غلام رسول
نائن الیون کے بعد مغربی ممالک میں مسلمانوں کی طرف سے دہشت گردی اور خودکش حملے ایک معمول بن چکا ہے۔پرامن معاشرے اب قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کے حصار میں نظر آتے ہیں ۔ جبکہ دہشت گردی کا ارتکاب کرنے والے اسے غیر مسلموں خاص کر امریکہ اور یورپ کے خلاف جنگ قرار دیتے ہیں۔ ان کے بقول وہ افغانستان، عراق، شام ، فلسطین وغیر ہ میں مسلمانوں پر جو ظلم ڈھا رہے ہیں وہ اس کا بدلہ لے رہے ہیں۔
مسلمانوں کی ان کاروائیوں کے ردعمل میں یورپ میں مسلمانوں کے خلاف جذبات میں اضافہ ہورہا ہے اور دائیں بازو کی جماعتیں ان جذبات کا فائدہ اٹھا رہی ہیں ۔یاد رہے کہ مغربی معاشروں نے کھلے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسلمانوں کو نہ صرف اپنے معاشرے میں جگہ دی بلکہ اسلامی معاشرے کے برعکس انہیں برابر ی کا مقام دیا اور سب سے بڑھ کر انہیں اپنے مذہب کی اشاعت و تبلیغ کی اجازت دی۔لہذا مسلمانوں نے مغرب میں سیکولرازم کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ہوئے اپنی آئیڈیالوجی کو پھیلانے میں اہم رول ادا کیا ہے۔
مسلمانوں کے تمام فرقوں نے اپنے اثرو رسوخ کو بڑھانے کےلیے پوری دنیا میں مساجد اور مدرسوں کا ایک جال بچھایاجس کا خمیازہ اب مغربی دنیا بھگت رہی ہے۔مغربی معاشروں میں رہ کر ان کی سہولیات سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ذرا خوشحال ہو جائیں تواسلامی شریعت نافذ کرنے کا بھوت سوار ہوجاتا ہے۔مسلمان کسی بھی معاشرے میں ضم ہونے کے لیے تیار نہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ وہ اپنی علیحدہ بستیاں بسائیں اور وہاں اسلامی شریعت کے مطابق اپنے رہن سہن کا بندوبست کریں بلکہ یورپ اور کینیڈا میں نام نہاد پیس ویلج بنائے بنائے جارہے ہیں۔
اب صورتحال یہ ہے کہ یورپی شہریوں کا کہنا ہے کہ اگر یہ لوگ(مسلمان)ہمارے معاشرےا ور رسم و رواج میں ضم نہیں ہو سکتے تو انہیں یہاں رہنے کا کوئی حق نہیں۔ اور انہیں واپس اپنے ممالک بھیج دینا چاہیے جہاں وہ اپنی مرضی کا اسلامی معاشرہ قائم کریں۔
دوسرے مذاہب کے برعکس اسلام ایک سیاسی مذہب ہے جو دنیا پر اپنا غلبہ چاہتاہے۔ یہ غلبہ کیسے حاصل کیا جائے؟ ہر فرقے کا طریقہ واردات مختلف ہے ۔ لبرل اور جدت پسند طبقہ اسے محبت اور”عقل و دانش” سے پھیلانے کی بات کرتا ہے اوربنیاد پرست طبقہ معذرت خوانہ دلائل کی بجائے دھڑلے سے بندوق کے زور پرغلبہ چاہتا ہے ۔
یاد رہے کہ اسلام کی بنیادی تعلیمات کا تقاضا ہے کہ اسلامی ریاست میں کسی غیر مسلم کو اقتدار میں شریک نہیں کیا جاسکتا۔ لہذا لبرل ڈیموکریسی کا تصور یہاں ہی باطل ہو جاتا ہے۔ اگر تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کو برابر تسلیم کر لیا جائے تو پھر اسلام کی اپنی (سیاسی ) شناخت ختم ہو جاتی ہے ۔
جب کوئی اسلام کو دہشت گردی کا مذہب قرار دے تو بطور لبرل اور جدت پسند مسلمان ہمیں بہت دکھ ہوتا ہے اور اس عمل کے جواز کے لیے کوئی نہ کوئی دلیل گھڑتے ہیں ۔ہمارا اصرار ہوتا ہے کہ اسلام کا دہشت گردی سے قطعاً کوئی تعلق نہیں اور دہشت گردی کا ارتکاب کرنے والے مسلمان نہیں ہو سکتے۔ جدت پسند اور لبرل مسلمان معذرت خوانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دیکھیں جی قرآن کی آیات کی تشریح سیاق وسباق سے ہٹ کر نہیں کرنی چاہیے وغیرہ وغیرہ اور دہشت گردی کے اصل حقائق کا جائزہ لیا جانا چاہیے۔ جبکہ انتہا پسندوں (طالبان وغیرہ) جواز تراشنے کے جھنجھٹ میں نہیں پڑتے۔
سوال یہ ہے کہ کس فرقے یا گروہ کی تعریف کو درست مانا جائے اور کس گروہ اورفرقے کی بات کو غلط۔ پندرہ سو سال سے قرآن کی تشریح پر اتفاق نہیں ہو سکا اور نہ ہی اگلے کئی ہزار سال تک ہو سکتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاسی معاملات پر اتفاق نہیں ہوتا بلکہ کمپرومائز ہوتا ہے۔ اور یہ کمپرومائز اسی وقت ممکن ہوتا ہے کہ جب آپ سب مذاہب و فرقوں کو برابر تسلیم کریں، اقتدار میں آنے کا کوئی طریقہ وضع کریں اور پھر اقتدار میں سب کو برابر کا حصہ دیں ۔ مغربی دنیا اس حقیقت تک پہنچ گئی اور لبرل ڈیموکریسی کا احیا ہوا جس میں سیاست و مذہب کو علیحدہ علیحدہ کیا۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا مسلمان اسلام سمیت تمام مذاہب کو برابر تسلیم کرنے کو تیار ہیں؟ تو اس کا جواب ناں میں ہے۔ اس مسئلے پر جدت پسند لبرل مسلمانوں اور انتہا پسند مسلمانوں کی رائے ایک ہی ہے۔
اسلام کی بنیادی تعلیم یہ ہے کہ یہود و نصاریٰ تمھارے دوست نہیں ہو سکتے۔ قرآن میں ہے”اے ایمان والو، تم یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست نہ بناؤ۔ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ اور جو تم میں سے ان کو دوست بنائے گا، وہ انھی میں سے ہے۔ اللہ ظالموں کو راہ یاب نہیں کرتا۔” (المائدہ ۵: ۵۱)۔
پھر قرآن میں ان لوگوں کو قتل کرنے کا حکم ہے جو اسلامی ریاست کے قیام کو نہیں مانتے۔سورہ توبہ کی پہلی چند آیا ت کا ترجمہ دیکھ لیں
۔(1) مسلمانو جن مشرکین سے تم نے عہد و پیمان کیا تھا اب ان سے خدا و رسول کی طرف سے مکمل بیزاری کا اعلان ہے
۔(2) لہذا کافرو !چار مہینے تک آزادی سے زمین میں سیر کرو اور یہ یاد رکھو کہ خدا سے بچ کر نہیں جاسکتے اور خدا کافروں کو ذلیل کرنے والا ہے
۔(3) اور اللہ و رسول کی طرف سے حج اکبر کے دن انسانوں کے لئے اعلانِ عام ہے کہ اللہ اور اس کے رسول دونوں مشرکین سے بیزار ہیں لہذا اگر تم توبہ کرلو گے تو تمہارے حق میں بہتر ہے اور اگر انحراف کیا تو یاد رکھنا کہ تم اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے ہو اور پیغمبر آپ کافروں کو دردناک عذاب کی بشارت دے دیجئے
۔(4) علاوہ ان افراد کے جن سے تم مسلمانوں نے معاہدہ کررکھا ہے اور انہوں نے کوئی کوتاہی نہیں کی ہے اور تمہارے خلاف ایک دوسرے کی مدد نہیں کی ہے تو چار مہینے کے بجائے جو مدّت طے کی ہے اس وقت تک عہد کو پورا کرو کہ خدا تقویٰ اختیار کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے
۔(5) پھر جب یہ محترم مہینے گزر جائیں تو کفاّر کو جہاں پاؤ قتل کردو اور گرفت میں لے لو اور قید کردو اور ہر راستہ اور گزر گاہ پر ان کے لئے بیٹھ جاؤ اور راستہ تنگ کردو –پھر اگر توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوِٰادا کریں تو ان کا راستہ چھوڑ دو کہ خدا بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے
۔(6) اور اگر مشرکین میں کوئی تم سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دے دو تاکہ وہ کلام خداسننےلگے۔ اس کے بعد اسے آزاد کرکے جہاں اس کی پناہ گاہ ہو وہاں تک پہنچا دو اور یہ مراعات اس لئے ہے کہ یہ جاہل قوم حقائق سے آشنا نہیں ہے
۔(6) اللہ و رسول کے نزدیک عہد شکن مشرکین کا کوئی عہد و پیمان کس طرح قائم رہ سکتا ہے ہاں اگر تم لوگوں نے کسی سے مسجد الحرام کے نزدیک عہد کرلیا ہے تو جب تک وہ لوگ اپنے عہد پر قائم رہیں تم بھی قائم رہو کہ اللہ متقی اور پرہیزگار افراد کو دوست رکھتا ہے
۔(7) ان کے ساتھ کس طرح رعایت کی جائے جب کہ یہ تم پر غالب آجائیں تو نہ کسی ہمسائگی اور قرابت کی نگرانی کریں گے اور نہ کوئی عہد و پیمان دیکھیں گے – یہ تو صرف زبانی تم کو خوش کررہے ہیں ورنہ ان کا دل قطعی منکر ہے اور ان کی اکثریت فاسق اور بدعہد ہے
۔(10) انہوں نے آیات لٰہیہ کے بدلے بہت تھوڑی منفعت کو لے لیا ہے اور اب راہ خدا سے روک رہے ہیں –یہ بہت برا کام کررہے ہیں
۔(11) یہ کسی مومن کے بارے میں کسی قرابت یا قول و اقرار کی پرواہ نہیں کرتے ہیں یہ صرف زیادتی کرنے والے لوگ ہیں
۔(12) پھر بھی اگر یہ توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰ ِ ادا کریں تو دین میں تمہارے بھائی ہیں اور ہم صاحبان علم کے لئے اپنی آیات کو تفصیل کے ساتھ بیان کرتے رہتے ہیں
کسی بھی مستند اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرلیں۔ آپ کو قتل و غارت ہی ملے گی اور مسلمان دوسرے مسلمان کا گلا کاٹتا نظر آئے گا۔آج کے حالات میں طالبان یا القاعدہ یا داعش اس قرآنی تعلیمات کی عملی تفسیر ہیں۔ اگر طالبان کے رہنما بیت اللہ محسود کی اپنے مخالفین کو قتل کرنے کی ویڈیو (یو ٹیوب پر ) دیکھی جائے تو وہ قتل کرنے سے پہلے قرآنی آیات کی تلاوت کرتا ہے پھر احادیث سناتا ہے اور اس کے بعد لائن میں کھڑے لوگوں کے سروں میں گولیاں مارتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ علما ان طالبان یا القاعدہ یا داعش کو دہشت گرد قرار دینے کو تیار نہیں جبکہ نام نہاد معتدل علماجنہیں اپالوجسٹ کہنا بہتر ہوگا اس کی تفسیر گھما پھرا کر مخصوص حالات سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ عجمی سازش ہے جس کا مقصد اسلام کو بدنام کر نا ہے ۔ درحقیقت اپالوجسٹ تاریخ کا انکار کرتے ہیں ۔دونوں گروہ اپنی اپنی جگہ درست ہیں ۔لیکن المیہ یہ ہے کہ اس پر کبھی اتفاق رائے نہیں ہو سکتا۔
قرآن کے برعکس بائیبل یا کسی اور الہامی کتاب میں اپنے مخالفین کا سر قلم کرنے یا انہیں گدھے سے تشبیہ دینے یا انہیں اپنا دوست نہ بنانے کی کہیں تعلیم نہیں دی گئی۔اسلام کے برعکس مسیحیت میںا محبت کی تعلیم دی گئی ہے۔مسیحیت میں کہا گیا ہے ‘اپنے دشمنوں سے پیار کرو‘ اور ‘جو تکلیف دے اس کے لیے دعا کرو۔‘اس لیے انہیں کسی معذرت خوانہ رویے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
تاریخی طور پر جائزہ لیا جائے تو نزول قرآن کا دور پندرہ سو سال پہلے کا ہے۔ اس وقت لبرل ڈیموکریسی کا کوئی تصور تھا اور نہ ہی ریاست اور مذہب کو علیحدہ کرنے کا۔ قرآن نے بذات خود کوئی سیاسی نظام نہیں دیا ۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت محمد صلعم کی وفات کے بعد اقتدار کےجھگڑے شروع ہوگئے۔ بلکہ ان کی لاش تین دن تک پڑی رہی کیونکہ خلیفہ کا فیصلہ نہیں ہو پارہا تھا اور پھر جب فیصلہ ہوا تو حضر ت محمد صلعم کے داماد نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ تین خلیفے اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ مسلمانوں کی تاریخ اسی قتل و غارت اور لوٹ مار کے واقعات سے بھری پڑی ہے اور یہ قتل و غارت آج بھی جاری ہے۔
اقتدار کی لڑائی مسلمانوں تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ دوسرے مذاہب کے ماننے والے بھی اسی قتل و غارت کا شکار رہے ہیں۔ مارکسسٹ دانشور مسلم شمیم لکھتے ہیں صورتحال اس وقت تبدیل ہونا شروع ہوئی جب یورپ میں سائنسی ایجادات کی بدولت ایک صنعتی عمل شروع ہوا جس کے نتیجے میں ایک نظام (سسٹم) کی ضرورت محسوس ہوئی ۔ سماج اور ریاست ا یک معاشی نظام کے تحت آئے۔ انڈسٹریلائزیشن کی بدولت بتدریج چرچ کی طاقت کم ہوتی گئی اور ریاست کومذہب سے علیحدہ کیا گیا اور تمام انسانوں کو برابری کا درجہ دیا گیا۔
اس معاشرتی تبدیلی سے متاثر ہوتے ہوئے مسلمان علما نے بھی اسلام کو ایک نظام سے تشبیہ دی اور کہا کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔مسلم شمیم کے مطابق آج سے دو ڈھائی سو پہلے کے اسلامی لٹریچر کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں” اسلامی ریاست” یا” اسلام ایک ضابطہ حیات ہے “ جیسی کوئی اصطلاح نہیں ملتی۔پہلے تو سیدھی سادھی اقتدار کی جنگ ہوتی تھی اور ظاہر ہے جو طاقتور ہوتا تھا وہی حکمران بن جاتا تھا۔
♦
One Comment