غربت کی وجہ سے افغان بچے عسکریت پسندوں کو ’فروخت‘ کیے جا رہے ہیں۔ یہی کم عمر بچے افغانستان کی جنگ کو ایندھن فراہم کر رہے ہیں۔ کمسن ذہنوں کو تبدیل کرتے ہوئے انہیں عسکریت پسندوں کی صفوں میں کھڑا کر دیا جاتا ہے۔
افغان فورسز نے پاکستانی سرحد کے قریب مختلف کارروائیوں میں چھاپوں کے دوران تقریباﹰً چالیس بچوں کو بازیاب کرا لیا ہے۔ ان کم عمر بچوں میں زیادہ تر کا تعلق بہت ہی غریب خاندانوں سے ہے۔ ان بچوں کے والدین سے وعدہ کیا گیا تھا کے ان کی اولاد کو مفت مذہبی تعلیم فراہم کی جائے گی۔
افغان حکام کے مطابق طالبان کی جانب سے ان بچوں کو عسکری تربیت فراہم کی جاتی ہے تاکہ وہ افغانستان میں حملوں کے ذریعے خانہ جنگی کی صورتحال کو جاری رکھ سکیں۔
بازیابی کے بعد اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے نو سالہ سیف اللہ نے بتایا، ’’ ہمارے والدین ہمیشہ یہ چاہتے تھے کہ ہم اسلامی تعلیمات حاصل کریں لیکن ہمیں نہیں معلوم تھا کہ ہمیں بے وقوف بناتے اور گمراہ کرتے ہوئے خود کش بمبار بنایا جا رہا ہے۔‘‘
جنوب مشرقی صوبے غزنی میں ان بچوں کو بازیاب کروانے کے بعد افغان حکومت نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک طویل عرصے سے طالبان بچوں کو پاکستان اور افغانستان کے مختلف مدرسوں میں مذہبی تعلیم فراہم کرنے کے بہانے عسکری تربیت فراہم کر رہے ہیں۔
حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان کے حوالے سے نئی امریکی حکمت عملی واضح کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا تھا کہ عسکریت پسندوں کی بھرتیوں کو ہر حال میں روکا جائے گا۔
غزنی کے نائب گورنر نے اپنے بیان میں بتایا ہے کہ ’’اغوا کاروں کا گروہ ان بچوں کو پاکستان لے جانا چاہتا تھا۔‘‘ صوبائی پولیس کے سربراہ محمد مصطفیٰ نے الزام عائد کرتے ہوئے بتایا کہ زیادہ تر بچوں کو نشے کی حالت میں رکھا جاتا تھا تاکہ وہ نیم بے ہوشی کی حالت میں رہیں۔ ان کے مطابق ان بازیاب ہونے والوں میں سے تیرہ بچوں کو مبینہ طور پر خود کش بمباروں کے طور پر تربیت دی گئی ہے۔
DW
♦