بیرسٹر حمید باشانی
مغرب بہت بے وفاہے۔ لوگ طوطا چشم ہیں۔ محبت میں دھوکے باز ہیں۔ پیار میں وفادار نہیں۔ بیوی خاوند سے اور خاوند بیوی سے بے وفائی کرتا ہے۔ محبوب محبوبہ کو دھوکہ دیتا ہے ۔ مغرب کے بارے میں یہایک اور بڑامغالطہ ہے جو ہمارے ہاں عام ہے۔
اس عام مغالطے کی دو بنیادیں ہیں۔ جہالت اور تعصب۔ جہالت کی وجہ سے جو لوگ اس مغالطے کا شکار ہیں وہ نہ مغرب کے بارے میں کچھ جانتے ہیں نہ محبت کے بارے میں ۔ ان میں چارقسم لوگ شامل ہیں۔ ایک وہ جن کا مغرب کے بارے میں کوئی باقاعدہ مطالعہ نہیں ہے ۔ یہ نہ کبھی مغرب میں رہے نہ اس کا مشاہدہ کیا۔ یہ لا علم اور معصوم لوگ ہیں۔ سنی سنائی باتوں پر رائے بناتے ہیں۔
دوسرے وہ لوگ ہیں جنہوں نے مغرب کے خلاف بہت ہی متعصبانہ لٹریچر پڑھ رکھا ہے۔ خوفناک تقاریر سن رکھی ہیں۔ گفتگو سن رکھی ہے۔ یہ لوگ ایک خاص دائرے میں رہتے ہیں۔ معلومات کے کسی متبادل ذریعے تک انہیں رسائی ہی نہیں ہے۔ یہ خاص قسم کی اردو کتابیں پڑھتے ہیں۔ خاص ڈائجسٹ پڑھتے ہیں۔ ایسا ادب پڑھتے ہیں جو مغربی سماج کی ایک گمراہ کن تصویر پیش کرتا ہے۔ یہ لوگ انگریزی کتابیں نہیں پڑھتے۔ ان لوگوں کے لیے ہمارے ہاں کسی لائبریری یا کتب خانے میں مغرب کے بارے میں اردو زبان میں کوئی ایسی ڈھنگ کی کتاب میسر نہیں جو تعصب سے اوپر اٹھ کر لکھی گئی ہو۔
تیسری قسم ان لوگوں کی ہے جو باقاعدہ دل میں مغرب کے خلاف نفرت اور بغض رکھتے ہیں۔ ان میں بنیاد پرست ،ا ور شدت پسند وغیرہ شامل ہیں۔ چنانچہ یہ مغرب کی ایسی تصویر بناتے ہیں جیسی کوئی اندھا ہاتھی کو ٹٹول ٹٹول کر بنائے ۔ چو تھے وہ ہیں جن کا مغرب کے خلاف ایک ایجنڈا ہے۔ یہ لوگ جان بوجھ کر مغرب کے خلاف جھوٹے مغالطے پھیلاتے ہیں۔
ثقافتی اور سماجی اعتبار سے مغرب سے مراد کوئی ایک ملک یا ثقافت نہیں۔ اس میں یونان سے لیکر چلی تک کوئی چالیس سے زائد ملک اور کلچرشامل ہیں۔ چنانچہ اس کی وسیع تر تعریف میں وہ ممالک آتے ہیں جن کی ثقافتی بنیادیں یوروپین ہیں ، یا وہ یوروپین ثقافت کے زیر اثر ہیں۔
لیکن اس کے باوجود پورا مغرب کوئی ایک اکائی نہیں ہے۔ اس کے اندر مختلف رنگ ہیں۔ نیدرلینڈ کے مقابلے میں اٹلی ایک قدامت پسند ملک ہے۔ اس طرح فرانس کے مقابلے میں امریکہ ثقافتی اعتبار سے سخت قدامت پرست ہے۔ چنانچہ ان ملکوں میں محبت اور وفا کے برتاؤ اور مظاہروں میں تھوڑا بہت فرق ضرور ہوتا ہے۔ سسلی میں رہنے والے شخص کا پیار و محبت کے بارے میں رویہ پیرس میں رہنے الے شخص سے تھوڑا مختلف ہے۔ لیکن جو محبت کا بنیادی تصور ہے وہ ایک ہے۔
عام طور پورے مغرب میں جب دو شخص سچی محبت کرتے ہیں وہ کبھی ایک دوسرے کو دھوکہ نہیں دیتے۔ استشنا ہر جگہ ہوتے ہیں۔ لیکن سماج کی ایک عظیم اکثریت کا چلن اور ریت یہی ہے۔ عا م طور پر جب تک لوگ محبت کرتے ہیں، وفادار رہتے ہیں۔ جب محبت ختم ہو جاتی ہے تو رشتہ ختم کر دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سب نہیں، لیکن بیشتر مغربی ممالک اور سماجوں میں انسان آزاد ہے۔ اسے بڑی حد تک معاشی اور سماجی اورثقافتی آزادی حاصل ہے۔ چنانچہ یہاں انسان کی محبت شعوری اور آزادانہ ہوتی ہے۔ کسی مجبوری، لالچ، یا سمجھوتے کا نتیجہ نہیں ہوتی۔ جب تک محبت زندہ ہوتی ہے رشتے قائم رہتے ہیں۔ محبت مر جاتی ہے تو رشتے ختم ہو جاتے ہیں۔ رشتے ختم ہونے کے ساتھ کوئی کلنک، کوئی داغ یا کوئی بوجھ نہیں ہوتا۔ لوگ طلاق لیتے ہیں تو ماتم نہیں کرتے۔ جشن بناتے ہیں۔ چنانچہ اب یہاں ’’ڈائی وورس پارٹی‘‘ کا چلن عام ہے۔
معاشی اور سماجی آزادیوں نے انسان کے اندر سے منافقت اور مکاری کا زہر بہت حد تک نکال دیا ہے۔ سماجی انصاف نے انسان کو بے باک بنا دیا ہے۔ انسان اپنے جذبات و خیالات کا اظہار کھل کر کرتا ہے۔ اسے اپنے جذبات چھپانے یا دوسروں کے جذبات سے کھیلنے یا انہیں مجروح کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسے ڈر کر یا گھٹ کر جینے کی ضرورت نہیں۔ انسان کو نہ کسی کی دولت کا خوف ہے۔نہ کسی کے اثرو رسوخ کا، نہ ہی یہاں سماج کے ہاتھوں سولی چڑھنے کی ریت ہے۔ چنانچہ یہاں انسان فیصلے صرف اپنے دل و دماغ سے کرتا ہے۔
ان آزادیوں کی بدولت انسان محبت اور وفا کے ساتھ جڑے فرسودہ قسم کے تصورات سے بھی چھٹکارہ حاصل کرتا جا رہا ہے۔ سماجی ارتقا اور نشونما کا اثر شادی بیاہ کے تصورات پر بھی پڑا ہے۔ شادی بیاہ کا قدیم مقدس اور دیو مالائی تصور بدل رہا ہے۔ آج تک چرچ میں شادی کرنے والا جوڑا جو حلف اٹھاتا ہے اس کی عبارت یہ ہے کہ میں اپنی بیوی یا خاوند سے یہ عہد کرتاہوں کہ میں تم سے وفادار رہوں گا، اچھے وقتوں میں، برے وقتوں میں، بیماری میں اور صحت میں، اور میں تاحیات تم سے محبت کروں گا۔
زندگی بھر محبت کرنے کی یہ گارنٹی جو چرچ انسان سے لیتا ہے اور ہر حالت میں وفا کرنے کا یہ عہد نامہ مغرب کے بدلتے ہوئے سماجی اور ثقافتی حالات میں بڑی حد تک پرانا اور غیر متعلق ہو گیا ہے۔ چنانچہ اس میں تبدیلی کی باتیں ہو رہی ہیں۔ گزشتہ سال اٹلی کی مجلس قانون ساز نے شادی کے اس عہد نامے کے الفاظ میں تبدیلی کا بل پیش کیا ہے ۔ زندگی بھر محبت اور وفاداری کی گارنٹی کے الفاظ نکالنے کی بات کی ہے۔
مغربی سماج بہت متنوع ہے۔ یہاں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو شادی بیاہ اور محبت کے روایتی تصورات پر یقین نہیں رکھتے۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو جنسی تعلق کے لیے محبت ضروری نہیں سمجھتے۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو جنسی تعلق کو گناہ نہیں سمجھتے۔ ایسے بھی ہیں جو جنسی تعلق کو بے وفائی نہیں مانتے ۔ ان سب لوگوں کو اپنی پسند کا طرز زندگی اپنانے کی آزادی ہے۔ اور اس کے سر عام اظہار پر بھی قدغن نہیں۔
اس آزادانہ اور کھلے اظہارسے ہمارے ہاں یہ غلط تاثر لیا جاتا ہے کہ پورا مغربی سماج بے راہروی اور بے وفائی کا شکار ہے۔ حالانکہ یہ سب ہمارے ہاں اس سے زیادہ ہوتاہے مگر پردے میں ، ظاہر کیے بغیر، اقرار کیے بغیر ۔ اور ہمارے جو لوگ مغرب کی بے و فائی پر پریشان ہیں ان کے لیے آسکر وائلڈ نے لکھا تھا۔’’ بے وفائی کے بارے میں لوگ نا حق پریشان ہوتے ہیں۔ محبت میں بھی یہ ایک خالصتاً فزیا لوجی کا سوال ہے۔ اس کا ہماری اپنی مرضی سے کوئی تعلق نہیں۔ نوجوان لوگ وفادار بننا چاہتے ہیں، لیکن ہوتے نہیں، بوڑھے لوگ بے فائی کرنا چاہتے ہیں، لیکن کر نہیں سکتے‘‘۔
اس مغربی دانشور نے ہماری طرح اس معاملے میں شاید از راہ مذاق ناحق ہم مجبوروں پر تہمت ہے مختاری کا سہارا لیا ۔ ورنہ اگر ہم لوگ مغرب کو بولنے اور تولنے سے لیکر، لین دین اور خریدو ٖفروخت تک زندگی کے ہر کام میں اپنے سے زیادہ دیانت دار سمجھتے ہیں تو پیار و محبت کے باب میں ان کو کم ازکم شک کا فائدہ تو دیا جا سکتا ہے۔
♥
One Comment