بلوچوں ، آزاد منش صحافیوں اُور دانشوروں سے مکالمہ یا مشورہ کرنا ’’حرام ‘‘ سمجھتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی معیشت روز بروز تنزلی کی طرف بڑھتی جا رہی ہے ۔اَب پاکستان میں پیدا ہونے والے ذہین لوگوں کے لیے اپنے ملک کی دل کشی باقی نہیں رہی اور وہ بیرونِ ملک جا رہے ۔دوسری طرف نواز شریف کی نا اہلی کے بعد ہمارے ملک میں ایک سیاسی طوفان آیا ہوا ہے ۔پاکستان میں ہر طرف سیاست دان اپنی دکانداری چمکانے کے لیے ایشوز کی سیاست کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔کچھ حلقے تنقید و تعریف جبکہ کچھ لوگ ماضی کو کریدنے اور کچھ لوگ ’نیا‘ کردِکھانے کے عزم کا بھی اظہار کر رہے ہیں ۔
نواز شریف کی نا اہلی دو آئینی ’’ اسلامی شقوں ‘ ‘ کے تحت ہوئی ہے ۔ان شقوں کو قانون کی زُبان میں اُور عددی اعتبار سے باسٹھ اُور تریسٹھ کا ٹائٹل اُور پہچان دی گئی ہے ۔یہ دفعہ ہمارے ایک مرحوم اَمیر المومنین ضیا الحق کی دَین ہے ۔جنرل ضیا الحق نے ظلمت کو ضیاء میں بدلنے کے لیے اُور اِفراد کو اچھے طریقے سے پرَکھنے کے لیے ان ’’دفعات‘‘ سمیت کئی’’اسلامی دفعات‘‘ تخلیق کیے تھے ۔ اِن دفعات کے تحفظ کے لیے ہمارے مُلاں دن رات ایک کیے رکھتے ہیں۔ بنیاد پرست ملاں قاضی حسین احمد نے تو ایک دفعہ ان ’’دفعات‘‘ پر نہ پرَکھے گئے الیکشن کا بائیکاٹ بھی کردیا تھا۔آج کل سرمایہ داروں کے سب سے زیادہ سنجیدہ لیڈر نوازشریف کی طرف سے اِس مقدس آئین پر سوال اُٹھ رہے ہیں۔
میاں صاحب کا فرمان ہے کہ ملک کو’’ نئے سماجی معاہدے ‘‘کی ضرورت ہے ۔جس میں ووٹ کا تقدس پامال نہ ہو، اُور نہ ہی کسی کی ٹانگیں کھینچی جائیں۔میاں صاحب کی سیاست سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن اِن کی اِس سوچ سے اِختلاف ممکن نہیں ہے کہ ملک کو ’نئے سماجی معاہدے ‘کی ضرورت ہے ۔اَب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میاں صاحب یہ معاہدہ سماج کے کن نمائندوں یا رہنماؤں سے کریں گے؟۔جبکہ سیاست دانوں شعوری پستی کی حالت یہ ہے کہ اس وقت پاکستان میں کوئی بھی سنجیدہ رہنما موجود ہی نہیں ہے ۔اس وقت جماعتوں کی لیڈر شپ عقلی اور علمی سطح پر بانجھ ہو چکی ہے ۔سیٹیاں اور با جے بجانے والے ملکی بھاگ دوڑ سنبھالنے کی تیاری کر رہے ہیں۔سیاسی اتفاق رائے تقریباً ناممکن نظر آرہا ہے۔زِیادہ تر سیاسی جماعتیں مذہبی بنیاد پرستی کا پر چار کر رہی ہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ جب سے نواز شریف نے آئین کے کچھ مقدس دفعات کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کی بات کی ہے تو پاکستان کی سنجیدہ مذہبی کمیونٹی نواز شریف کے اِس اعلان پر کافی مضطرب ہے ۔جماعۃ الدعوۃ جیسی جہادی تنظیم نے ان آئینی شقوں کے تحفظ کے لیے سیاسی جماعت بنانے کا فیصلہ کر لیا ، دیوبندی بریلوی اور جماعت اسلامی والے بھی کمر کس کر میدان عمل میں آ کر اسلامی دفعات کی فیوض و برکات بیان کر رہے ہیں ۔پاکستان میں ایک بیانیہ ایسا ہے کہ فوج اور عدلیہ کو سماجی معاہدے میں شامل کیا جائے لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ فوج اور عدلیہ جیسے اداروں نے خود ہی تو نواز شریف کو نا اہل کرنے کے لیے جے آئی ٹی کی معاونت کی تھی، کیا وہ میاں صاحب کے ساتھ ’’مفاہمت‘‘ کر لیں گے ۔۔
ایسی صورتحال میں ایک عمرانی معاہدہ پایہ تکمیل کو پہنچ سکتا ہے یا نہیں یہ ہے وہ سوال جس کا جواب ہر محب وطن پاکستانی ڈھونڈ رہا ہے ۔لیکن ایک بات حقیقت ہے کہ اس ملک میں وہی سماجی معاہدہ کامیاب ہو سکتا ہے ۔ جس کی ساخت و پرداخت نہ تو ’’میثاقِ جمہوریت ‘‘ جیسی ہو اُور نہ ہی قرار دادِ مقاصد کے متن سے ماخوذ ہو ،بلکہ سماج کی تمام اکائیوں سے رائے لے کر ایک سیکولر آئین تشکیل دیا جائے ۔مذہب کو سیاست سے علیحدہ کیا جائے ۔اورریاست ملک کے تمام باشندوں کو بلاامتیاز رَنگ،نسل،اور مذہب بنیادی حقوق کی فراہمی کی ضمانت دے۔
♦
One Comment