محترم ظفر عمران نے سوال چھیڑا ہے کہ پاکستان میں فوج کے علاوہ دیگر اداروں کو بھی حق حکمرانی دیا جائے،اس سے قبل اس نے سوال اٹھایا تھا کہ سرکاری اداروں سے فوجی حکمرانوں کی تصاویر ہٹائی جائیں،ملک میں جاری سول ملٹری تعلقات کے اتار چڑھاؤ کے ماحول میں اس قسم کی بحث حالات میں ٹھہراؤ اور بہتری لانے کی بجائے جلتی پر تیل ڈالنے کے مصداق ہے۔
قیام پاکستان کے وقت ہی اس بحث کا آغاز ہوگیا تھا کہ پاکستان میں حق حکمرانی کس کو حاصل ہوگا، بانی پاکستان بابائے قوم نے کچھ غیر جمہوری عناصر کی جانب سے حکومت کرنے کی کوشش دیکھ کر ہی متعدد مواقع پر انہیں تنبیہ جاری کی، اور واضح کیا کہ سرکاری ملازمین کا کام صرف سرکاری فرائض کی بجا آوری ہے، اور حکومت کے احکامات پر عمل درآمد کرنا ہے اوراس کے سوا کچھ نہیں، قائد کا اشارہ ایوب خان سمیت فوجی اور غیر فوجی کن ٹٹوں کی جانب تھا،غیر فوجی کن ٹٹوں میں سول بیوروکریٹس سرفہرست تھے۔
گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر میری ایک پوسٹ پر کچھ دوستوں نے بہت شور شرابا کیا، آئیے پہلے اس پوسٹ کا ذکر کرتے ہیں’’ لکھ رہا ہوں تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آ سکے کہ پاکستان کا موجودہ سسٹم ایسے ہی چلتا رہے گا جیسے 1947 سے اب تک چلتا آ رہا ہے،عمران خاں جتنے مرضی جتن کر لے وہ سسٹم کو تبدیل کرنا تو دور کی بات ہے وہ اس سسٹم کا بال بھی بیکا نہیں کرپائے گا،کیونکہ جس مرد جرار نے اس سسٹم کو نکیل ڈالنے کی کوشش کی یا اس کے چہرے مہرے کی سرجری کرنے کی کوشش کی اس سسٹم کے محافظوں نے اس سے اس دنیا میں رہنے کا حق چھین لیا ،یا جلاوطنی پر مجبور کردیا۔‘‘ محمد علی جناح، لیاقت علی خان اور ذوالفقار علی بھٹو اس کی زندہ مثالیں ہیں۔
فوجی جرنیل اس ملک پر حکومت کرنے کے لیے اپنی باطنی خواہشات کو تسکین بہم پہنچانے کے لیے اس سسٹم سے طاقت حاصل کرتے ہیں،اور پھر اپنی خواہشات ،آرزوؤں اور بھاری بھرکم بوٹوں تلے آئین پاکستان کو روندتے ہوئے اقتدار پر قابض ہوتے ہیں، چندہفتوں مین سیاستدانوں کے پھیلائے گند کی صفائی کرنے کے بعد دوبارہ انتخابات کروانے کا وعدہ کرتے ہیں، اس وعدے کے ساتھ ایسے سنہرے خواب بھی سادہ لوح عوام (جو پہلے سے ہی اپنی آنکھوں میں کسی مسیحا کے آنے کے سپنے سجائے ہوتے ہیں)کو دکھاتے ہیں جن کی تعبیر میں پاکستان سکنڈے نیویا یا کسی یورپی ملک میں تبدیل ہوتا دکھائی دیتا ہے، اور پھر دوچار سال بیت جاتے ہیں باوردی حکمران جن پر عوام نے اعتماد کیا تھا کم سے کم دس گیارہ سال پاکستان کی چھاتی پر مونگ دلتے رہتے ہیں۔
بیرونی قرضوں اور مہنگائی کے بوجھ تلے عوام کی ’’ڈاکراں‘‘ نکلتی رہتی ہیں لیکن ان کے کان’’سب اچھا‘‘ کی آوازیں سننے کے علاوہ کسی اور آواز کو سماعت کی اجازت مرحمت کرنے پراس وقت تک آمادہ نہیں ہوتے،جب تک زمین و آسمان کے مالک کی لاٹھی بے آواز انہیں فضاؤں میں اڑا نہیں دیتی،یا عوام کا سمندر انہیں ایوان اقتدار سے اٹھاکر باہر نہیں پھینک دیتا، یا کوئی ان سے زیادہ چالاک ،ہوشیار بندہ ان کی حکمران کے سورج کو گرہن نہیں لگا دیتا۔۔۔ اس صورتحال سے دوچار ہونے کے بعد انہیں عوام بھی یاد آتے ہیں،پاکستان کو چار چاند لگانے کی فکر بھی ستاتی ہے، لیکن اللہ کریم اپنے فیصلے صادر کرچکا ہوتا ہے اور اس کے فیصلے اٹل ہوتے ہیں۔
سیاست کے میدان میں کامیاب وہی سیاستدان ہوتا ہے جو عوام کی تقدیر بدلنے کی بات کرتا ہے، جو عوام کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوجاتا ہے کہ اگر وہ اسے منتخب کریں گے تو ہر طرف دودھ کی نہریں بہنے لگیں گی، تھانے کچہریوں میں فرشتے براجمان ہو ں گے، پولیس اور بیوروکریسی ان کے قدموں کی خاک ہوگی، عدالتوں سے انہیں سستا اور فوری انساف دستیاب ہوگا، رشوت، اور بدعنوانی نام کی کوئی بلا انہیں تنگ نہیں کرے گی۔
قیام پاکستان کی تحریک میں بھی مسلمانوں کو بھی یہی نوید سنائی گئی تھی تب ہی لاکھوں مسلمان سب کچھ لٹا کر پاک سرزمین پر بسنے کو پہنچے لیکن 70سال بیت گئے مگر عوام کو بقول استاد دامن مرحوم ’’مینوں دھرتی قلعی کرادے میں نچاں ساری رات‘‘ کسی نے عوام کو دھرتی قلعی کروا کر نہیں دی۔
استاد دامن مرحوام نے اس گانے میں عوام کی اس معصومانہ خواہش کی نشاندہی کی کہ اس دھرتی پر امن کا راج قائم ہو، معاشرے سے کرپشن ، بدعنوانی ،لوٹ مار ،ناانصافی اونچ نیچ کا خاتمہ اور صفایا ہو، تعصب نام کی کوئی شئے موجود نہ ہو ، تعلیمی اداروں میں امیروں کے بچوں کے ساتھ غریبوں کے بچے بھی یکساں علم حاصل کریں، دوسرے الفاظ میں استاد دامن اس دھرتیہ پر سرخ سویرے کا طلوع چاہتے تھے۔
لیکن قیام پاکستان سے برسراقتدار آنے والے ہر حکمران ماسوائے محمد علی جناح، لیاقت علی خان، ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی دختر نیک اختر کے سب نے عوام اور استاد دامن کے ارمانوں کے قاتل نکلے۔
پاکستان کی تاریخ گواہ ہے جس کسی نے بھی عوام کی تقدیر بدلنے کی کوشش کی، اس ملک کے فرسودہ گھسے پٹے نظام یا سسٹم کو بدلنے کے عزم کا اظہار کیا اسے عبرت کا نشان بنادیا گیا یہ الگ بات ہے کہ ایسا سوچنے والے خود نشان عبرت بن گئے،یہ پہلا موقعہ ہے کہ ایوب خان سے مشرف تک کسی آئین شکن پر پاکستان کی زمین تنگ ہوئی ہے ، اور وہ دیار غیر میں بیٹھ کر آج بھی پاکستان سے جمہوریت کی بسا ط لپیٹے جانے کی سازش کر رہا ہے۔
یہ بدمعاشی نہیں تو اور کیا ہے کہ سیاسی حکمران تو عدالتوں کے چکر لگاتے رہیں اور آمر کو عدالت لایا جا رہا ہو تو سول جمہوری حکومت کی آستین کے سانپ ( جو فوجی خاندان کا پس منظر رکھتا ہے) آمر مشرف کو عدالت مین پیش کرنے کی بجائے اسے سیدھا فوجی ہسپتال پہنچا دے، اور اس ملک کا وزیر اعظم اپنی آستین کے سانپ سے باز پرس بھی نہ کرسکے ایسا پہلی بار نہیں ہوا اوجڑی کیمپ دھما کے کی انکوائری کرنے والی ٹیم میں بھی اس وقت کے وزیر اعطم محمد خاں جونیجو کی آستینوں میں گھسے سانپوں نے جنرل ضیا ء کو جونیجو کے عزائم سے متعلق مخبری کی تھی جس پر انہیں فلپائین سے وطن واپس آتے ہی ایئرپورٹ سے سیدھا گھر بھیج دیا گیا تھا۔
اس ملک میں جاری سسٹم کے محافظ کس قدر پاور فل ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1988 کے آخری مہینے میںبرسراقتدار آنے والی بے نظیر بھٹو دورہ چین پر گئیں تو وہاں انہوں نے کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی یہ ہے ،لیکن بے نظیر بھٹو کے ساتھ چین گئے وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب علی خان نے جھٹ لقمہ دیا کہ محترمہ یہ پالیسی آپ کی پارٹی کی تو ہو سکتی ہے حکومت پاکستان کی نہیں، صاحبزادہ یعقوب علی خان فوجی ایسٹیبشلمنٹ کے نمائندے تھے۔
اسی لیے کہتا ہوں کہ’’ لکھ رہا ہوں تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آ سکے کہ پاکستان کا موجودہ سسٹم ایسے ہی چلتا رہے گا جیسے 1947 سے اب تک چلتا آ رہا ہے،عمران خاں جتنے مرضی جتن کر لے وہ سسٹم کو تبدیل کرنا تو دور کی بات ہے وہ اس سسٹم کا بال بھی بیکا نہیں کرپائے گا‘‘۔
ذکر کررہاتھا طفرعمران کے سوال کہ دوسرے محکموں کو بھی حق ھکمرانی دیا جائے، میری ظفر عمران سے گزارش ہے کہ وہ دوسرے محکموں کی نشاندہی بھی کریں جن کو حق حکومت درکار ہے؟ ان کی مراد عدلیہ سے ہے یا کسی اور کی طرف ان کا اشارہ ہے، ویسے ظفر عمران بات سچ کررہا ہے، کہ فوجی جرنیلوں نے حکمرانی کرکے کیا دیا ہے پاکستان کو ،اس کے عوام کو۔۔۔ داستانیں بکھری پڑی ہیں ۔مقدس شخصیات اور اداروں کے سنہرے کارناموں کی ۔۔۔
ظفر عمران کی بات کو ذرا آگے بڑھاتا ہوں کہ سویلین حکمرانوں اور ان کے ماتحت سول اداروں کو بھی مقدس شخصیات کی کتاب حیات آدٹ کا حق دیا جائے۔ ۔۔۔آئین پاکستان کے تحت تو حق ھکمرانی آئین کے ذریعے عوام کو حاصل ہے اور عوام اپنے ووت سے سیاستدانوں کو منتخب کرکے انہیں ھق حکومت دیتے ہیں، لیکن پاکستان میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا قانون چلتا ہے۔
♥
One Comment