طارق احمد مرزا
عمران خان نے نیب سے معافی کیا مانگی،یارلوگوں کو بیان بازی کا ایک اور موقع ہاتھ آگیا۔واضح رہے کہ یہ تحریر کسی سیاسی شخصیت کی توصیف یااس پر تنقید کی غرض سے نہیں لکھی جارہی۔عمران خان تو پہلے بھی کئی دفعہ معافی مانگ چکے ہیں،مثلاًایک عالمی شہرت یافتہ احمدی اکنانومسٹ میاں عاطف کو نئے پاکستان کا مشیر برائے اکانومی مقررکرنے کی تجویز پیش کرنے کے بعد اپنی پارٹی اور نئی پاکستانی قوم سے معافی مانگ لی تھی۔
اصل میں ہمارا معاشرہ معافی مانگنے اورمعاف کرنے کانہ عادی ہے نہ عادی ہونا چاہتا ہے۔یہاں کسی کی طرف سے معافی مانگنے پر لوگوں کی بے ساختہ طنزیہ ہنسی نکل جاتی ہے،بلکہ اخبارات ،ٹی وی،فیس بک،ٹؤٹر وغیرہ پر انواع واقسام کے تبصروں کاایک طومارباندھ دیا جاتا ہے ،حالانکہ ا للہ خود بھی باربار معاف کرتا اورباربار توبہ قبول کرتا ہے اوردانستاً یا غیردانستاً کی گئی غلطیوں پر نادم ہونے والوں،معافی مانگے والوں ،معاف کرنے والوں اور احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے لیکن شاید ہم ابھی اتنے اعلیٰ مقام پہ نہیں پہنچ پائے۔
بقول مولانا طارق جمیل ہم بنی اسرائیل کی طرح کچے اور کمزور ایمان والے ہیں،ہماری انا،ہٹ دھرمی، ڈھٹائی ،کینہ، بغض، حسد، غیرت، روایات، اقدار، برادری، جھوٹی عزتیں معافی مانگنے اور معاف کرنے کے بارہ میں اسلامی تعلیم کو اپنانے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔
افسوس اس بات کا ہے کہ کیا قومی اور کیا ملی رہنما،کیاجوان اور کیابزرگ سیاستدان،کیالکھنے لکھانے والے،کیا لبرل اور کیارجعت پسند،شیروانیوں یا واسکٹوں والے،جبہ و عمامہ پوش اور کیا تھری پیس سوٹ پہننے والے،کیا عوام اور کیا خواص،سبھی اس مہم میں پیش پیش نظر آتے ہیں کہ کسی طرح سے معافی مانگنے والے کو مزید ذلیل کیا جائے۔یہی نہیں بلکہ اس معافی کو ’’اقرارجرم‘‘قرار دے کر قانون ہاتھ میں لیتے ہوئے سرعام اس کی تواضح مکے ،تھپڑ،لاتوں ،ڈنڈوں سے اس طرح کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس کے بعد وہ جینے کے قابل ہی نہ رہ سکے۔اگر جسمانی طور پر نہیں تو سیاسی اور معاشرتی موت کے انجام تک ضرور پہنچادئے جانے کی سعی کی سعادت حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔
عمران خان کے معافی مانگنے پر عائشہ گلالئی کا رد عمل تو کوئی اچنبھے کی بات نہ تھی لیکن ہمارے ’ بزرگ ‘ سیاستدان جناب سید خورشید شاہ صاحب کا یہ فرمان کہ ’’معافی مانگنے والے سیاستدانوں کو سیاست کرنے کا کوئی حق نہیں‘‘ (روزنامہ ایکپریس ۔29 اکتوبر 2017 ) ضرورچونکا دینے والا ہے۔دنیا بھر کے ترقی یافتہ جمہوری ممالک کے سیاستدان دیانت داری سے اپنی غلطیوں اور نادانیوں پر اپنی قوم بلکہ غیر قوموں سے بھی معافی مانگتے رہتے ہیں اور سیاست میں بھی رہتے ہیں اور اپنی غلطیوں کا اعتراف کر کے اس پر معافی مانگنا ہی ان کی بڑائی کو ثابت کرتا ہے۔
انسان اگر خطا کا پتلا ہے تو معافی کا بھی حقدار ہے۔معافی نہ مانگنے والے مغرور،ہٹ دھرم اور ڈھیٹ سیاستدانوں میں نمایا ں نام صدر بش کا ہے جنہوں نے ناگا ساکی اور ہیروشیما پرایٹم بم گرانے پر امریکہ کی طرف سے معافی مانگنے سے انکار کردیا تھا۔اس کے برعکس صدر کلنٹن نے اپنی سٹاف مونیکا لیونسکی کے ساتھ جذباتی ہوجانے پر اپنی اہلیہ اور قوم سے سرعام معافی مانگی تھی اور دوبارہ صدارتی انتخاب جیت کرمزید چار سال سپر پاورکے صدر رہے۔
شاید کلنٹن کے اس فعل اوراس پرمعافی کایہاں ذکر کرنے پر بھی کسی قاری کی بے ساختہ طنزیہ ہنسی نکل جائے اس لئے ابراہام لنکن کی اس اعلانیہ معافی کا ذکر کرنا نامناسب نہ ہوگا جو انہوں نے امریکی خانہ جنگی کے شکارافراد اور ان کے اہل خانہ سے مانگی تھی،اور اس کے بعد بھی سیاست میں رہے۔
روسی صدرپوٹن نے 2002 میں دہشت گردی کے ایک واقعہ پرقوم سے معافی مانگی تھی۔پچھلے ماہ ستمبر میں ایک کینیڈین ممبرپارلیمنٹ نے ایک خاتون وزیر کی توہین کرنے کے بعدسرعام معافی مانگی تھی۔ آسٹریلیا کے تین ممبر ز پارلیمنٹ نے جون 2017 میں توہین عدالت کی سزا سے بچنے کے لئے ریاست وکٹوریہ کی سپریم کورٹ سے معافی مانگی اور معافی پا ئی،سیاست جاری رکھی۔
دور کیوں جائیں،خورشید شاہ صاحب غالباً بھول چکے ہیں کہ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹوزرداری نے بھی پارٹی کے مایوس کارکنان اورہمدردوں سے کھلے عام معافی مانگی تھی (ڈان نیوز۔ 29 ستمبر2014)۔اگر خورشید شاہ صاحب کا نظریہ درست ہے تو پھر اس کا اول مخاطب تو ان کے اپنے چیئرمین ہی ٹھہرتے ہیں ۔کیا معافی مانگنے کے بعد بلاول بھٹوزرداری بھی سیاست کے حق سے محروم ہوچکے ہیں؟۔
حقیقت تو یہ ہے کہ بلاول کاذکرکرنے کی بھی ضرورت نہیں،خود خورشید شاہ صاحب اسی سال یعنی 2014 میں ہی لفظ ’’مہاجر‘‘کوایک مخصوص حوالے سے استعمال کرنے پر غیر مشروط اعلانیہ معافی مانگ چکے ہیں(ڈان نیوز ۔ 17اکتوبر 2014 )۔
غالباً سنہ 2014 پیپلزپارٹی کا ’’عام العفو‘‘ (معافی کا سال) تھا۔اس کے بعدپھر کیا ہوا۔ پھر یہ ہوا کہ معافی مانگنے کے بعد بھی شاہ صاحب بدستور سیاست کرتے رہے اور وہ دن بھی آگیا جب بھری اسمبلی میں اپنے تئیں مذاق کرتے ہوئے مبینہ طور پر خواتین کی ہتک کے مرتکب ہو گئے اورمحترمہ آصفہ بھٹو زرداری کو فوری طور پر ٹویٹ کرناپڑا کہ خورشید شاہ صاحب فوراً اپنے اس عمل پر خواتین سے معافی مانگیں(نیشن ڈاٹ کام،3 اپریل 2017 )۔اپنے ٹویٹ میں آصفہ نے لکھا:
If Parliament is a model of our society and if our parliament continues to make derogatory remarks against women. It reflects on us.
مزید لکھا کہ :۔
Such remarks should not be tolerated. Hope Khurshid Shah respectfully apologises
خورشید شاہ صاحب نے آصفہ بھٹو زرداری کے اس ٹویٹ شدہ مطالبہ کا نوٹس لینا ضروری سمجھا ہو یا نہیں ، آصفہ بھٹوزرداری کو خورشید شاہ صاحب کو معافی مانگنے پر مجبور کرکے انہیں سیاست کرنے کے حق سے محروم کردینے کی کوشش سے باز رہنا چاہئے کیونکہ ان کے نزدیک معافی مانگنے والے سیاستدانوں کوسیاست کرنے کاحق نہیں !۔
♦