ہندوتا کا نعرہ لگانے والے نریندر مودی کے دور میں ہندوستانی مسلمانوں کی حالتِ زار دیکھ کر مجھے انڈین یونین مسلم لیگ کے صدر قائد ملت محمد اسمعیل صاحب سے 1962میں دلی میں وہ ملاقات یاد آگئی جب وہ تیسری بار لوک سبھا کے انتخاب جیت کر آئے تھے ۔ اسمٰعیل صاحب 1920سے مسلم لیگ سے وابستہ تھے ،قیام پاکستان کے بعد انہوں نے 1952میں انڈین یونین مسلم لیگ کی داغ بیل ڈالی تھی۔ جب میں نے ان سے پوچھا کہ انڈین یونین مسلم لیگ کے قیام کا اصل مقصد کیا تھا تو ایک لمبی آہ بھر تے ہوئے انہوں نے جواب دیا کہ تھا کہ قیام پاکستان کے بعد ہندوستانی مسلمان بے سہارا رہ گئے تھے اور ان پر ملک توڑنے کا الزام عام تھا اور ہر سو انہیں تاریکی ہی تاریکی نظر آتی تھی۔
میں نے سوال کیا کہ کیا مسلم لیگ کی مرکزی قیادت نے اس صورت حال کی پیش بینی نہیں کی تھی؟ انہوں نے جواب دیا کہ اس زمانے میں حالات نے اتنی تیزی سے پلٹا کھایا تھا کہ ا س ہما ہمی میں اس مسئلہ پر غور نہیں کیا گیا کہ ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کا کیا بنے گا، جن کے مسائل کے لئے بنیادی طور پر پاکستان کا مطالبہ کیا گیا تھا، ورنہ تو جن علاقوں میں پاکستان قائم ہوا وہاں تو مسلمان پہلے ہی سے اکثریت میں تھے۔ قائد ملت کا کہنا تھا کہ یہ عام خیال تھا کہ ایک طاقت ور پاکستان ، ہندوستانی مسلمانوں کے تحفظ کی ضمانت ہوگا۔
یہ صحیح ہے کہ دونوں ملکوں میں اقلیتوں کے مسئلہ کے بارے میں1950میں نہرو لیاقت پیکٹ ہوا تھا جس کے تحت اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اقلیتی کمیشن مقرر کیے گئے تھے لیکن اب کس کو یہ معاہدہ یاد ہے؟۔ اور اقلیتو ں کا کون پرسان حال ہے؟
نریندر مودی کی حکومت نے ہندوستانی مسلمانوں کو منظم طریقے سے تنہا کر کے رکھ دیا ہے۔ لوک سبھا میں ان کی کوئی آواز نہیں رہی ہے اور ریاستی انتخابات کی شطرنج پر انہیں اس بُری طرح سے شہہ مات دی ہے کہ ان کا کوئی نام لیوا نہیں۔ تازہ مثال اتر پردیش ریاستی اسمبلی کے انتخابات کی ہے جہاں 403اراکین کی اسمبلی میں صرف 25مسلمان امیدوار جیتے ہیں۔ جب کہ اتر پردیش میں مسلمانوں کی تعداد تین کروڑ چوراسی لاکھ ہے ۔ مودی کی حکمت عملی یہ تھی کہ کسی مسلم امیدوار کو کھڑا نہ کیا جائے اور صرف ہندو ووٹروں پر زور دیا جائے ۔ مسلمانوں کو یکسر نظر انداز کردیا گیا۔
گاوء کُشی کے خلاف مہم کے بل پر مسلمانوں کو ہراساں اور قتل کرنے کا ایسا سلسلہ شروع کیا گیا ہے کہ ختم ہونے میں نہیں آتا ہے۔اب تک گؤ رکھشکھوں کے ہاتھوں25 مسلمان ہلاک ہو چکے ہیں ۔ ’’گھر واپسی‘‘ کا نعرہ لگا کر دیہات میں اقتصادی طور پر کمزورمسلمانوں کو ہندو مت میں دھکیلا جا رہا ہے ۔جب سے مودی سرکار آئی ہے اتر پردیش میں425سے زیادہ مسلم گھرانوں کو ہندو بنایا گیا ہے۔ ویسے یہ سلسلہ 2003سے جاری ہے اور سینکڑوں مسلمانوں اور عیسائیوں کو ہندو مت میں دھکیلا گیا ہے۔ نریندر مودی کے گرو، گول والکر کا علی الا علان یہ کہنا تھا کہ مسلمان اور عیسائی باہر سے آئے ہیں ان کو ہندوستان میں رہنے کا کوئی حق نہیں انہیں اس ملک سے نکلنا ہوگا یا پھر انہیں ہندو مت اختیار کرنا ہوگا۔
دھرم جا گرن سمیتی نے اعلان کیا ہے کہ وہ 31دسمبر 2021تک ہندوستان کے تمام مسلمانون اور عیسائیوں کو ہندو بنا کر پورے ملک کو ہندو راشٹر( ہندو قوم) میں تبدیل کر دے گی۔ وشوا ہندو پریشد کے چمپت رائے کاکہنا ہے کہ ہندوستان میں اوریجنل مسلمان بہت کم ہیں اکثریت ان کی ہے جن کے آباو اجداد ہندو تھے جنہیں جبرا مسلمان بنایا گیا تھا۔ چمپت رائے کہ کہنا ہے کہ 1966سے اب تک چھ لاکھ مسلمانوں کو ہندو دھرم میں لایا گیا ہے۔
تامل ناڈو کے بھارتیا جنتا پارٹی کے رہنما سبرامنیم سوامی نے گذشتہ سال مارچ میں ایک تقریرمیں کہا تھا کہ مندروں کی طرح مساجد ، مقدس جگہیں نہیں ہیں اس لئے انہیں مسمار کیا جا سکتا ہے ۔ اس کے دوروز بعد ہریانہ میں بھارتیا جنتا پارٹی کے وزیر اعلی نے اعلان کیا کہ ہندووں کی مقدس کتاب بھگوت گیتا کی تعلیم پوری ریاست میں لازمی قرار دی جائے گی ۔
مارچ 2005میں آزادی کے بعد پہلی بار ہندوستان میں من موہن سنگھ کی حکومت نے پہل کی تھی اور ہندوستانی مسلمانوں کی سماجی ، اقتصادی اور تعلیمی شعبوں میں صورت حال کی تحقیقات کے لیے ، جسٹس راجندر سچر کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی تھی ۔ سچر کمیٹی نے 2006میں اپنی رپورٹ پارلیمنٹ کے سامنے پیش کی تھی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ملک کی بیشتر ریاستوں میں مسلمانوں کی حالت ، انتہائی پسماندہ دلتوں سے بھی بد تر ہے اور مسلمان ، سماجی، اقتصادی اور تعلیمی میدان میں محرومیوں کے شکار ہیں ۔ یونیورسٹیوں سمیت تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کو بہت کم داخلے ملتے ہیں ،مرکزی اور ریاستی ملازمتوں ، ریلوے ، دفاعی اداروں اور پولس میں روزگار کے حصول میں مسلمان بہت پیچھے ہیں۔ انڈین ایڈمسٹریٹو سروس میں مسلمانوں کی نمایندگی بہت کم ہے۔
یہی صورت حال، قیام پاکستان سے پہلے مسلمانوں کی تھی جس کے تدارک کے لئے پاکستان کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ پارلیمنٹ کے سامنے پیش ہوئے دس سال سے زیادہ ہوگئے لیکن ابھی تک مسلمانوں کی حالت زار بہتر بنانے کے لئے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔
مودی کے ہندوتا کے اس دور کی دھند میں لوگ بھول جاتے ہیں کہ نہرو کے سیکولر دور میں بھی مسلمان ترقی اور خوش حالی کی اس منزل سے ہم کنار نہیں ہوئے تھے جس کی آزاد ہندوستان میں توقع تھی۔ نہرو کے دور میں چنیدہ مسلمانوں کو علامتی طور پر اہم عہدے دئے گئے لیکن ووٹوں کے حصول کے لئے مسلمانوں کی خوشنودی کا اظہار کیا گیا لیکن ان کے مسائل کے حل اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لئے ٹھوس اقدامات نہیں کئے گئے، بلکہ اس دور میں ہندو قوم پرست جن سنگھی منظم طور پر مسلمانوں کی اقتصادی قوت کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ ۔ اُن شہروں میں جہاں مسلمانوں کی صنعتیں تھیں ، مسلمانوں کے خلاف فسادات کی آگ بھڑکائی گئی ۔ علی گڑھ میں تالے کی صنعت تباہ کرنے کے لئے خونریز فسادات ہوئے جن کی ٓگ نے مسلم یونیورسٹی کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا اور یونیورسٹی کا اقلیتی کردارختم کرنے کی کوشش کی گئی۔ فیروز آباد میں فسادات نے چوڑیوں کی صنعت کو کرچی کرچی کر دیا ۔ میرٹھ میں قینچیوں اور چھریوں کی صنعت کو تباہ کرنے کے لئے فسادات برپا کئے گئے اور مراد آباد میں برتنوں کی صنعت مسلم کُش فسادات کی بھینٹ چڑھ گئی۔
بہرحال اس وقت نریندر مودی کے دور میں مسلمانوں اور دوسرے اقلیتوں میں جو خوف اور اپنے تحفظ کے بارے میں جو تشویش ہے اس کا کھلم کھلا اظہار ہندوستان کے سابق نایب صدر حامد انصاری نے اپنے عہدے سے سبک دوش ہونے سے پہلے ایک تقریب سے خطاب میں کیا۔انہوں نے اس پر سخت افسوس کا اظہار کیا کہ آج کل ہندوستانی اقدارنا پید ہوتی جارہی ہیں او ر بہت سے شہریوں سے ان کی ہندوستانیت کا سوال کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیکولرزم کی تجدید اس وقت سب سے بڑا چیلنج ہے اور یہ بات باعث تشویش ہے کہ مسلمان ا پنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں اور ان میں خوف و ہراس بڑھ رہا ہے۔ حامد انصاری اکیلے نہیں ہیں جنہوں نے مسلمانوں میں بے چینی اور خوف ہراس کے احساس کی بات کہی ہے۔ کانگریس کی صدر سونیا گاندھی سمیت کئی ممتاز سیاست دانوں نے مسلمانوں اور عیسائیوں میں بڑھتے ہوئے خوف کے رجحان کے بارے میں خبردار کیا ہے۔
اس وقت ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد اٹھارہ کروڑ ہے،یہ کوئی چھوٹی اقلیت نہیں ہے۔اتنی بڑی تعداد اگر خوف و ہراس میں گھری رہے تو یہ بات یقیناًباعث تشویش ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس صورت حال کا ذمہ دار کون ہے؟ بلاشبہ ہندوستان کی حکومت پر اولین ذمہ داری ہے کہ وہ محض ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس( ترقی) کا نعرہ لگا کر مسلمانو ن کو دھوکہ نہیں دے سکتے ۔ یہ مودی حکومت کا بنیادی فرض ہے کہ وہ ہندوستان کے سارے عوام ، مسلم ،ہندو ، سکھ ،عیسائی ، بودھوں اور جینوں کے حقوق کا یکساں تحفظ کرے۔
پاکستان کے سیاست دانوں اور عوام پر بھی یہ لازم ہے کہ وہ اپنے دل کو ٹٹولیں کہ انہوں نے اپنا الگ ملک تو حاصل کر لیا ۔ کیا ان کا فرض نہیں کہ وہ ہندوستانی مسلمانوں کے بارے میں بھی سوچیں ۔ کیا وہ ہندوستان کے آزار میں گرفتار مسلمانوں کو آسانی سے فراموش کر سکتے ہیں جنہیں وہ ہندوستان میں چھوڑ آئے؟ کیا وہ کسی صورت بھی ان کے مونس و غم خوار نہیں بن سکتے اور کیا ہندکے مسلمانوں کے آزار کا ان کے پاس کوئی مرہم نہیں ہے ؟ ۔ نعمتِ زیست کا یہ قرض چکے کا کیسے ؟
♥
متعلقہ مضامین
One Comment