علی احمد جان
برما میں روہینگیا نسل کےتقریباً تیرہ لاکھ لوگ اپنےعقیدے اور نسل کی بنیاد پر تعصب کا شکار ہیں ۔ ان کا قتل عام جاری ہے اور ان کی عورتیں عصمت دری کا شکار ہیں۔ گو کہ روہینگیا ایک ایسی آبادی ہے جس میں ہندو بھی شامل ہیں وہ بھی اسی تعصب کا شکار ہیں اور دیگر برمی نسلوں میں مسلمانوں کی بھی ایک اچھی تعداد ہے مگر وہ بھی نسلی بنیادوں پر روہنگیا کے خلاف ہیں ۔
چونکہ روہینگیا نسل کے لوگوں میں مسلمان زیادہ تعداد میں ہیں اس لئے پوری دینا کے مسلمانوں نے اس کو برمی حکومت اور بدھ مذہب کے پیرو کاروں کی جانب سے اپنے ہم مذہب لوگوں کے خلاف ایک مذہبی تعصب پر مبنی متشدد کاروائی قرار دیا ہے اور اسکو فی الفور روکنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ انسانی حقوق کے علمبرادروں، مختلف شخصیات ، ممالک اور اداروں نے اس کو روہینگیا لوگوں کی نسل کشی قرار دیا ہے اور اس کو روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔
روہینگیا لوگوں کے خلاف یہ کاروائی ایک دم شروع نہیں ہوئی ہے اس کی اپنی ایک تاریخ ہے۔ برما جو اب میانمار کہلاتا ہے اس ملک میں ایک طویل فوجی آمریت رہی ہے جس نے اس ملک کی پالیسیاں تشکیل دی ہیں۔ واقفان حال یہ بھی کہتے ہیں کہ اس نسل کشی کے پیچھے برما کی فوج کے اپنے معاشی عزائم ہیں کیونکہ فوج کو ان لوگوں کی زمین درکار ہے۔ فوج نے ریاستی مشینری کے علاوہ دوسری برمی نسل کے لوگوں کو بھی روہینگیا کے خلاف ایک ہتھیا ر کے طور پر استعمال کیا ہے۔
حکومت کی حکمت عملی یہ ہے کہ ان لوگوں کی زندگیاں اجیرن کرکے ان کو ملک چھوڑ دینے پر مجبور کیا جائےتاکہ ان کی املاک پر قبضہ کیا جاسکے۔ یہاں فوجی آمریت کے بعد نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کی جماعت کی حکومت ہے جس پر روہینگیا کی نسل کشی روکنے کا بین الاقوامی دباؤ بڑھ رہا ہے۔
ہمارے یہاں پر بہت سارے لوگ برما کی تصاویر اور ویڈیو ز سوشل میڈیا پرشیئر کرکے لوگوں کو جہاد کی دعوت دے رہے ہیں اور امید ہے کہ بہت جلدی برما کے مظلوم مسلمانوں کےنام پر ایک چندہ مہم بھی شروع ہوگی جس میں لوگوں کو بتا یا جائیگا کہ ان کی آزادی کے لئے بھی جہاد کا ٹھیکہ ہمیں ہی مل چکا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ فلسطین اور کشمیر کی حق خود ارادیت کی تحریک کو مذہبی جہاد بنا کر جونقصان ان تحریکوں کو ہوا ہے اس پر کسی نے غور کرنے کی زحمت نہیں کی اور نہ برما کی نسلی کشمکش کو مذہبی بنا کر جو نقصان ہوگا اس پر کوئی غور کرے گا۔
چاہے مذہبی ہو یا نسلی ،برما کی حکومت کی طرف سے روہینگیا لوگوں کے خلاف ریاستی جبر انسانیت سوز ہے اور قابل مذمت ہے جس کو فی الفور روک دینا چاہئے۔ کہتے ہیں کہ کسی گنہگار کو پتھر وہ مارے جس کے ہا تھ کسی گناہ سے آلودہ نہ ہوں۔ ہماری برما کے اپنے مسلمان بہن بھائیوں کی حمایت اس وقت موثر ہوگی جب ہم اپنے گھر کو ایسے تعصب اور تشدد سے صاف رکھیں۔ دنیا کے لوگ مسلمانوں کے ساتھ برتے گئے تعصب کے خلاف ہماری آواز کو اس وقت سنیں گے جب مسلمان خود ایسے تعصب اور تشدد سے گریز کریں جس کے خلاف وہ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ ہمارے اپنے حالات و واقعات یہ بتاتے ہیں کہ ہم خود ایسے متعصب رویے کا شکار ہیں جس نے بھر پور تشدد کو فروغ دیا ہے۔
متحدہ ہندوستان کی انگریزوں سے آزادی کے لئےتحریک اور جدو جہد میں اتنے لوگ نہیں مرے جتنے آزادی کے بعد تقسیم ہندوستان کے اعلان کے بعد مرے یا مار دئے گئے۔ یہ سب لوگ کسی مقصد کے لئے نہیں بلکہ محض نفرت کی بنیاد پر مارے گئے کیونکہ مرنے والے کسی دوسرے عقیدے یا نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ہزاروں خواتین کی عصمتیں مذہب کے مقدس نام پر لٹیں اور لاکھوں نوجوان اور بچے محض اس لئے مار دئے گئے کہ وہ مارنے والوں کے مذہب سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔
بنگلہ دیش جو ہمارا مشرقی بازو تھا اس کی علیحدگی کے دوران ایک دفعہ پھر وہی خون کی ہولی کھیلی گئی جو ۱۹۴۷ میں کھیلی گئی تھی۔ لاکھوں لوگ مارے گئے ، ہزاروں عورتوں کی عصمت دری ہوئی اور لاکھوں یتیم اور بے گھر ہوگئے۔ بنگلہ دیش کے رہنے والوں کا تو مذہب بھی ایک تھا پھر ایسی بربریت کیوں ہوئی؟ کسی کومکتی باہنی کے نام پر مارا گیا تو کسی کو البدر کے نام پر، کوئی محب وطن تھا تو کوئی غدار مارا گیا۔
چلئے وہ تو جنگ آزادی تھی اور یہ بنگلہ دیش میں علیحدگی کی تحریک تھی ، میں نے تو کراچی میں وہ سب کچھ ہوتے دیکھا ہے جس کا صرف سنا تھا ۔ حیدر آباد، سہراب گوٹھ، لیاقت آباد، قصبہ کالونی، اور علی گڑھ کالونی جیسے پاکستان کے سب سے زیادہ پڑھے لکھے لوگوں کے علاقوں میں گھروں کے گھر جلادئے گئے، لوگ ذبح کئے گئے ، بچوں کے گلے کاٹے۔ میں نے ایدھی کی ایمبولینس کا مونو گرام لگا کر گاڑی میں سوار لوگوں کو قتل و غارت گری کرتے دیکھا۔ اور تو چھوڑیے لیاری گینگ وار کے نام پر مخالفین کے ساتھ جسمانی ناروا سلوک اور گینگ ریپ کی تو ویڈیو فلمیں سب نے ٹیلی ویژن پر دیکھی ہیں۔
میں نے ۱۹۸۸ میں گلگت کے گرد و نوح میں لشکر کشی بھی دیکھی ہے۔ ہزاروں لوگوں کا مسلح جتھہ سینکڑوں میل کا سفر طے کرکے فوجی چھاونیوں اور تھانوں سے گزر کر گلگت کے پاس پہنچا اور قتل و غارت کی انتہا کردی۔ انسانوں سےکوئی اختلاف سہی مگر مذہب کے نام پرکئے جانے والے اس قتال میں تو بے زبان جانوروں اور درختوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔
اب کیا ہو رہا ہے کوئٹہ کی ہزارہ برادی کے ساتھ کیا ہورہا ہے؟ ان کو سینکڑوں میں نہیں مارا گیا؟ کیا ہم نے سکول کی وردی میں ملبوس بچوں کی لاشیں نہیں دیکھیں؟ کیا ایک دھماکے کے بعد امدادی کاروائیوں کے لئے آنے والوں رضاکاروں کو محض اس لئے نہیں مارا جاتا کہ مرنے والوں کی امداد کیوں کی؟ کیا کوئٹہ میں وکیلوں کی ایک پوری پود کو دھماکے سے نہیں اڑایا گیا؟ شاہراہ قراقرم پر لوگوں کو بسوں سے اتار کر مذہب کی شناخت کرکےگلے کاٹ کر مارنے والے بھی ہم میں سے ہی تھے۔ لیکن ہم ان سب باتوں کا ذکر نہیں کرتے کیونکہ ہم نے یہ کہہ کر زبان بند کررکھی ہے کہ یہ بیرونی سازش ہے۔
ہم اس کی کبھی بات ہی نہیں کرتے کہ لاہور شہر کے مراکز میں مارکیٹوں میں یہ لکھ آویزاں کر دیا گیا ہے کہ ایک خاص فرقے اور کتوں کا داخلہ ممنوع ہے۔ کیا دنیا کے کسی اور مہذب معاشرے میں بھی یہ سب ہوتا ہے؟ کیا کسی مٹکے سے پانی پینے پر کسی بچے کو مار مار کر قتل کیا جاتا ہے؟ کیا کسی مسجد میں کسی شخص کو اس لئے مار دیا جائے کہ وہ آ مارنے والےکے مذہبی عقیدے سے اختلاف رکھتا ہے۔ وہ اپنے پڑوسی کے ہاتھ سے ذبح کئے ہوئے جانور کا گوشت اس لئے نہیں کھاتے کہ اس کا عقیدہ ہم سے مختلف ہے۔ ہم اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو کسی دوسرے عقیدے سے تعلق رکھنے والے سے شادی کرنے پر غیرت کے نام پر قتل کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ ہمارا مذہب امن کا مذہب ہے۔دنیا ہماری بات پر کیسے اعتبار کرے؟
چلئے کشمیر اور فلسطین میں تو کفار نے ظلم ڈھایا ہوا ہے کیا شام اور یمن میں بھی کافروں نے بچوں کو مارا ہے۔ کیا ہم اس بات کو جاننے میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ یمن میں جب سے سعودی افواج داخل ہوئی ہیں اب تک کتنے بے گناہ بچے بمباری کا لقمہ اجل بن گئے ہیں اور کتنے خوراک اور ضروری ادویات کی عدم دستیابی سے مر چکے ہیں؟
شام اور عراق میں یزیدی عورتوں کو اٹھا کر لے جانے والے، ان کو بازاروں میں نیلام کرنے والے ان کی عصمت دری کرنے والے سب مذہب کے نام پر یہ سب کرتے ہیں اور ہم مساجد میں ان کی کامیابی و کامرانی کے لئے دعا گو ہیں۔ کیا افریقی ممالک میں الشباب اور بوکو حرام سکولوں کے بچیوں کو نہیں مارتے ، ان کو اٹھاکر نہیں لے جاتے اور ان کو جنسی غلام نہیں بناتے؟
کیا یہ سب بھی مذہب کے نام پر نہیں ہوتا؟ کیا ہم کبھی اس کی مذمت کرتے ہیں ؟ کیا ہم نے کبھی الشباب اور بوکو حرام پر اخلاقی دباؤ ڈالنے کی کوشش کی کہ ان کی حرکتوں سے ہمارا مذہب دنیا بھر میں بدنام ہوتا ہے؟ ہمارا مذہب کسی کو اس کی مرضی کے خلاف مذہب بدلنے کی اجازت نہیں دیتا اور کسی کی مرضی کے خلاف اس کے ساتھ شادی تک نہیں کی جاسکتی کجا کہ کسی کو بازار میں بیچ دیا جائے اور اس کی عصمت دری کی جائے۔ کیا کسی تقریر یا خطبے میں کسی کو اس کی مذمت کرتے آپ نے سنا؟
ہم خود اپنے آنگن کو گندہ رکھ کر کسی اور کو کیسے کہ سکتے ہیں کہ اس کا گھر گندہ ہے۔ ہمیں اپنے گریباں میں بھی جھانکنا ہوگا کہ کہیں ہمارے اپنے ہاتھ کسی کے خون سے آلودہ تو نہیں۔ کہیں ہماری اپنی زبان کسی ایسے جرم پر خاموش تو نہیں رہی جس کے خلاف ہم اب بولتے ہیں۔ کہیں ہم نےاپنی آنکھیں کسی ایسے منظر سے تو نہیں چرائی جس کی منظر کشی کرکے ہم اب ظلم کے خلاف بغاوت کی دعوت دیتے ہیں۔
ظلم کے خلاف آواز اٹھانا چاہیئے چاہے خواہ ظلم کہیں بھی ہو۔ ظلم چاہے میانمار میں ہو یا پاکستان، بنگلہ دیش ، شام، اعراق اور یمن میں ہو یہ ظلم کہلائے گا ۔ اپنی آواز میں ان لوگوں کو بھی شامل کریں جو آپ کے آس پاس اسی نسلی اور مذہبی تعصب کا شکار ہیں کیونکہ خون کسی کا بھی ہو اس کا رنگ سرخ ہی ہوتا ہے سفید نہیں ہوتا۔
♦
2 Comments