اگر برما کی حکومت روہنگیا مسلمانوں کے خلاف نسل کشی میں ملوث ہے تو وہیں دوسری طرف سعودی عرب کی حکومت بھی یمن میں ہزاروں مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث ہے۔برما میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم کی بازگشت تو پوری دنیا میں سنی جارہی ہے لیکن یمن میں معصوم افراد کے قتل عام پر عالمی میڈیا خاموشی اختیارکیے ہوئے ہے۔
عالمی اداروں کے مطابق یمن میں سعودی افواج کے ہاتھوں قتل ہونے والے یمنیوں کی تعداد برما کے مسلمانوں سے زیادہ ہے ۔
اقوام متحدہ کے مطابق یمنی تنازعے میں ہلاکتوں کی تعداد پانچ ہزار سے تجاوز کر چکی ہے، جس میں زیادہ تعداد سعودی قیادت میں عرب اتحاد کے طیاروں کی بمباری کی وجہ سے ہلاک ہونے والے شہریوں کی ہے۔
پیر کے روز اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے شعبے کے سربراہ زید رعد الحسین نے بتایا کہ یمنی تنازعے میں ہلاک ہونے والے افراد کی مجموعی تعداد پانچ ہزار ایک سو چوالیس ہو چکی ہے، جس میں سے زیادہ تر سعودی قیادت میں عرب اتحادی طیاروں کی بمباری کی وجہ سے مارے گئے۔ رعد الحسین نے اس بابت بین الاقوامی تفتیش کا مطالبہ کیا ہے۔
جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل سے خطاب کرتے ہوئے رعد الحسین نے کہا، ’’اس تنازعے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی شدت جس قدر شدید ہے، اس کے مقابلے میں احتساب اور جواب دہی کی بابت کوششیں انتہائی کم سطح کی رہی ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’یمن کی تباہی اور وہاں کے لوگوں کی مصیبتوں اور پریشانیوں کی صورت حال خوف ناک ہے اور اس کے اثرات پورے خطے پر پڑ رہے ہیں‘‘۔
یہ تیسرا موقع ہے کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے شعبے کے سربراہ رعد الحسین نے بین الاقوامی برادری سے یمنی تنازعے کی بابت بین الاقوامی تفتیش کا مطالبہ کیا ہے۔ یمن میں شیعہ حوثی باغیوں کو ایرانی حمایت حاصل ہے، جب کہ صدر منصور ہادی کی فورسز کو سعودی قیادت میں عرب اتحادی کی فضائی مدد دستیاب ہے۔
گزشتہ ہفتے رعدالحسین کے دفتر کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ 47 رکنی انسانی حقوق کی کونسل اپنی زمہ داریاں سنجیدگی سے نہیں نبھا رہی ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق یمن میں جاری خانہ جنگی اس وقت دنیا کا سب سے بڑا انسانی بحران ہے، کیوں کہ اس بحران کی وجہ سے لاکھوں افراد قحط کے دہانے پر کھڑے ہیں، جب کہ یمنی معیشت مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے۔ اسی دوران رواں برس یمن میں ہیضے کی وبا سے ساڑھے چھ لاکھ افراد متاثر ہوئے، جس کی بنیادی وجہ پینے کی صاف پانی کی عدم دستیابی تھی۔
DW/News Desk
♦
One Comment