پشتو مزاحمتی ادب: خیال سے حقیقت تک

پائند خان خروٹی

ہمارے معاشرے میں علم ومعلومات کاحاصل کرنے والوں کی کمی نہیں ہے لیکن اکثر اہل علم وسیاست اعلیٰ کردار اور جرأت اظہار سے محروم ہونے کے باعث عوام پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت سے محروم ہیں ۔ا گر کوئی ادیب ، شاعر یا دانشور علمی اور فنی محاسن کاانفو ڈمپ بھی بن جائے تو عوام کو اس وقت تک اس سے کوئی غرض نہیں جب تک وہ اعلیٰ کردارکا حامل نہ ہو ۔ ہماری سوشل ہسٹری کاتسلسل اس طرح ہے کہ لوگ کسی بھی شخصیت کو جانچنے اور پرکھنے کیلئے سب سے اہم عنصر اسی کے کردار اور نظریہ سے وابستگی کو تصور کرتے ہیں ۔

علاوہ ازیں اگر کسی علم ودانش کے خاوند میں جرأت اظہار نہ ہوتو وہ نہ تو نئے سوالات اٹھا سکتا ہے اور نہ ہی موجودہ خرابیوں اور بے قاعدگیوں کو چیلنج کرسکتا ہے ۔ اس طرح اپنے خوف ولالچ کے باعث وہ روشن مستقبل کی تعمیر میں کوئی فعال کردار ادا کرنے سے بھی قاصر رہ جاتا ہے ۔ اپنے علم ودانش کو اپنے حقیر ذاتی مفادات کیلئے استعمال کرنا اور اس مقصد کیلئے اشرافیہ کی خوشامد ، چاپلوسی اور قرابت حاصل کرکے ایسی شخصیات نہ صرف اپنی نفی کرتے ہیں بلکہ اپنی زندگی میں ہی مسلسل زوال وناکامی سبب بنتی ہیں ۔

انسانی تاریخ گواہ ہے کہ سیاسی وسماجی تحریکوں میں عملی طورپر مزاحمت کاعنصر اتناہی قدیم ہے جتنی خود انسانی تاریخ ۔ تاریخ کی ورق گردانی سے یہ تصدیق ہوجاتا ہے کہ جس دن پہلے انسان نے ایک قطعہ زمین پر ملکیت کادعویٰ کیا اس روز سے مزاحمت کاآغاز ہوگیا ۔ مزاحمت کی مختلف شکلیں تاریخ کے مختلف مراحل میں نظرآتی ہیں تاہم جدید تاریخ میں مزاحمت کو ایک خاص سماجی وسیاسی رجحان کے طو رپر اس وقت پذیرائی ملی جب 20 ویں صدی میں معروف دانشور ہر برٹ مارکیوس نے اپنی شہراء آفاق کتاب’’ ون ڈائمشنل مین‘‘ قلمبند کی ۔ اس کتاب کے منظر عام پر آنے کے بعد سیاست اور خاص طور سے ادب میں مزاحمت نے ایک سرگرم تحریک کی صورت اختیار کی ۔

مزاحمت جیسا کہ لفظ سے ظاہر ہے اپنے معروض میں موجود فروعونیت ، قارونیت اور مذہبی پیشوائیت سے مزاحم یا ٹکرانے کانام ہے ۔اس کی دو معروف شکلیں تاریخ میں نظرآتی ہیں ایک کالونیل نظام کے خلاف قومی آزادی کی تحریکوں کی صورت میں اور دوسری موجود سماجی واقتصادی نظام کے خلاف جدوجہد کی صورت میں۔ پشتو زبان وتاریخ کے تناظر میں قومی آزادی کے حصول اور ملی وحدت کو مستحکم رکھنے کیلئے سامراجی قوت کے خلاف ڈٹ جانے کوپشتون نیشنلزم جبکہ ملی استقلال کے ساتھ ساتھ رجعتی عناصر، اسٹیٹس کو اورگماشتوں کے خاتمے کیلئے طبقاتی مبارزے کو پشتون افغان سوشلزم کا نام دیا جاسکتا ہے۔ اس طرح پشتون نیشنلزم اور سوشلزم دونوں میں مزاحمت ہی قدر مشترک ہے۔

تاریخی پس منظر میں نوآبادیاتی طاقتوں کے غلام ملکوں میں قابض معاشی غنڈوں کے خلاف بغاوت مقبول رجحان رہا ہے اور اس کے اثرات وقت وزمان کے شعر وادب ، علم وفن بھی پرنظرآتے ہیں ۔ا س طرح فرسودہ سماجی واقتصادی نظام رکھنے والے ملکوں میں بہتر نظام اور سماجی انصاف کے حصول کیلئے انقلابی تحریکوں نے بھی علمی وادبی دنیا کو متاثر کیا ۔ واضح رہے کہ مزاحمت چونکہ سسٹم اینڈ اسٹیٹس کو کوتبدیل کرنے کی خواہش کے تحت ہوتی ہے اس لئے معروض اور معروضی حالات سے اس کے مسلسل وابستگی اس کالازمی جُز ہے ۔ 

تاریخ کے نشب وفراز میں پشتون قوم ایک طویل عرصے سے غیر ملکی جارحیتوں ، حملہ آوروں اور استبداد ی قوتوں کاشکار رہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان تمام سماجی برائیوں کے خلاف منطقی طو رپر روز اول سے جدوجہد بھی پشتون قومی تاریخ کا اٹوٹ حصہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پشتو زبان کادامن مزاحمتی ادب پاروں انقلابی ترانوں سے بھرا پڑا ہے ۔واضح رہے کہ کالونیل نظام ہویاسماج میں موجود فرسودہ اور بوسیدہ روایات پشتو ادبی خلقی ادب(فوک لور) میں مذمت ، مزاحمت اورمقاومت کاحصہ بہت شاندار ہے ۔فرنگی سامراج ہو یا مغلوں کی یلغار ، گورگین آف پرشیا کے حملے ہوں یا عرب کی توسیع پسندی ہر دور اور ہرصورت میں پشتون قوم نے ان حملہ آوروں کی مسلسل مزاحمت کی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ملک کے اندر شاہی حاکمیت اور مورثی حکمرانی کے خلاف بر سرپیکار رہی ہے۔ 

یہی وجہ ہے کہ پشتو زبان روشانی تحریک کے روح رواں پیرروشان بایزید انصاری، سیف وقلم کے پیکر خوشحال خان خٹک ، طبقاتی جدوجہد کے سرخیل کاکاجی صنوبر حسین مومند ، انقلابی شاعر فضل محمود مخفی، پشتونخوا وطن کے چی گویرا فقیر آف ایپی ،مارکسی دانشور افضل خان بنگش، ترقی پسند ی کے راز ونیاز کے دلداد ے شیر علی باچا ،اجمل خٹک ، سیف الرحمن سلیم ، قلندر مومند ، ایوب صابر،سائیں کمال خان شیرانی ،جعفرخان اچکزئی،ڈاکٹر فضل رحیم مروت،نور البشر نوید ، کاؤون توپانی، اسحاق ننگیال ، رحمت شاہ سائل،بریالئی باجوڑی اور عبدالباری جہانی وغیرہ کے باعث مزاحمتی ادب وسیاست سے مالا مال ہے ۔

سیاسی وصحافتی افق پرنوجوانان سرحد ،خدائی خدمتگار ، انجمن وطن ،ورور پشتون، نیشنل عوامی پارٹی اورمزدور کسان پارٹی کے پلیٹ فارم سے کاکا جی صنوبر حسین مومند،خان عبدالغفار خان،خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی ،افضل خان بنگش ، محمود خان اچکزئی اورعبدالرحیم مندوخیل کی گرانقدار خدمات ہیں ۔ پشتو ادب وسیاست میں مزاحمت کا یہ سلسلہ ہردور اور ہر حال میں جاری رہا ۔ 

بندگی ہم نے چھوڑ دی ہے فرازؔ 
کیا کریں لوگ جب خدا ہوجائیں

پشتو ادب کی مزاحمتی تحریک مختلف مراحل سے گزرتی ہوئی افغان سرزمین پر ویش زلیماں کی صورت میں جلوہ گر ہوئی ۔ ویش زلیماں کی تحریک کے43اراکین کے گلدستے کاہر پھول بہت نرالہ ہے ۔تحریک ویش زلیماں نے ہی وہ ماحول اور قوام (تومنہ) تیار کیا جس میں افغان خلقی تحریک خوب پلی پھولی۔ رہبر کبیر استاد نور محمد ترہ کئی نے دیگر قائدین میر اکبر خیبر ، استاد حفیظ اللہ امین (آباسین)، ڈاکٹر صالح محمد زیرے ، سلیمان لائق اور باشعور وبیدار نوجوانوں کے ہمراہ اس تحریک کی آبیاری خون جگر سے کی ۔ خلق ڈیموکریٹک پارٹی سے پشتو ادب و سیاست اور صحافت اپنے عروج پر پہنچا اور خاص کر ادب اور سیاست میں وہ انقلابی نظریہ ومبارزہ روشناس کرایا جس کے موجودہ ادبی اور سیاسی حلقوں کی نہ صرف رسائی مشکل ہے بلکہ انقلابی نظریہ اور مبارزہ کانام لیتے ہی خوف وڈر سے کانپ اٹھتے ہیں ۔بہ یک وقت استعمار اوراستثمار کے خلاف اردو مزاحمتی ادب کے امام جوش ملیح آبادی (شبیر حسن خان آفریدی)نے کیاخوب کہا ہے کہ 

گردن کاطوق ،پاؤں کی زنجیر کاٹ دے
اتنی غلام قوم میں ہمت کہاں ہے جوشؔ 

بہر حال اس انقلابی کارواں کے اثرات دریائے آمو سے لیکر دریائے آبا سین تک کی سیاست ، پرفارمنگ آرٹس ،موسیقی اور علم وسخن پر گہرے اثرات ہوتے چلے گئے ۔ مختصر عرصے میں زندگی کے تمام شعبوں میں مزاحمتی رویوں کوفروغ ملا ، نئے سوالات ابھرنے لگے ، مارکسی تنقید نے تنقیدی شعور کو عقلی اور سائنسی بنیادیں فراہم کیں ۔ خلقی سیاست وادب کی بدولت شاہ اور شاہ پرستوں پر زمین تنگ ہونے لگی ۔ مذہب کی آڑ میں مشتعل میلے لگانے والے بے نقاب ہونا شروع ہوئے اور لروبر میں اقتدار و اختیار پر قابض قبائلی ومذہبی وعمائدین پہلی دفعہ پشتون افغان کی تاریخ میں خلقی / اولسی رنگ میں بدلنے پر مجبور ہوئے ۔ مختصر یہ کہ ادب وسیاست تصورات سے حقیقی زندگی کی جانب پلٹ گئے ۔

عالمی استعماریت اور رجعتی قوتیں بمعہ ا ن کے بغل بچوں نے جب افغان ثور انقلاب27اپریل1978ء اور خدمتگار خلقی نظام کے خلاف سازشیں کیں ، اس کو ناکام اور بدنام کرنے کیلئے مختلف حربے اور ہتھکنڈے استعمال کیے اور بائی فورس ادبی اورصحافتی حلقوں کی مدد وتعاون سے اس کوتباہ کرنے کی کوشش کی تو ایک بار پھر مزاحمت اور مدافعیت کے ایک نئے سلسلے کاآغاز ہوا ۔ انقلابی شاعر اکیڈمیشن سلیمان لائق کے بقول آپ آواز خلق بلکہ آواز حق کو دبانے کیلئے کتنی ہی ہتھکنڈے استعمال کریں ہم نے بے زبانوں کو زبان اور اہل علم دانش کو وہ جرأت اظہار دے دی ہے جو ہر حال میں جاری رہے گی ۔

کہ ہرسو فلک ناوڑی پہ ماوکڑی
ماجگ کڑی دی دخلگو آواز ونہ
ہر آواز می دمظلوم دسرسپر سو
ہر یوبیت می د محروم دزڑگی خونہ

خلقی غرور سے سرشار انقلابی شاعر آگے جاکر کہتا ہے کہ میری قبر میں میری گلتی ہوئی ہڈیاں بھی اس بات کی گواہی دے گی کہ میں نے کسی جابر ومتکبر کے سامنے کلمہ حق بلند کرنے سے گریز نہیں کیا ۔ 

زما ہڈو کی بہ لاھم فخر کڑی پہ گور کی
و می نہ لیکل دسپیو صفتونہ

فی الوقت پشتو ثقافت بیرونی جبری ثقافتی یلغا رکار شکار ہے اور ہماری تخلیقی اقلیتکیلئے یہ سب سے بڑا چیلنج ہے ۔ اس ضمن میں ہر ذی فہم اور تنقیدی شعور رکھنے والے کاقومی فریضہ ہے کہ وہ اپنے ثقافتی وجود کو نہ صرف برقرار رکھیں بلکہ قومی خمیر میں مقید انسان دوستی اور ترقی پسندی پرمبنی اقدار کے جلوے آشکار کرنے اور دوام بخشنے کیلئے بیرونی ثقافتی حصار کو توڑنے میں اپنا اپنا فعال کردار ادا کریں ۔

پشتو ادب وسیاست کاایک تاریک پہلو یہ بھی ہے کہ سیاسی خانواد ے سے تعلق رکھنے والی کئی ممتاز شخصیتوں نے شاہی دربار کے اعزازات اور فوجی ڈکٹیٹر کے ہاتھ سے تمغہ امتیاز قبول کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کی اور نہ ہی ان کی سیاسی تنظیم نے ان پر کوئی اعتراض کیا ۔ اس طرح باد مخالف سے ٹکر لینے کادرس دینے والوں نے خود باد مخالف کے رخ چلنے کی تاریخ رقم کی جبکہ دوسری جانب غیر سیاسی مگر ادبی شخصیات اردو کے مایہ ناز شاعر احمد فراز ، نادر قمبرانی بلوچ اور معروف کالم نگار زاہدہ حنا ء نے جرأت اظہار کامظاہرہ کرتے ہوئے سرکاری اعزاز حصول کرنے سے انکار کردیا ۔

ذہن نشین رہے کہ نوآبادیاتی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ استحصالی اور سامراجی قوتیں ایک محکوم قوم کودوسری محکوم قوموں سے لڑاکر اپنی بالا دستی برقرار رکھتی ہیں ۔ لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر مظلوم ا ور محکوم قوم دوسری محکوم قوموں کے حکمران طبقے کی بجائے ان کے مظلوم طبقات اور ان کی مزاحمتی تحریکوں کاحترام کریں اور ان کا بھرپور ساتھ دیں ۔ ویسے بھی محکوم قوموں میں اختلافات کم مگر اتفاقات زیادہ ہوتے ہیں ۔

مزاحمتی ادب درحقیقت ترقی پسند ادبی تحریک کاایک حصہ ہے اور ہر مزاحمتی ادب ، محروم ومحکوم قوموں اور مظلوم عوام کی سیاسی و معاشی نجات کاعلمبردار ہوتا ہے ۔ لہذا آج اہل علم وسیاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے علم ودانش میں ظلم ، جبر اور معاشی غلامی کیخلاف محکوم ا ور مظلوم عوام کی سرگرم رہنمائی کریں ۔ قاضی عبدالسلام عشیزئی ہم سے شاعری کی زبان میں مخاطب ہوکر کہتا ہے کہ آزادی کی قدر اورحفاظت ایک قومی فریضہ ہے کیونکہ قومی آزادی اور ملی وحدت کیلئے لاتعداد سربازوں نے اپنی قیمتی زندگیاں نچھاور کیں ہیں ۔

آزاد اوسہ دمرئی دسپی ژوندون دی 
ڈیر زوانان داستقلال دپارہ مڑہ دی 

4 Comments