دس اکتوبر دنیا بھر میں سزائے موت کے خلاف دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔دنیا تیزی سے اس نتیجے پر پہنچ رہی ہے کہ قتل کے الزام میں سزائے موت انتقام تو ضرور ابھارتی ہے لیکن یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ پھانسی قتل کے جرم میں کمی کا باعث بنتی ہے درست نہیں ۔
اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ جن ممالک میں سزائے موت پر سب سے زیادہ عمل درآمد کیا جاتا ہے وہاں قتل بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں ان ممالک کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جہاں سزائے موت ختم کر دی گئی ہے ۔1977 میں دنیا کے صرف 16 ممالک ایسے تھے جن میں سزائے موت پر پابندی تھی لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ دنیا کے 140 ممالک میں سزائے موت کو ختم کر دیا گیا ہے۔
پاکستان میں ریاستی اور عوامی سطح پر سزائے موت پسندیدہ سزا خیال کی جاتی ہے۔فروری2016 میں گیلانی ریسرچ فاونڈیشن نے سزائے موت کے حوالے سے سروے کیا تھا ۔ اس سروے کے مطابق 92 فی صد پاکستانی ’ دہشت گردوں کو سزائے موت دینے ‘ کی حمایت کرتے ہیں۔
اس سروے میں مخصوص سوال پوچھا گیا تھا کہ ’کیا آپ دہشت گردوں کو سزائے موت دینے کے حق میں ہیں‘۔ لیکن گذشتہ تین سالوں میں دی جانے والی پھانسیوں کے اعداد و شمار دیکھے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ افراد جنھیں پھانسی دی گئی ان میں اکثریت کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔ ریاستی اور عوامی سطح پر سزائے موت کو حاصل عوامی حمایت کے باوجود قتل کی وارداتوں میں کمی کی بجائے اضافہ ہورہا ہے ۔شائد ہی کوئی دن ایسا ہوگا جب اخبارات میں قتل کی خبر موجود نہ ہو۔
قیا م پاکستان کے وقت محض ایک یا دو جرائم میں سزائے موت دی جاتی تھی لیکن اب 27جرائم ایسے ہیں جن میں سزائے موت دی جاسکتی ہے ۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل رپورٹ کے مطابق پاکستان د نیا کے ان پانچ ممالک میں تیسرے نمبر پر ہے جن میں سب سے زیادہ سزائے موت دی جاتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق دنیا کی نوے فی صد پھانسیاں تین ممالک۔۔ سعودی عرب، ایران اور پاکستان میں دی جاتی ہیں۔
دسمبر 2014میں آرمی پبلک سکول پر ہونے والے دہشت گرد حملے سے پہلے سزائے موت پر پیپلز پارٹی کی حکومت میں عارضی طور پر پابندی موجود تھی لیکن اس حملے کے بعد یہ عارضی پابندی ختم کرد ی گئی۔ چنانچہ دسمبر 2014 سے مئی 2017 تک سزائے موت کے 465قیدیوں کی سزا پر عمل درآمد کرتے ہوئے انھیں پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ یوں پاکستان سب سے زیادہ سزائے موت دینے والے ممالک کے کلب میں شامل ہوگیا ہے۔ اس کلب میں چین کے علاوہ باقی سب مسلمان ممالک ہیں۔
پاکستان میں دوسرے صوبوں کی نسبت پنجاب میں سب سے زیادہ پھانسیاں( 83 فی صد) دی گئی ہیں۔ پنجاب میں سزائے موت پانے والوں کی تعداد بھی دوسرے صوبوں کی نسبت زیادہ ہے(89فی صد)ہے۔ ان تمام پھانسیوں اور سزائے موت کے باجوود قتل کی وارداتوں میں 2015-2016 کے درمیانی عرصہ میں محض 9.7 فی صد کمی ہوئی جس کا مطلب ہے کہ سزائے موت میں اضافہ سے قتل کی وارداتوں میں کمی واقع نہیں ہوتی۔
پنجاب کی نسبت سندھ میں قتل کی وارداتوں میں 25 فی صد کمی واقع ہوئی ہے حالانکہ پنجاب کی 382 پھانسیوں کی نسبت وہاں صرف 18افراد کو پھانسی دی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ سزائے موت پر عائد عارضی پابندی اٹھانے سے قبل ہی قتل کی وارداتوں میں کمی کا رحجان دیکھا جارہا تھا۔
دسمبر 2014 میں آرمی پبلک سکول پر ہونے والے حملے کے بعد جب حکومت نے سزائے موت پر پابندی اٹھائی تو موقف اختیار کیا کہ دہشت گردوں کی سزائے موت پر عمل درآمد نہ ہونے سے دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور اگر دہشت گردی کو روکنا ہے تو سزائے موت پر عائد پابندی کو ختم کرنا ہوگا۔
لیکن اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ یہ دعویٰ درست نہیں تھا۔ پھانسی دینے کے باوجود دہشت گردی کے واقعات نہ صرف جاری رہے بلکہ بعض صورتوں میں ان کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ ابتدائی طور پر حکومتی اہلکاروں نے دہشت گردوں کو پھانسی دینے کا اعلان کیا تھا لیکن مارچ 2015 میں سزائے موت کے تمام قیدیوں کو پھانسی دینا شروع کر دیا گیا ۔
انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق اپریل 2016 تک 389 افراد کو پھانسی دی گئی تھی ان میں صرف 49 افراد ایسے تھے جنھیں دہشت گردی کی عدالتوں نے سزائے موت دی تھی جب کہ 12کو فوجی عدالتوں نے سزائے موت سنائی تھی۔ ان کے علاوہ باقی وہ تھے جنھیں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز نے سزائے موت دی تھی ۔
ان اعداد و شمار کے مطابق صرف 10فی صد پھانسی پانے والے دہشت گرد تھے جب کہ 73 فی صد عام مجرم تھے۔یہ اعداد و شمار کے حکومت کے یہ دعوے کہ سزائے موت پر پابندی کی بنا پر دہشت گردی کی وارداتوں میں اضافہ ہورہا تھا، کو غلط ثابت کرتے ہیں کیونکہ دہشت گردی کے جرم میں سزائے موت پانے والوں کی تعداد تو انتہائی معمولی تھی۔
پاکستان کا تفتیشی اور عدالتی نظام فرسودہ ، بے کار اور کرپشن میں گوڈے گوڈے دھنسا ہوا ہے۔ کسی غریب شخص کا اس کی ظالمانہ گرفت سے چھٹکارا حاصل کرنا ناممکن ہے لیکن صاحب ثروت کو اس سے کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ ہماراتفتیش کا نظام کس قدر ناقص اور تفتیش کرنے والے کتنے نالایق ہیں اس کا اندازہ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلوں سے لگایا جاسکتا ہے۔
قتل کے ملزموں کو بری کرتے ہوئے معزز جج صاحبان نے غلط اور ناقص تفتیش کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ ہمارے تفتیش کار بے گناہ افراد کو قتل کے مقدمات میں پھنسادیتے ہیں۔ ہماری ماتحت عدلیہ اپنے اختیارات استعمال کرنے کی بجائے ان بے گناہ افراد کو سزائے موت سنا دیتی ہیں۔
سپریم کورٹ نے بعض ایسے افراد کو بری کرنے کا حکم دیا جن کی سزا پر عمل درآمد کرتے ہوئے انھیں پھانسی دی جاچکی تھی یا پھر وہ اپیل زیر التوا ہونے کے دوران جیل میں انتقال کر چکے تھے۔
پاکستان میں سزائے موت کی قیدیوں کی تشویش ناک حد تک زیادہ ہے۔ ملک کی مختلف جیلوں میں اس وقت آٹھ ہزار افراد سزائے موت کے قیدی ہیں۔ سزائے موت کے قیدی کو عدالتی کاروائی کے اختتام اور رحم کی اپیل پر فیصلے تک تقریبا گیارہ سال جیل میں گذارنا پڑتے ہیں۔ یہ عرصہ کسی بھی انسان کو ذہنی اور جسمانی مریض بنانے کے لئے کافی ہے۔
ضرورت اس امر کی سزائے موت کو ختم کیا جائے لیکن جب تک سزائے موت ختم نہیں کی جاتی اس وقت تک اس پر حسب سابق پابندی کر دی جائے تاکہ بے گناہ اور غریب افراد جو غلط تفتیش کی بنا پر قتل کے مقدمات میں ملوث ہوکر سزائے موت پاچکے ہیں ناکردہ گناہوں کی بنا پر موت کی وادی میں نہ جاسکیں۔
♦