داعش کے ٹوٹنے سے القاعدہ کی طاقت میں اضافہ

پچھلے ایک ماہ کے دوران شامی فورسز اور داعش کے عسکریت پسندوں کے مابین ہونے والی لڑائی کے دوران متعدد راتوں میں تقریبا دس ہزار سے زائد مرد، خواتین، اور بچے داعش کا علاقہ چھوڑ القاعدہ کے زیر کنٹرول علاقے میں پہنچ گئے تھے۔

نیوز ایجنسی اے پی کی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق ان عام شہریوں کے ساتھ ساتھ داعش کے عسکریت پسند بھی فرار ہو کر شامی صوبہ ادلب میں پہنچ رہے ہیں۔ اس صوبے کے زیادہ تر حصوں پر القاعدہ سے منسلک جہادی تنظیم تحریر الشام کا کنٹرول ہے۔  ایک سال قبل یہ جہادی تنظیم النصرہ فرنٹ کے نام سے مشہور تھی۔

 ایک ایسے وقت میں جب امریکا، روس اور شامی فورسز ملک کے مشرق میں داعش کا صفایا کرنے میں مصروف ہیں، صوبہ ادلب میں القاعدہ سے منسلک جہادی گروپوں کی طاقت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق اگر یہ تنظیم مزید طاقتور ہوتی ہے تو یہ مغرب پر حملے کرنے کی اسامہ بن لادن کی اسٹریٹیجی کو اپنا مقصد بنا سکتی ہے۔ نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق تحریر الشام داعش کے فرار ہو کر آنے والے عسکریت پسندوں کو اپنی تنظیم میں شامل ہونے کی اجازت دی رہی ہے کیوں کہ ان میں سے بہت سے عسکریت پسند وہ ہیں، جو چار برس قبل جہادی گروپوں کی تقسیم سے بھی پہلے سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔

شام اور عراق میں  داعش کی شکست کے بعد ہزاروں عسکریت پسند فرار ہو چکے ہیں جبکہ داعش کے اندر بھی دراڑیں پیدا ہو چکی ہیں۔ لندن اسکول آف اکنامکس کے پروفیسر اور داعش سے متعلق ایک کتاب کے مصنف فوز گریگس کہتے ہیں، ’’القاعدہ داعش کے ممبرز کو کھلے بازوؤں کے ساتھ خوش آمدید کہے گی۔ یہ سبھی جنگی میدان میں سخت لڑائی کا تجربہ رکھتے ہیں۔‘‘

تجزیہ کاروں کے مطابق جہاں داعش کے خلاف کارروائیوں میں اضافہ اور اس گروپ کے مابین دراڑیں پیدا ہوئی ہیں، وہاں حالیہ کچھ عرصے کے دوران القاعدہ کے عسکریت پسندوں میں اتحاد پیدا ہوا ہے۔ القاعدہ سے شام کے چھوٹے چھوٹے علاقائی گروپ بھی الحاق کر رہے ہیں، جس سے اس گروپ کو مقامی سطح پر حمایت حاصل ہوتی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ القاعدہ سے قربت رکھنے والے جنگجو عام شہریوں کو خوراک کے ساتھ ساتھ کئی دیگر طرح کی سروسز بھی فراہم کر رہے ہیں۔

القاعدہ سے منسلک جنگجوؤں کا مرکزی ہدف ابھی تک بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ ہی ہے لیکن یہ امریکی حمایت یافتہ متعدد چھوٹے گروپوں کو بھی شکست دے چکے ہیں۔ النصرہ فرنٹ نے گزشتہ برس القاعدہ سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے اپنا نام تبدیل کر کے تحریر الشام کر لیا تھا لیکن تجزیہ کاروں کے مطابق اس تنظیم کی ہمدردیاں ابھی تک القاعدہ کے ساتھ ہی وابستہ ہیں۔

عراقی خفیہ ایجنسی کے ایک عہدیدار کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا کہ حال ہی میں القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری نے شام میں ایک وفد بھیجا تھا تاکہ داعش کے عسکریت پسندوں کو القاعدہ میں شمولیت کے لیے قائل کیا جا سکے۔

 تجزیہ کاروں کے مطابق داعش کی طاقت میں زبردست کمی اور القاعدہ کی طاقت میں اضافے کے بعد اب امریکا، روس اور شامی فورسز القاعدہ کے خلاف توجہ مرکوز کر سکتی ہیں۔

DW

Comments are closed.