سماجی ماہرین کے مطابق کئی بار عوامی سطح پر شرمندگی اٹھانے اور گھر پر نظر بند رہنے والے اسلام آباد کی متنازعہ لال مسجد کے سابق خطیب عبدالعزیز اپنی تقاریر کے ذریعے ابھی تک نوجوان پاکستانی شدت پسندوں کو متاثر کر رہے ہیں۔
ماہرین کے مطابق آج بھی ریاست کی سیکیورٹی ایسٹیبلشمنٹ مولانا عزیز کی پشت پناہی کر رہی ہے جس کی وجہ سے وہ نہ صرف انتہا پسندانہ نظریات کی تبلیغ کرتے ہیں بلکہ داعش اور جہادی تنظیموں کی کھلے عام حمایت کرتے ہیں۔جب بھی ریاست پر بین الاقوامی دباؤ بڑھتا ہے تو ریاستی اہلکار ان عناصر کے خلاف کاروائی کا عندیہ دیتے ہیں مگر نتیجہ ڈھاک کے تین پات ہی نکلتا ہے اور پچھلے کئی سالوں سے یہی مشق جاری ہے۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی کی ایک مفصل جائزہ رپورٹ کے مطابق پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں واقع لال مسجد کے سابق خطیب عبدالعزیز آج بھی قدرے شدت پسندانہ سوچ رکھنے والے مذہبی حلقوں میں ایک بہت بااثر شخصیت ہیں اور مدرسوں کے ایک پورے نیٹ ورک کی سربراہی بھی کر رہے ہیں۔
عبدالعزیز کئی بار پاکستان میں ’نظام خلافت‘ متعارف کرائے جانے کا مطالبہ بھی کر چکے ہیں۔ دس سال پہلے تک، جب وہ لال مسجد کے خطیب تھے اور اپنے مغرب مخالف خطبات اور اسلام کی بہت سخت گیر تشریح کے باعث بہت شہرت بھی اختیار کر چکے تھے، تب وہ اپنے یہی خیالات ان ہزاروں طلبا و طالبات تک بھی پہنچاتے تھے جن کا تعلق پاکستان کے بہت دور دراز اور غریب علاقوں سے ہوتا تھا اور جو ان کے زیر انتظام یا زیر اثر مدرسوں میں تعلیم حاصل کرتے تھے۔
سنہ2007ء میں اس وقت کے فوجی حکمران پرویز مشرف کی حکومت کو لگا کہ تب تک پانی سر سے گزر چکا تھا اور عبدالعزیز کے خلاف کارروائی ناگزیر ہو چکی تھی۔ تب عبدالعزیز کے ہم خیال مذہبی کارکنوں نے ہتھیار بھی اٹھا لیے تھے اور وہ اسلام آباد کی مارکیٹوں میں فلموں اور گانوں کی سی ڈیز فروخت کرنے والی دکانوں کو نہ صرف نشانہ بنانے لگے تھے بلکہ انہوں نے ایک مقامی مساج پارلر سے ایک چینی خاتون کو اغوا بھی کر لیا تھا۔
یہ اور ایسے کئی دیگر واقعات ان وجوہات میں شامل تھے کہ پاکستانی حکومت اور لال مسجد کی اس دور کی انتظامیہ کے روپ میں شدت پسند مذہبی عناصر کے مابین کشیدگی بہت بڑھ گئی تھی۔
پھر دس جولائی سن 2007 کے روز ملکی صدر پرویز مشرف نے لال مسجد میں مورچہ بند مذہبی شدت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن کا حکم بھی دے دیا تھا، جس دوران پاکستانی فوج کو اس کی کارروائیوں میں اسی مسجد سے مسلح کارکنوں کی طرف سے مزاحمت اور تصادم کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔
اس متنازعہ آپریشن کو تب کئی پاکستانی نشریاتی اداروں نے براہ راست اپنے ناظرین کو بھی دکھایا تھا اور ایک ہفتے تک جاری رہنے والی اس خونریزی میں قریب سو افراد ہلاک اور سینکڑوں دیگر زخمی ہو گئے تھے۔ پھر بالآخر اس مسجد کے خطیب عبدالعزیز اور کئی دیگر رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔
پاکستان کو اس فوجی آپریشن کے بعد شدید نوعیت کے نتائج کا سامنا کرنا پڑا۔ ملک بھر میں مذہبی شدت پسندوں نے اس فوجی آپریشن کی مذمت کی تھی اور اسی دوران پاکستان میں ریاست کے خلاف تحریک طالبان پاکستان یا ٹی ٹی پی نامی دہشت گرد تنظیم ابھر کر سامنے آئی، جو آج بھی فعال ہے۔
گزشتہ کئی برسوں کے دوران پاکستان کو بے شمار انتہائی خونریز دہشت گردانہ حملوں کا سامنا رہا، اس دوران مجموعی طور پر ہزارہا عام شہری اور سکیورٹی اہلکار بھی مارے گئے جبکہ بعد کے عرصے میں لاکھوں پاکستانی شہری اس وقت مختلف علاقوں، خاص کر پاکستانی قبائلی علاقوں میں اپنے گھروں سے اس وجہ سے رخصتی پر مجبور ہو گئے کہ وہاں فوج نے عسکریت پسندوں کے خلاف مسلح آپریشن شروع کر دیے تھے۔
لال مسجد آپریشن کے دوران عبدالعزیز نے برقعہ پہن کر فرار ہونے کی کوشش کی تو انہیں گرفتار کر لیا گیا اور سیدھا ایک ٹی وی اسٹیشن لے جایا گیا تھا۔ اس واقعے کے بعد سے عبدالعزیز کو ’ملا برقعہ‘ بھی کہا جانے لگا تھا۔ عبدالعزیز کو نفرت انگیزی، قتل اور اغوا سمیت لگ بھگ دو درجن الزامات کا سامنا بھی تھا، لیکن سن 2009 میں انہیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا تھا۔
اس بارے میں سماجی کارکن جبران ناصر نے اے ایف پی کو بتایا، ’’عبدالعزیز تمام مقدمات میں بری ہوگئے۔ سرکاری سطح پر ان کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کی خواہش پائی ہی نہیں جاتی۔‘‘ جبران ناصر نے کہا کہ حکومت نے عبدالعزیز کو ان کے گھر پر نظربند بھی رکھا لیکن اب وہ ایک مرتبہ پھر اپنے بیانات اور خطبات سے شدت پسندانہ سوچ رکھنے والے نوجوانوں پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔
پاکستان میں انتہا پسندی کے خلاف ایک طاقت ور آواز سمجھے جانے والے پرویز ہودبھائی کا کہنا ہے، ’’حیران کن بات یہ ہے کہ پاکستانی فوج نے تحریک طالبان پاکستان کو تو اپنا ہدف بنا رکھا ہے لیکن عبدالعزیز کو نہیں۔ عبدالعزیز کے لیے ہمدردی پائی جاتی ہے اور ہمدردی کا یہ جذبہ دوبارہ حملے کا شکار بن جانے کے خوف سے زیادہ طاقت ور ہے۔‘‘
اسی طرح معروف تجزیہ کار زاہد حسین نے اے ایف پی کو بتایا، ’’عبدالعزیز اور دیگر شدت پسند مذہبی شخصیات کو دی گئی چھوٹ ان خدشات میں اضافے کی وجہ ہے کہ پاکستانی دارالحکومت میں 2007ء کی سی صورتحال دوبارہ پیدا ہو سکتی ہے‘‘ ۔
سن 2014 میں عبدالعزیز کے زیر اثر چلنے والے ایک مدرسے کی طالبات کی ایک ایسی ویڈیو بھی منظر عام پر آئی تھی، جس میں وہ دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی حمایت کرتی نظر آ رہی تھیں۔ اسی سال عبدالعزیز نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں یہ بھی کہا تھا کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں نظام خلافت رائج ہونا چاہیے۔
اسی موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے پاکستانی فوج کے ریٹائرڈ جنرل طلعت مسعود نے اے ایف پی کو بتایا کہ کوئی بھی لال مسجد کے اس سابق خطیب کو نئے سرے سے عوامی ہمدردیاں حاصل کرنے کا موقع نہیں دینا چاہتا اور حکام ان پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں۔
عبدالعزیز کا نام پاکستان میں انسداد دہشت گردی کے محکمے کی فہرست میں بھی شامل ہے۔ اس سال عبدالعزیز کے حامیوں کی جانب سے لال مسجد آپریشن کے دس برس پورے ہونے کے موقع پر نکالی جانے والی ایک ریلی پر عدالت نے پابندی لگا دی تھی۔ اب صورت حال یہ ہے کہ عبدالعزیز اسلام آباد کی لال مسجد میں داخل بھی نہیں ہو سکتے اور ان کو جمعے کے روز خطبہ دینے کی اجازت بھی نہیں ہے۔
لال مسجد کے موجودہ تیس سالہ خطیب عامر صدیق، جو عبدالعزیز ہی کے بھتیجے ہیں، کا کہنا ہے کہ اب وقت آ چکا ہے کہ ماضی اور ایک عشرہ پہلے کے شدت پسندانہ موقف کو بھلا دیا جائے۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہمیں اپنے اور دہشت گردانہ سوچ کے درمیان واضح فاصلہ پیدا کرنا ہوگا۔‘‘۔
DW/News Desk
♣