عطاالرحمن عطائی
یا تو میرے آنسو بڑے جلد باز ہیں ۔ یا مجھے جلد رو پڑنے کی بیماری۔ یا پھر شاید میرے دل کو شیوہ نوحہ گری کی لت لگ گئی ہے۔ اسی لئے جلد میرا دل بھر آتا ہے ورنہ سب کچھ تو ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے ۔ ایسی بھی کوئی قیامت نہیں ٹوٹی جس پر ماتم کیا جائے۔ ویسے تو میں خود کو ٹرخانے کی کوشش کرتا رہتا ہوں کہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔
مگر میرے ان سب تسلی بخش اندازوں کے برعکس ہمارےمعاشرے کی حقیقت اس گھر کی طرح ہے جس سے جنازہ اٹھنے کو ہے اور میت کی رشتہ دار خواتین بال بکھیرے منہ کھولے رو رہی ہوں اور جنازے سے لپٹ کر اسے جانے نہ دے رہی ہوں۔
میں پھر بھی خود کو تسلی دیتا ہوں کہ یہ سب میرے واہمے ہیں۔ مگر جب میں باہر آکے معاشرتی حالات اور غربت کی وبا دیکھتا ہوں تو یہاں حالات اتنے دلدوز ہیں اور اتنے کربناک ہیں کہ معاشرے کا ہر منظر دل میں کانٹا ڈال کر اسے قصاب کی دکان پر فروخت کے لئے آویزاں کر دیتا ہے۔
یہاں ہر سو(100) میں سے نوے (90)افراد کی کہانیاں اس درخت کے پھلوں کی مانند ہیں جنہیں ریاست اور سرمایہ داریت نے پتھر مار کر گرائے ہوتے ہیں ۔
اب ان حالات میں کوئی صاحب دل پریشان نہ ہو تو کیا کرے۔ درد کا ترجمان نہ ہو تو کیا کرے۔ بس صرف بے رحم ریاستی تحفظ میں سرمایہ داریت کے پیدا کردہ بے حسی کے لشکر ہیں جو پے درپے اس دل ناتواں پر حملے کرتے رہتے ہیں ۔
ابھی کچھ ہی دنوں کی بات ہے کہ درد کی سولی پر لٹکے ہوے مزدور کی ملاقات نے میرے زبوں حال ضمیر کو تیر صیاد سے چھید ڈالا۔ میرے خاموش دل میں جھر جھری کا طلاطم پیدا کرنے لگا۔
جس مزدور سے میری ملاقات ہوئی وہ عید منانے کے لئے کوئلے کی جان کش کان چھوڑ کر اپنے گھر میں دلکش چہروں سے ملنے جارہا تھا۔ اسے کئی مہینوں کے بعد گھر جانے کی بےحد خوشی تھی ۔ مگر کم خرچے اور نامکمل تنخواہ کی فکر اور گھر کو مکمل سامان نہ لے جانے کے احساس نے پریشان کر دیا تھا ۔
مگر وہ پھر بھی بڑی تیزی سے بولے جارہا تھا کہ ہم کتنی سخت مشقت کرتے ہیں ۔ گھر سے دور رہتے ہیں ۔ زمین کے سینے سے کوئلے نکالتے ہیں ۔ مزدوری کے دوران جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔ مگر اس کی اجرت میں سوائے محرومیوں کے اور کچھ نہیں ملتا۔
ابھی ایک مہینہ پہلے ہمارے گاؤں سے اپنے خاندان والوں کی بھوک مٹانے کے لئے ہمارا ایک رشتہ دار مزدوری کرنے آیا تھا۔ لیکن اسے کیا پتہ تھا کہ وہ موت کے منہ میں چلا آیا ۔ کوئلے کی کان میں اس اجل کے مارے پر ٹرالی گری اور غم زندگی سے نجات حاصل کی ۔ اس نے مر کر اپنی بھوک سے تو آزادی حاصل کی مگر اپنے پسماندگان کی بھوک و محتاجی میں اضافے کے بدلے۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوے اس نے کہا کہ اس ناپائیدار دنیا میں کسی کی پوری نہیں ہوتی تو پھر مجھ جیسے مزدور کو کیا حق کہ احتجاج کرے۔
آہ اس نظام کی غلاظت سے بے خبر مزدور اس سے واقف نہیں کہ اس کی یہ حالت اس کی قسمت نے نہیں بلکہ نظام نے بنائی ہے۔
میں بے چینی میں اپنے آنسو چھپانے کی خاطر چلتی ہوی ویگن میں شیشے سےباہر پیچھے رہ جانے والے پہاڑوں کو دیکھنے لگا ۔ پھر اس نے اچانک مجھ سے سوال کیا کہ تم کیا کام کرتے ہو؟ اپنی روزی کہاں سے کماتے ہو؟
میرے پاس اس کے جواب میں شرمندگی کے سوا کچھ نہ تھا اور اپنی آنکھیں بند کر کے اسے کہا کہ بس شکر ہے گزارہ ہورہا ہے ۔
مجھ میں بتانے کی یہ ہمت نہیں رہی تھی کہ اسے کہتا ۔
اے میرے پشتون وطن کے حقدار مزدور دراصل یہ ریاستیں اپنے پالے ہوے سرمایہ دار بھیڑیوں کے ذریعے تمھیں نوچتی ہیں ۔
اور پھر مجھ جیسے ملازم انتظامی اداروں کے ذریعے ان بھیڑیوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔
مجھ میں ہمت نہیں تھی کہ اسے کہتا۔
آہ اے بے خبر اور بے بس مزدور تمھاری اور غریب و محنت کش رعایا کی زندگی انتظامی اور سرمایہ دار بھیڑیوں کے نرغے میں گھری ہوئی ہے۔
تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد وہ پھر مجھے کہنے لگا یار اگر کہیں اور کوئی اچھی مزدوری ملے تو بتا دینا ورنہ واپس اس کوئلے کی کانوں میں جانا پڑے گا۔
اس بار میرے جلدباز آنسو بے صبرے ہوکرمکمل طور پر چھلک پڑے۔
♦