میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی نے روہنگیا مسلم اقلیت کے خلاف جاری فوجی کارروائی کے تناظر میں کہا ہے ’’ہم سب امن چاہتے ہیں، جنگ نہیں‘‘۔ سوچی کے مطابق وہ روہنگیا بحران کو ختم کرنا چاہتی ہیں۔
میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی نے روہنگیا اقلیت کی نسلی تطہیر کے الزامات کے تناظر میں کہا کہ بین الاقوامی مبصرین کو ان واقعات کی چھان بین کرنے کی اجازت ہے اور میانمار کو اس حوالے سے کسی قسم کا کوئی خوف نہیں ہے۔ سوچی کے بقول ایک مہینے سے بھی کم عرصے کے دوران تقریباً سوا چار لاکھ روہنگیا بنگلہ دیش ہجرت کر گئے ہیں لیکن بحرانی علاقوں میں رہائش پذیر مسلمانوں کی بڑی تعداد ابھی بھی اپنے گھروں میں ہے اور پچاس فیصد سے زائد گاؤں جوں کے توں موجود ہیں۔
سوچی نے دارالحکومت نیپییداؤ میں اکھٹے ہونے والے سفارت کاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت بنگلہ دیش میں موجود روہنگیا کی شناخت کا عمل شروع کرنے پر تیار ہے، ’’ہم تیار ہیں، جانچ پڑتال کسی بھی وقت شروع کی جا سکتی ہے‘‘۔ ان کی یہ بات چیت قومی ٹیلی وژن پر بھی نشر کی گئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ بھی شدید تشویش کا شکار ہیں، ’’ہم بھی یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اصل مسئلہ کیا ہے۔ الزامات لگائے جا رہے ہیں اور جواب میں بھی الزامات عائد کیے جا رہے ہیں۔ ہمیں تمام موقف سننا ہیں‘‘۔
اس موقع پر سوچی نے مزید کہا، ’’ہم انسانی حقوق کی تمام تر خلاف ورزیوں اور تشدد کو رد کرتے ہیں‘‘۔ سوچی نے غیر ملکی سفارت کاروں کو راکھین کے دورے کی دعوت بھی دی، جہاں کے زیادہ تر دیہات کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ راکھین ریاست میں ہی روہنگیا کی اکثریت آباد ہے۔ سوچی نے مزید کہا کہ ان کی حکومت امن اور استحکام کو فروغ دینے کے لیے تمام تر کوششیں کر رہی ہے۔
اسی دوران انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ملکی فوج کی جانب سے روہنگیا پر مبینہ مظالم کے حوالے سے آنگ سان سوچی کے اس تازہ بیان کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اس تنظیم کے مطابق سوچی اور ان کی حکومت نے حقائق سے نظریں چرانے کے لیے ’ریت‘ میں اپنا سر دبا لیا ہے۔ ایمنسٹی کےبقول، ’’بنگلہ دیش ہجرت کر جانے والے روہنگیا شناخت نہ ہونے کی وجہ سے واپس نہیں آ سکتے۔‘‘ ایمنسٹی کے بقول سوچی کا خطاب غلط بیانی اور ان الزامات کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا، جو خود متاثرین لگا رہے ہیں۔
پچیس اگست سے شروع ہونے والے روہنگیا بحران کے بعد نوبل امن انعام یافتہ سوچی کا یہ پہلا باقاعدہ بیان ہے۔ انہیں پر تشدد واقعات کی مذمت نہ کرنے پر عالمی سطح پر شدید تنقید کا سامنا بھی رہا ہے۔
♦
One Comment