علی احمد جان
سال ۲۰۰۴ میں جب حکومت ہندوستان نے تین ہزار تین سو چھیاسٹھ صفحات پر مشتمل قدیم ترین مسودات گلگت کو سامنے لائی تو دنیا کے ادبی حلقے انگشت بدندان رہ گئے۔ یہ ایک ساتھ پیش کئے جانے والےبدھ مت کے قدیم ترین نسخوں کی سب سے بڑی تعداد تھی جس پر حکومت ہند کو فخر تھا اور اس نے عالمی ادارہ یونیسکو سے ان مسودات کو عالمی ورثے کے رجسٹر میں شامل کرنے کی درخواست بھی کی۔
سنہ ۱۹۳۱ میں گلگت کے نوپورہ گاؤں کے چند بکریاں چرانے والے لڑکوں کو ایک لکڑی کے برتن میں لکھے ہوئے بھوج پتر (برچ )کی چھال پر لکھے یہ مسودے ملے تھے۔ برچ سطح سمند ر سے درخت اگنے کی سطح کا آخری چوڑےپتوں والا درخت ہے جس کے تنے اور شاخوں کے گرد ایک ملائم کاغذ کی طرح چھال تہہ در تہہ ل لپٹی ہوتی ہے۔ اس چھال کو مقامی لوگ مختلف مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
ان میں سے ایک اس کو کاغذ کی دستیابی سے پہلے بطور ایبض لکھائی کے لئے بھی استعما ل کیا جانا بھی رہا ہے۔ یہ چھال صدیوں تک گلتی سڑتی نہیں اور نہ ہی اس پر دیمک یا کیڑے لگتے ہیں۔ اس درخت کا اردو میں کوئی نام کم از کم میری معلومات میں نہیں ہے۔ ہندی میں اس کے لئے بھوج پتر کا لفظ مستعمل ہے ۔ جب یہ مسودات ان چرواہوں کو ملے تو اس وقت گلگت میں ڈوگروں کا قبضہ ہو چکا تھا ۔ گلگت میں مہاراجہ کشمیر کے نمائندےا ور انگریز سرکار کے افسر ان متعین تھے۔ ان چرواہوں نے مسودات کو گلگت ریزیڈینسی میں سرکاری افسروں کے حوالہ کیا جہاں سے ان کو بحفاظت دارالحکومت سری نگر میں مہاراجہ کشمیر کے دربار میں پیش کیا گیا۔ انگریز سرکار نے بھی اس دریافت کو ایک کارنامہ کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا۔
سنہ۱۹۳۱ میں جب دنیا کو پتہ چلا تو اس وقت بھی اس عظیم دریافت پر خبریں چھپیں ، اداریے لکھے گئے ، اخبارات اور رسائل نے خصوصی ضمیمے شائع کئےاور اس کو بین الاقوامی ورثہ قرار دے کے ماہرین کی ایک مشترکہ ٹیم جس میں علمائے بدھ مت ، ہندو مت کے علاوہ ماہرین لسانیات کو شامل کرنے کی تجاویز دی گئیں ۔ ان مسودات کی ایک تعداد بطور تحقیق لندن لے جائی گئی اس پرتحقیقی کام کا آغاز ہوا۔
ان مسودات کے رسم الخط کا پتہ چلا کہ ابھی تک جاپان میں تبدیلیوں کے ساتھ مستعمل ہے اور مضامین کا پتہ چلا کہ ان میں مذہب، اخلاقیات، طب، ادویات، فلسفہ اور مقامی کہانیوں سمیت ایک بیش بہا علوم کا خزانہ ہے۔ اس سے پہلے ۱۸۹۷ میں بدھ مت ٹیکسٹ سوسائٹی کلکتہ نے گلگت کے مسودات کا حوالہ دیا تھا اور اپنے مذہبی کتب کے حوالے سے پیش گوئی کی تھی ایسے مسودات ملیں گے جو بدھ مت کے قدیم ترین نسخے ہیں۔ ان مسودات پر ابھی تک کئے گئے کام کے بعد ماہرین کا خیال ہے کہ ان نسخوں کو مکمل سمجھنے میں ابھی پچاس سال اور لگیں گے اور اس کے بعد دنیا کو بدھ مت اور اس علاقے کی تاریخ سمجھنے میں زیادہ آسانی ہوگی ۔
سنہ۱۹۴۷ کے بعد ہندوستان کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے ان مسودات پر بھر پور توجہ دی اور ان کو محفوظ رکھنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی جس کے نتیجے میں ۲۰۰۴ میں ان نسخوں کی ایک بڑی تعداد لمینیشن کرکے دنیا بھر کےاستفادے کے لئے پیش کی گئی۔ دوسری طرف جموں وکشمیر کی سرکار نے حکومت ہندوستان کے خلاف ہندوستان کی عدالت میں ان نسخوں کی ملکیت پر کیس دائر کیا تھا۔
ہندوستانی عدالت نے جموں و کشمیر کا دعویٰ تسلیم کیا جس کے نتیجے میں ان مسودات کو شری پرتاب سنگھ میوزیم سری نگر منتقل کر دیا گیا۔ ۲۰۱۴ کے سری نگر میں آنے والے سیلاب نے نشیبی علاقے میں واقع اس میوزیم کے دو منزلوں میں رکھے گئے نوادرات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جس میں ان نادر نسخوں کے ۴۰۰ صفحات بھی شامل تھے جو ضائع ہوگئے۔ دہلی، لندن اور سری نگر کے علاوہ ان نادر نسخوں کے کچھ صفحات کراچی میوزیم میں بھی محفوظ ہیں۔
دوسری طرف ہمارے ہاں گلگت میں ایسے نوادرات کا ملنا ایک معمول کی بات ہے ان کو بلیک مارکیٹ میں بیچ دیا جاتا ہے۔ نوپورہ بسین سمیت کئی علاقوں سے اس کے بعد ہزاروں کی تعداد میں ایسے مسودات مقامی لوگوں کو ملے جو بین الاقوامی بلیک مارکیٹ میں فروخت ہوئے ۔آج تک کسی ایسے مسودے کے ملنے اور اس کو سرکار کی طرف سے دنیا کے سامنے لانے کی خبر کم از کم میری نظروں سے نہیں گزری۔ گلگت میں بنے آثار قدیمہ کے محکمے کے افسران کو بھی بخوبی معلوم ہے کہ ایسے نوادرات یہاں سے غیر قانونی طور پر بلیک مارکیٹ میں فروخت کئے جاتے ہیں۔
اس سال پونیال کے ایک گاؤں میں ایک اور لکڑی کے برتن میں رکھے اٹھائیس الگ الگ نسخے چند لوگوں کو ملے۔ راقم کو جب پتہ چلا تو ان کی تصاویر مختلف ماہرین تک پہنچایا تاکہ معلوم ہو سکے کہ ان نسخوں کی نوعیت کیا ہے۔ برچ کی چھال صدیوں تک ایک حالت میں رہنے کے بعد اکڑ گئی ہےجو کھولنے سے ٹوٹ پھوٹ جاتی ہے اور اس پر لکھے نسخے خراب ہوجاتے ہیں اس لئے کم سے کم صفحے کھول دئے گئے ہیں ۔
جتنے نسخے کھول دئے گئے تھے ان کی تصاویر کو دیکھنے اور مختلف دوسرے ماہرین سے مشورہ کرنے کے بعد کینیڈا کے پروفیسر جیسن نیلیس کا کہنا ہے کہ یہ دراصل مختلف خطوط ہیں جو ایک لیٹر بکس میں کھے گئے ہیں۔ ان نسخوں کی خاص بات یہ ہے کہ یہ مختلف رسم الخط میں لکھے گئے ہیں اور مختلف جگہوں سے مختلف لوگوں نے لکھے ہیں ۔ ان میں سے ایک پر سال ۹۶ درج ہے جو غالباً کسی واقعہ یا کیلینڈر کا سال ہے جس کو ابھی سمجھنا باقی ہے۔ ان نسخوں کی تاریخ کے بارے میں ماہرین کا خیال یہ ہے یہ آٹھویں سے گیارویں صدی عیسوی کے درمیان لکھے گئے ہیں۔ تمام صفحات کو کھولنے کے لئے ماہرین کی ضرورت ہے جو مقامی طور پر دستیاب نہیں۔
پروفیسر جیسن کا یہ بھی کہنا ہے کہ جتنے صفحے کھول دئے گئے ہیں ان میں مختلف علاقوں کا احوال ہے۔ گلگت چونکہ اہم تجارتی مرکز تھااس لئے یہاں سے گزرنے والے مختلف ممالک کے مسافر ان خطوط کی ترسیل کرتے تھے۔ ان تمام نسخوں کو کھولنے کے بعد ان کا مطالعہ کیا جاسکے گا اور ہمیں معلوم ہوگا کہ یہ کن لوگوں نے کہاں سے لکھا تھا اور ان میں کیا پیغام تھا۔
ایک غریب آدمی جس کے ہاتھ ایسے قدیم نسخے لگ جاتے ہیں ان کو بیچ کر ایک خطیر رقم کما لیتا ہے۔ ایسا ہی اس دفعہ بھی ہوا جب یہ خبر بلیک مارکیٹ کے سمگلروں تک پہنچی تو بڑی بڑی رقوم کی پیش کش کی ۔ ابھی تک راقم نے اپنے ذاتی اثر رسوخ اور داد فریاد سے اس نایاب علمی ورثے کو ضائع ہونے سے روک رکھا ہے۔ مگر کب تک؟ ان لوگوں کو مطلوبہ رقم کی آدائیگی ناچیز کی بس کی بات نہیں ، سرکار اندھی اور بہری ہےاور کوئی دوسرا ایسا ادارہ موجود نہیں۔ سرکاری سطح پر ان غریب لوگوں کے ساتھ زور زبردستی بہت بڑی زیادتی ہوگی جس سے مستقبل میں ایسے نوادرات کی دریافت کے بعد لوگوں سے حاصل کرنا اور دشوار ہو جائیگا۔
ہونا تو یہ چاہئے کہ سرکاری سطح پر ایک ایسے فنڈ کا قیام عمل میں لایا جائے جس سے ایسے لوگوں کی مالی امداد کی جاسکے جو ایسے قدیم نسخوں کو ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ ان لوگوں کو جو ایسے نسخوں کے مالک ہیں مالی امداد کے علاوہ سرکاری سطح پر ان کی حوصلہ افزائی کے لئے ان کے نام کو بطور دریافت کنندہ یا مالک تسلیم کیا جائے اور ان کو عزت دی جائے۔ ان قدیم علمی نسخوں کے تحفظ کے لئے ایک محفوظ میوزیم کا قیام مقامی طور پر عمل میں لایاجائے اور بین الاقوامی تحقیقی اداروں اور ماہرین کے ساتھ اشتراک عمل کیا جائے تاکہ ان نسخوں کو سمجھنے میں مدد مل سکے۔ اس سلسلے میں یونیسکو سمیت دنیا پھر کی جامعات تعاؤن کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گی۔
پونیال سے ملنے والے ان قدیم خطوط کو ان کے مالکان سے حاصل کرکے سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر مسودات گلگت کو محفوظ کرنے کی ایک نئی کاوش کا آغاز کیا جاسکتا ہے ۔ اگر ہم اس کاؤش میں کامیاب ہوتے ہیں اور اس عالمی علمی ورثے کے تحفظ کو یقینی بناتے ہیں تو نہ صرف سری نگر، دہلی اور لندن میں رکھے گئے مسودات گلگت واپس آسکتے ہیں بلکہ بلیک مارکیٹ میں فروخت کئے گئے مسودات کو بھی واپس لانے میں دنیا ہماری مدد کر سکتی ہے۔
♦