عقل و دانش ، فہم و فراست اور معاملہ فہمی میں مہارت پیدا کرنے کے لئے الفاظ کا مطالعہ بنیادی اہمیت کا حامل ہے
ہم اپنا مدعا اور مافی الضمیر الفاظ میں ادا کرتے ہیں چنانچہ اس کے لئے مناسب الفاظ کا چناؤ کرتے ہیں کیونکہ بعض الفاظ انسان کو بھلے اور بعض بہت ہی زیادہ بھلے لگتے ہیں تو اسی طرح بعض پر منہ بنا لیتے اور بعض کا نہایت بُر ا بھی بناتے ہیں جبکہ ایسے الفاظ بھی ہیں کہ جن کو سن کر خوشی سے پھولے نہیں سماتے ہیں اور ایسے بھی ہیں جن کو سنتے ہی پارہ چڑھ جاتا ہے لال پیلے ہوجاتے ہیں منہ سے غصے کے عالم میں جھاگ نکلنے لگتی ہے اور ایک دوسرے کے گریبانوں میں ہاتھ ڈال لیتے ہیں حتیٰ کہ مرنے مارنے کی نوبت آجا تی ہے
الفاظ ہمیں انسان کے غاروں کا دور اور پتھر کا زمانہ یاد دلاتے ہیں اور یہ بھی بتاتے ہیں کہ وہ ارتقاء کے شکاری دور میں رہتا تھا آگ اور پہیہ دریافت اور ایجاد ہوچکے تھے قبائلی اور خانہ بدوشی کی زندگی بسر کرتا تھا زرعی دور میں قدم رکھ چکا تھا گا رے اور مٹی کے مکانات بناکر رہنے لگا تھا لکڑی جلاکر خوراک تیار کرتا تھا مٹی کے برتن ، پتھر اور لکڑی کے اوزار بنانا سیکھ چکا تھا کھیتوں سے پالتو جانوروں کی مانند بندھ گیا تھا طبقات وجود میں آچکے تھے یہ مدری دور تھا یا پدری در آیا تھا مرد کے مرد اور مرد کے عورت سے تعلقات کی نوعیت کیا تھی عورت آزادانہ گھوم پھر سکتی تھی یا پھر ذاتی ملکیت بنادی گئی تھی اسی طرح کسی علاقے یا قوم کے الفاظ کا مجموعہ یہ بھی بتا دیتا ہے کہ یہ پہاڑی ، ریگستانی ، برفانی یا ہموار اور زرخیز زمین پر زندگی بسر کرتے تھے
الفاظ معاشرے کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتے ہیں تو ان سے حالات کو جوں کا توں رکھنے کا کام بھی لیا جاتا ہے ایک علاقہ یا ملک میں بولے جانے والے الفاظ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ روبہ ترقی ہے جوں کا توں یا پھر ماضی کی جانب مراجعت کر رہا ہے
جو خطیب اور مقرر الفاظ کے استعمال کا موقع و محل جانتا ہے وہ قارئین کو مسمریز اور ہپناٹائز کرکے ان کے دلوں میں اپنے لئے جگہ بنا لیتاہے اور پھر جس طرف چاہتا ہے اس طرف لے جاتا ہے بلکہ پوری صورت حال کو ہی بدل کر رکھ دیتا ہے انسانی تاریخ میں بعض تقاریر کو تاریخی اہمیت حاصل ہے ولیم شیکسپیئر کی جولیس سیزر میں انتھونی کے خطاب کا ذکر ملتا ہے اس تقریر نے تمام کایا پلٹ دی تھی ان سے پہلے ایک ایک اٹھ کر جولیئس سیزر کو قصور وار اور اس کے قتل کو جائز قرار دیتا ہے انتھونی کی باری آتی ہے اور ان کی تقریر جوں جوں آگے بڑھتی ہے تو صورت حال بھی بدلنے لگتی ہے
مقررین کے علاوہ وکلاء ، شعراء اور ادباء بھی الفاظ کا سنجیدگی سے انتخاب کرتے ہیں اپنے شعر اور کلام کو جاندار بنانے اور دائمیت بخشنے کے لئے موقع محل کی مناسبت سے الفاظ کا استعمال ایک شاعر کے لئے نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے
انسانی تاریخ کی مانند الفاظ کی بھی صدیوں پر محیط اپنی ایک تاریخ ہے بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ہر لفظ کی اپنی ایک پیدائش اس کا اپنا ایک پس منظر اور خاص ماضی اور حال ہوتا ہے اور اپنی ایک الگ داستان پوشیدہ ہوتی ہے انسانی سماج کے ارتقاء کے ساتھ کئی نئے الفاظ وجود میں آکر اس کا حصہ بنتے رہے اور وقت گزرنے پر متروک بھی ہوتے رہے چنانچہ جس لمحہ ان کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس دور کی معاشی، سیاسی، سماجی ، تہذیبی اور اخلاقی صورت حال آنکھوں کے سامنے گھوم جاتی ہے جبکہ بعض الفاظ تو اس زمانے کی تمام تاریخ کھلی کتاب کی مانند ہمارے سامنے رکھ دیتے ہیں یہ زبان حال سے اس زمانے کے معاشی و سماجی حالات، طرز سیاست، لوگوں کا رہن سہن ، بود و باش، طبقات کی نوعیت، خوراک، لباس ، برتن ، انسانوں کے باہمی تعلقات و روابط کی جامع تصویر پیش کردیتے ہیں
القصہ الفاظ ہمیں انسان کی صدیوں پر محیط ارتقاء کی داستان ہی نہیں سناتے ہیں بلکہ تمام صورت حال بتا دیتے ہیں جب ہم ایک لفظ کی ماہیت پر سرکھپاتے ہیں باریک بینی سے تجزیہ کرتے ہیں اس کے ماضی میں جھانکتے ہیں تو کئی سر بستہ رازوں پر سے پردہ اٹھتا ہے
حیا ، شرم اور پردہ مترادف الفاظ ہیں
پردہ ایک لفظ ہی نہیں بلکہ انسانی ارتقاء کے ایک مرحلے کا اظہار بھی ہے یہ ہمیں بتاتا ہے کہ انسان شکار اور خانہ بدوشی سے ترقی کرتا ہوا زمین اور کھیت سے بندھ گیا تھا وہ جھونپڑے اور کچے مکانات بناکر ان میں رہنے لگا تھا جاگیردار طبقہ وجود میں آچکا تھا وہ زمین سے بندھ گیا تھا اس نے خاندان کی بنیاد رکھ دی تھی اپنے کھیت مزدور کو ان دیکھی زنجیروں میں باندھ کر رکھنا اس کی مجبوری تھی چنانچہ اس نے یہ الفاظ ایجاد کرکے اسے عورت کا چوکیدار بنا دیا تو اس کے کھیت اور کھلیان کی رکھوالی بھی ہونے لگی یہ الفاظ انسان کے خانہ بدوشی سے جاگیردارانہ دور میں داخل ہونے کی غمازی بھی کرتے ہیں
اسی طرح ایک علاقہ میں کثرت سے بولے جانے والے الفاظ کا ذخیرہ اکھٹا کرکے اس کے باسیوں کے طرز معاشرت ، تہذیب و تمدن ، عقائد ، رہن سہن ، بود وباش اور انسانی رشتوں کی طبقاتی نوعیت کا پتہ لگا سکتے ہیں پاکستان کے صوبوں، دیہات اور شہروں سے ا کھٹے کئے جانے والے الفاظ سے بھی قریب قریب یہی نتائج اخذ کر سکتے ہیں
نماز،روزہ،جہاد،بہادر،بزدل،مہمان،سخی،سورۂ،پردہ،قبیلہ،قتل،بدلہ،پستول،بندوق،ثواب،گناہ،جنت،دوزخ، جھوٹ، غصہ،پہاڑ،دریا،جرگہ،حجرہ،غیرت،حیا،شیطان،تسبیح،صبر،ہمت،گدھا،سمگلنگ،چرس،افیون۔
بہادر،غیرتی،جائیداد،کھیت،بدلہ،نماز،روزہ،سورۂ،حیا،شیطان،جنت،دوزخ،جھوٹ،وفادار،گناہ،بیل،بیل گا ڑ ی،کھاد،گناہ ،ثواب،عبرت ناک سزا،بکری،غصہ،معافی،صبر،شکر،مادر پدر آزاد،مشرقی، مغربی، چور، ڈاکو، قاتل، فحاشی، پردہ،شریف،بدمعاش،کم ذات، میاں، نائی ، بے وقوف اور اب ان کے ساتھ ٹریکٹر، تھریشر،بارانی ، نہر ی ۔
نماز سے افیون اور بہادر سے نہری تک الفاظ کے دو الگ الگ مجموعے ہیں دونوں میں کئی الفاظ مشترک ہیں اور بعض ایسے الفاظ بھی ہیں جو کہ ایک علاقہ میں زیادہ اور دوسرے میں کم یا بالکل نہیں بولے جاتے ہیں یہ دو طرح کے الفاظ کے مجموعے اگرچہ پختون سماج کا نقشہ ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں مگر ساتھ ہی ان میں ایک تفریق اور تفاوت کا اظہار بھی کرتے ہیں
بہر طور ، یہ الفاظ زبان حال سے ان آبادیوں کی معیشت، روزگار کے ذرائع ، تعلقات کی نوعیت ، عادات، مذہب کی جانب جھکاؤ ، طبقات اور نفسیات بتاتے ہیں ہم دیکھتے ہیں کہ پہلا مجموعہ الفاظ پختونوں کے قبائلی علاقہ جات اور د و سر ے ذخیرہ کے الفاظ زیادہ تر بندوبستی علاقے میں بولے جاتے ہیں
گالیاں بھی الفاظ ہی ہوتے ہیں یہ ذہنی اذیت پہنچانے کے لئے دی جاتی ہیں چنانچہ ایک علاقہ میں ان کا ذخیرہ اور لغت ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ہم کس رشتے کو کتنا زیادہ عزیز رکھتے ہیں جب ایک بندہ کسی کو ماں، بہن، بیوی ، نانی اور دادی کی گالی دیتا ہے تو اسے تکلیف پہنچتی ہے ہم گالیوں کابرا اور بعض اوقات نہایت ہی برا مناتے ہیں
ہم قبائلی علاقہ جات سے پختونخوا اور وہاں سے نیچے پنجاب کی طرف جاتے ہیں تو ہماری لغت میں نئے الفاظ شامل ہو تے جاتے ہیں یہ نئے الفاظ عموماً فیکٹری، کارخانہ، پیداوار، مالک، ایم ڈی ، افسر، منڈی، کھپت، قیمت، ترقی، تعلیم ، شرح، اعلیٰ تعلیم، ڈاکٹر، اداکار، فلم، آرٹ ، ادب، انجنئیر، یونین، بونس، مطالبات، اتحاد، احتجاج، انتخابات، نمائندہ ، یو نیورسٹی اور بجلی ہوتے ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ شہری اور صنعتی علاقے ہیںچونکہ شہروں کے اثرات اب دیہات پر بھی پڑ رہے ہیں اس لئے بعض الفاظ شہر کے ساتھ ساتھ دیہات میں بھی روزمرہ بول چال کا حصہ بنتے جارہے ہیں یا بن چکے ہیں
اسی طرح الفاظ سے صنفی امتیاز کا بھی پتہ چلتا ہے اور سماجی مراتب اور حیثیت بھی آشکارا ہوتی ہے بیوی، حیا، پردہ ، عر یانی ،غیرت ، چوڑیاں، زیورات ، مغرب زدہ، شادی، برات، برقعہ، سورہ، نکاح اور جہیز کے الفاظ سے عورت کے سماج میں مقام اور مرتبہ کا پتہ چلتا ہے
کمپیوٹر ، سائنس، ایجادات، دریافت ،نیگرو ، سافٹ ویر ، سیل فونز، یونیورسٹی ، قرضہ ، تعلیم اور سکالر شپ کے الفاظ بتا تے ہیں کہ گفتگو میں مصروف نوجوان امریکہ یا برطانیہ جانے کی سوچ اور منصوبہ بنا رہے ہیں
بجلی ، گیس ، بحران ، خسارہ ، حملہ ، حقانی گروپ ، دہشت گردی ، ایٹم بم، بھوک ، خودکش جیکٹ، طالبان، جہاد، غازی، شہید ،کشمیر ، دھرنا ، ٹارگٹ کلنگ ، دھماکہ ، بھتہ ، جمہو ریت، آمریت ،آئین ، پلاٹ، سکولز ، قرضہ ، اقرباء پروری، کرپٹ، مر بے ،مرکز ، صوبے ،رائلٹی ،زکواۃ ، بھیک ، خودکشی ، حادثات اور تھر کے الفاظ بتاتے ہیں کہ وطن عزیز کے حوالے سے اظہار خیال ہورہا ہے
پاکستان کو جن بحرانوں کا سامنا ہے اس حوالے سے یہ لطیفہ صورت حال کی عکاسی کرتا ہے
’’ بھارت میں ایک سکھ لڑکے کا باپ مرگیا اس کی ماں روتے روتے ساتھ میں یہ بھی کہہ رہی تھی اجیت سنگھ کے ابو! ہائے ہائے! تو کہاں چلا گیا ایک ایسی جگہ چلا گیا ہے جہاں پانی نہیں، بجلی نہیں ہے گیس بھی ناپید اور ہر چار اور اندھیرا ہی اندھیرا ہے‘‘
ساتھ کھڑے بیٹے رنجیت نے پوچھا: ’’ ماں! کیا ابو پاکستان چلا گیا ہے؟‘‘
ہمارے روزمرہ، محا ورے اور ضرب الا مثال سے بھی ہماری معلومات ، تعلقات ، طبقاتی اتار چڑھاؤ، دانش مندی اور حماقت کا اظہار ہوتا ہے جس طرح ایک ماہر نجومی کسی شخص کے چہرے ، عمر ، جنس ، بات چیت ، قدوقامت، لباس و پو شا ک سے اس کے علاقے، طبقے اور مسائل پر قیاس کرتا ہے اسی طرح کسی علاقہ میں زیادہ تر بولے جانے والے الفاظ بھی اس کا نقشہ ہمارے سامنے کھول کر رکھ دیتے ہیں ان سے یہ پتہ لگ سکتا ہے کہ وہاں کے باشندوں کا بودوباش اور ذریعہ معاش کیا ہے طبقات کی کیا نوعیت ہے عام لوگ کیا کرتے ہیں کو ن سے مسئلے ان کو پریشان رکھتے ہیں ان کے باہمی تعلقات اور تضادات کس نوعیت کے ہیں اس میں آزادیوں ، اختیارات اور پابندیوں کی صورت حال کیا ہے معاشرے پر کون سے طبقات حاوی ہیں
ہم اپنی بات چیت میں جو الفاظ بولتے ہیں وہ ہمارے پیشے کا حال بھی بتاتے ہیں ایک سبزی فروش اپنی محبوبہ کا نقشہ کھینچتے ہوئے اس کے گالوں کو سرخ ٹماٹر، ہاتھوں کو سفید مولی ، انگلیوں کو بھنڈی ، غصے کو مرچ اور پیار کو میٹھی گاجر سے تشبیہ د ے گا تعویز اور گنڈے بنانے والا جن، بھوت، تعویز ، کمال ، مذہب اور صحت یابی زیادہ بولتا ہے اسی طرح مذہبی پیشوا کے ذخیرہ الفاظ میں جنت ، دوزخ، حور ، آدم ،گناہ ، عذاب ، ثواب اور دعا کے الفاظ کی کثرت ہوتی ہے القصہ ہر پیشے سے وابستہ فرد اور افراد کے الفاظ کا زیادہ تر ذخیرہ اس کے کام سے متعلق ہوتا ہے اسی طرح میں جائیداد اور کارخانے کا مالک ہوں تو کنبہ اور رشتے داروں سے گفتگو کے دوران میرے زیادہ تر الفاظ ملکیت، بنگلہ، کار، امریکہ، پاسپورٹ، و یز ہ ، مال ، ہوائی جہاز اور پرواز ہوں گے اور کاشتکار اور مزدور کے ساتھ بات چیت کا دور چل رہا ہے تو اسے صبر اور شکر کی تلقین کروں گا اور کسان یا صنعتی مزدور ہونے کی صورت میں زیادہ معاوضے اور زیادہ مراعات کا طلب گار ہوں گا
پاکستان میں قبائلی ، جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام ایک ساتھ چل رہے ہیں اسی لئے پاکستانی ادب کا مطالعہ اس کے عوام کی نفسیات ، مسائل اور ترجیحات کا پتہ دیتا ہے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا بھی ایک دیہہ اور شہر کے حالات بتاتا ہے ایک شخص نے اپنی بیوی کو شک کی بناء پر قتل کردیا یا ایک بھائی نے بہن کو لڑکے کے ساتھ گھومنے پر موت کے گھاٹ اتار دیا ایک شخص نے قتل کیا اور پھر مقتول کے ورثاء کو سورۂ میں بہن یا بیٹی دے دی جائید اد کی خاطر بیٹے نے بھائی اور باپ کو ہلاک کر دیا پستول صاف کرتے ہوئے چل گیا اور بھائی مرگیا خان کی بیٹی تانگے بان کے ساتھ بھاگ گئی جیسی خبروں کی بہتات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پختونخوا کا حال بتایا جارہا ہے صنعتی زونز و ترقی ، منڈی ، کھپت، سپلائی اور برآمد کے الفاظ صنعتی بڑے شہروں کراچی اور لاہور کے حوالے سے معلومات دیتے ہیں
جس علاقے میں عورت کو چار دیواری میں قید کرکے رکھا گیا ہوتا ہے اس کے گھر سے باہر قدم رکھنے کو برا منایا جاتا ہے اسے ذاتی ملکیت کا درجہ دیا گیا ہوتا ہے تو دشمن کا سماجی مرتبہ گرانے، اسے ذہنی اذیت پہنچانے اور دل کی بھڑاس نکالنے کے لئے وہاں ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کی گالیوں کا زیادہ رواج ہوتا ہے
تعلیم یافتہ اور ان پڑھ انسانوں کا الفاظ پر یکساں ردعمل نہیں ہوتا ہے اسی طرح جس انسان نے ایک سے زائد ممالک کی سیاحت کی ہو بھانت بھانت کے انسانوں میں وقت گزارا ہو یا ایک ہی علاقہ میں مختلف العقائد لوگ بستے ہوں ان کی قومیت ، زبان ، لباس ، رہن سہن ، تہذیب و تمدن الگ الگ ہوں تو ان میں ایک دوسرے کے دلائل سننے کا زیادہ حوصلہ ہوتا ہے وہ نکتہ چینی اور تنقید پر آپے سے باہر نہیں ہوتے ہیں جن علاقوں میں بے جا پابندیاں ہوتی ہیں عوام کو ادب و آداب کی طرف مائل کرنے پر کچھ زیادہ ہی زور دیا جاتا ہو تو وہاں لوگ جھگڑوں اور قتل و غارت کی طرف زیادہ مائل رہتے ہیں اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس شہر اور علاقہ میں جاگیرداری نظام ہے
چور، لالچی ، صابر ، ایماندار ، سخت سزا، رحم، انصاف، امیر ، غریب ، غیرت ، ٹھگ ، خودکشی ، زندان ، اذیت اور پھانسی کے الفاظ سماج کی طبقاتی درجہ بندی کا پتہ دیتے ہیں لفظ چور ظاہر کرتا ہے کہ معاشرہ طبقات میں بٹا ہوا تھا ایک طبقہ نے تمام دولت اور وسائل پر قبضہ کیا ہوا تھا جبکہ دھقان اور مزدور معاشی طور پر دست نگر تھا اس طبقہ میں بے روزگاری بھی تھی اور کام چوری کی عادت رکھنے والے بھی تھے ان ہی میں نان نفقہ کے لئے محتاج بھی تھے اور ایسے بھی تھے جو صاحب جائیداد کے وسیع و عریض محلات ، زیورات سے آراستہ خواتین اور ٹھاٹھ باٹ سے متاثر اور ان کے مافق امیر کبیر بننا چاہتے تھے جب ان کو پیسہ کمانے کا دوسرا راستہ نظر نہیں آیا تو چوری ، دھوکہ اور فراڈ کو اپنا پیشہ بنالیا چور کے لئے سخت اور اذیت ناک سزا کا تصور یہ حقیقت سامنے لاتا ہے کہ روزگار کا فقدان تھا اور طبقاتی تفاوت انتہاؤں کو چھو رہا تھا اور حاکم طبقات اس عدم مساوات کو ختم اور اپنے غلاموں کی ضروریات پوری نہیں کرنا چاہتے تھے کیونکہ وہ ایسا کرتے تو انہیں اپنا مال و دولت کم کرنا پڑتا اپنی اس امارت اور عوام کی غربت کے مابین پائے جانے والے اس فاصلہ اور تفاوت کو بالادست اور حاکم طبقات رفتہ رفتہ نت نئے الفاظ گھڑ کے پُر کرتے رہے
اگر کچھ افراد صاحب دولت اور ان کے وسیع و عریض کھیت اور جائیداد نہ ہوتی اور ان کے ان کھیتوں اور کنالوں پر محیط مکانات میں شب و روز محنت مشقت کرنے والے ان کے محتاج اور دست نگر نہ ہوتے اور وہ اپنی ایک ضرورت پوری کرنے کے لئے ان سے وہ چیز چھپا کر نہیں لے جاتے تو چور اور چوری کے الفاظ بھی وجود میں نہ آتے اور ان افعال کوبرا بھی تصور نہ کیا جاتا
امیر اور غریب کے مابین معاشی تفاوت سے فقط چور اور برا کے دو الفاظ نے ہی جنم نہیں لیا بلکہ یہ تفاوت اور امتیاز جوں جوں بڑھتا گیا اور ان کے درمیان خلیج گہری ہوتی گئی تو اسی مناسبت سے نئے سے نیا لفظ وجود میں آتا چلا گیا
صاحب جائیداد نے دیکھا کہ اس کا نوکر چوری کرتا ہے اور اس عمل کو برا کہنے پر بھی وہ باز نہیں آتا ہے تو سزا دینے کا خیال پیدا ہوا اور اذیت پہنچنے پر وہ کام چھوڑ دیتا یا بھاگ جاتا ہے تو مالک کو اس صورت میں بھی نقصان پہنچتا تھا اور وہ اس ملازم کو اپنے ساتھ باندھ کر رکھنا چاہتا تھا اس لئے صبر کا لفظ پیدا کیا گیا اور اس کو اچھے کے زمرے میں لے آیا چنانچہ اب چور بُرا اور صابر اچھا انسان کہلاتا تھا
القصہ انسان مل جل کر رہنے لگے قبیلہ بن گیا طاقتور اور کم زور کے مفادات ایک ہوئے اور ان میں ٹکراؤ بھی پیدا ہوتا گیا تو افعال اور اشیاء کے لئے الفاظ اور نام بھی وجود میں آتے گئے اور جو نئی چیز پیدا ہوتی تو اس کی پہچان کے لئے نیا لفظ بھی دیا گیا چونکہ مالک اور ملازم کے جہاں مفادات ایک تھے تو وہاں یہ ٹکراتے بھی تھے اس یکسانیت اور جنگ نے اس معجزے کو جنم دیا جسے اب ہم لغت کہتے ہیں
اس لغت میں ہر لفظ کسی ایک حقیقت کو آشکارا کرتا ہے
مالک چاہتا تھا کہ ملازم کم معاوضہ میں زیادہ محنت اور پیداوار دے لہٰذا اسے اجرت کے ساتھ صبر کا ڈوز بھی دینے لگا اور اس کا احسان مند بھی رہے تو شکر کا ایک نیا لفظ اس میں اضافہ کردیا چنانچہ اب نوکر کام بھی کرتا تھا معاوضہ بھی کم لیتا تھا اور اس پر شکر بھی ادا کرتا تھا
ہم اپنی روزمرہ بات چیت میں میرا ، اپنا اور ہمارا کے الفاظ کئی دیگر الفاظ سے جوڑ کر ادا کرتے رہتے ہیں یہ ملکیت کو ظاہر کرتے ہیں میرے ہاتھ میں قلم ہے میں کہتا ہوں یہ میرا قلم ہے گھر کی حیثیت بتانا مقصود ہوتا ہے تو کہتا ہوں کہ یہ ہمارا مکان ہے اسی طرح ملک کے ساتھ اپنا کا لفظ نتھی کرتا ہوں یہی الفاظ ان اشیاء کے ساتھ بھی جوڑتا اور بولتا ہوں جن کے تصورات واضح نہیں ہوتے ہیں
الفاظ کے ضمن میں بعض اصطلاحات بھی غور طلب ہیں
جاگیردار زمین سے بندھا ہوتا ہے اور یہ جائیداد نہ صرف اس کی معاش کا سب سے بڑا اور اہم ذریعہ ہوتا ہے بلکہ سماج میں اس کا قدوقامت اور مرتبہ بھی اسی سے قائم و دائم ہوتا ہے وہ اس سے الگ تھلگ نہیں رہ سکتا ہے اور اس سماجی حیثیت سازی میں اس کے کھیت مزدوروں کا بنیادی کردار ہوتا ہے کیونکہ اس کی زمین اور کھیت پر کاشتکار شب و روز خون پسینہ بہاتے ہیں تو اس کی کوکھ سے غلہ ، سبزیاں اور پھل پیدا ہوتے ہیں چنانچہ اسے یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ بہتر ملازمت ملنے کی امید میں اس کے کاشتکار اسے چھوڑ کر کسی دوسرے دیہہ ، گاؤں یا شہر منتقل نہ ہوجائیں چنانچہ اس اندیشہ کے تحت دھرتی ماتا کی ایک اصطلاح ایجاد کی گئی
بالادست خصوصاً جاگیردار طبقہ اپنے دن رات کے پرچار کے ذریعہ دیہاتیوں کا ایسا ذہن بنانے میں کامیاب ہوگیا کہ وہ خواہ کتنے ہی مسائل ، تکالیف اور اذیتوں سے دوچار ہوتے مگر علاقہ نہیں چھوڑتے تھے کیونکہ انہوں نے اس زمین کو مالک کی جائیداد ہی نہیں بلکہ اپنی ماں اور ماتا مان لیا تھا اور ماں ، بہن ، بیٹی اور بیوی سے دور رہنا پہلے ہی برا تصور کیا جاتا تھا
جاگیردار نے کھیت مزدور کو تو زمین سے باندھ لیا تھا تو اس کے ساتھ ہی اپنی جان، جائیداد اور ملکیت کا محافظ بنانے کے لئے حب الوطنی کا تصور بھی دیا چنانچہ اسے کسی سے خطرہ ہوتا تو حب الوطنی کے تصور اور جذبہ کے تحت علاقے کے غریب باسی اس کے بغیر اجرت کے سپاہی بن کر میدان جنگ میں اتر آتے تھے حالانکہ ان غریب غرباء میں ایسے افراد بھی ہوتے تھے جن کو اسی وطن میں دو وقت کا کھانا اور سر چھپانے کے لئے چھت بھی میسر نہیں ہوتی تھی
حقیقت یہ ہے کہ دو قبیلوں یا ملکوں کے درمیان جنگ بنیادی طور پر جاگیرداروں کے مابین ہی جنگ ہوتی تھی مگر غریب طبقہ اپنی لاعلمی اور جہالت کے باعث ان کی یہ لڑائی اپنا علاقہ، اپنا وطن ، اپنا مذہب اور اپنا عقیدہ کے نام اور اپنی جنگ سمجھ کر بے جگری سے لڑتا تھا صاحب جائیداد طبقہ ہمسایہ کی زمین ، ہرے بھرے کھیت ، پیداوار اور اشیاء پر بھی نظر رکھتا تھا اور اسے ہتھیانے کا آرزو مند بھی ہوتا تھا اس لئے وہ اسے دشمن مشہور کردیتا تھا اور اپنے اس دشمن کو عوام کا دشمن ثابت کرنے میں کامیاب بھی رہا تھا چنانچہ وہ ان سے یہ نہیں کہتا تھا کہ حملے کی صورت میں ہمسایہ مجھ سے میری یہ ملکیت اور سازو سامان چھین کر لے جائے گا بلکہ یہ کہتا کہ ہم سے ہمارا وطن اور علاقہ چھین لے گا اسی لئے اس طبقہ نے انسانوں کو علاقہ ، رنگ ، نسل ، عقیدہ، مذہب ، زبان اور ثقافت کے ناموں پر تقسیم کیا ہوا تھا
یہ الفاظ اور خصوصیات جاگیردار اور غریب دونوں طبقات میں مشترک ہوتے تھے اسی لئے وہ ان مشترکہ قدروں کا حوالہ اور واسطہ دیتا رہتا تھا چنانچہ وہ ان سے یہ کبھی نہیں کہتا تھا کہ میری جائیداد اور ملکیت کی حفاظت کرتے ہوئے جان کی بازی لگا دو اس پرچار کا نتیجہ یہ نکلا کہ رنگ ، نسل ، زبان ، رسومات ، روایات ، رواجات، ثقافت، حتیٰ کہ عقیدہ اور مذہب بھی ایک علاقے اور اس کے باسیوں کی شناخت اور علاقائی بن گئے تھے اور رفتہ رفتہ ہر قبیلے کا اپنا عقیدہ ، اپنا مذہب اور اپنی ثقافت بن گئی تھی اور یہی اس کی پہچان بھی بن چکے تھے
پیدائشی، فطری ، جذباتی، معجزاتی، خونی اور تقدیر کے الفاظ بھی سماج میں مرو جہ نظام اور طبقاتی اتار چڑھاؤ کی غمازی کرتے ہیں قدیم نظام جاگیردار اور محنت کش کے دو بڑے طبقات پر مشتمل تھا اولالذکر صاحب حیثیت و جائیداد تھا اور وہ تمام بڑائی ، اچھائی اور کمالات اپنے پاس رکھنا چاہتا تھا تو اس کا اثر ہر شعبہ اور میدان میں بھی نظر آنا چاہئے تھا چنانچہ جہاں ذہانت و فطانت کا ذکر ہوتا تو اسے بھی عطیہ خداوندی ، پیدائشی اور خاندانی کہ کر آبائی اور موروثی ثابت کرنے پر زور دیا جاتا تھا جس کا مقصد اور منتہا اس کے سوا اور کیا تھا کہ رعیت اسے بھی غربت کی مانند اپنا نصیب سمجھے اور تگ و دو سے گریزاں رہا کرے اسی طرح مٹی ، وطن اور رشتوں سے پیار و محبت کو فطری اور خونی کہا جاتا تھا جبکہ طبقاتی تفاوت اور کش مکش کو کم کرنے کے لئے محبت کا شب و روز اور زیادہ سے زیادہ پرچار کیا جاتا تھا حادثے اور اونچائی سے گرنے کے باوجود بچ جانے کو معجز ے کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا تھا اور اگر ایک شخص انتہائی غریب یا صاحب جائیداد ہوتا تو اسے قسمت کے کھاتے میں ڈال کر پس پردہ وجوہات اور حقائق پر منوں مٹی ڈال دی جاتی تھی
الفاظ کا چونکہ انسان ، انسانیت ، ملک اور معاشرے کی ترقی سے گہرا رشتہ ہے اس کے لئے الفاظ کا مطالعہ اور اس کا چناؤ نہایت احتیاط کا متقاضی ہوتا ہے ہر لفظ اپنی ایک تاریخ اور پس منظر رکھتا ہے یہ بتاتا ہے کہ کس نے اسے پیدا اور ایجاد کیا اور وہ اس کے ذریعے کیا بتانا یا چھپانا چاہتا تھا سچ تو یہ ہے کہ یہ الفاظ ہی ہیں جن سے محنت کش کو ہزار ہا برسوں اور صدیوں سے بے وقوف بنایا جاتا رہا ہے اور یہ عمل اسی طرح آج بھی جاری و ساری ہے
غریب محنت کش کے لئے الفاظ کی ماہیت، پس منظر اور حقیقت جاننا انتہائی اہمیت کا حامل ہے
الفاظ انسان کو آگے لے جاتے ہیں
یہ سماج کو جوں کا توں رکھتے ہیں
اور اسے پیچھے بھی لے جاتے ہیں لہٰذا وہ اسی وقت آگے بڑھ سکتا ہے جب وہ اپنے سماج میں پائے اور بولے جانے والے ایک ایک لفظ کا ایسا جائزہ لے جیسا ایک جاسوس مجرم کی کھوج میں ہر کونا کھد رہ چھانتا چلا جاتا ہے
یہاں راقم الحروف فقط ایک لفظ قسمت سے انسانی سماج اور محنت کش طبقے کو پہنچنے والے نقصانات بتانا چاہتا ہے
سڑک پر حادثہ ہوگیا ہے جس کے نتیجہ میں ایک مسافر جاں بحق اور باقی سب صحیح سلامت ہیں وہاں لوگ جمع ہوگئے ہیں ایک شخص کہتا ہے
اس کی موت یہاں لکھی گئی تھی
کئی افراد اس کی تائید میں سر ہلا دیتے ہیں مگر ایک نوجوان لاش ، گاڑی اور حادثے کی نوعیت اور جائے وقوعہ کا جائزہ لیتے ہوئے رائے دیتا ہے
سڑک تنگ تھی
اب اس بحث میں مزید افراد شریک ہوجاتے ہیں
ڈرائیور غلط اوور ٹیکنگ کر رہا تھا
ڈرائیور نشے میں تھا
کھڈوں کی وجہ سے حادثہ ہوا
یہ حادثے ہی نہیں بلکہ زندگی کے حوالے سے بھی دو نقطہ نظر اور مکتبہ فکر ہیں
اولالذکر تصور سماج کو جوں کا توں رکھتا ہے یہ نقطہ نظر اگر ایک معاشرے میں تمام افراد کا ہوتا ہے تو اس کی تبدیلی اور ترقی کے امکانات بھی اتنے ہی کم ہوتے ہیں کیونکہ جب ایک انسان اسے نصیب مان لیتا ہے تو پھر ذہن و قلب میں ان وجوہات کی تلاش کے لئے گنجائش نہیں رہتی ہے جس کے باعث یہ حادثہ یا حادثات ظہور پذیر ہوتے ہیں
موخر الذکر سوچ حالات کا جائزہ لینے کی دعوت دیتی ہے
جب ایک شخص حادثے کی وجہ یہ بتاتا ہے کہ سڑک تنگ تھی تو یہ متعلقہ ادارے کے حکام سے اسے چوڑا کرنے کا مطالبہ بن جاتا ہے اسی طرح ڈرائیور کے نشے کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے تو ٹریفک پولیس حکام کے لئے یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ دوران ڈرائیونگ نشہ کرنے پر پابندی لگادیں
اس لئے اسے ایک لفظ ہی نہیں لینا چاہئے بلکہ اسے اور ان جیسے الفاظ بلکہ ہر لفظ کو سماج کی ترقی ، حالات کو جوں توں اور پیچھے لے جانے سے جوڑنا ہوگا جب ان الفاظ کی نشاندھی ہوجائے گی جو ترقی کی راہ میں رکاؤٹ بنے ہوئے ہیں اور ایک ایک کی حقیقت آشکارا ہوگی تو تبدیلی کی تمنا بھی کروٹ لینے لگے گی
2 Comments