لیاقت علی
کچھ کتابیں ایسی ہیں جنھوں نے دنیا کو بدل ڈالا۔ ان کے اشاعت پذیر ہونے کے بعد دنیا وہ نہ رہی جو ان کے منصہ شہود پر آنے سے پہلے تھی۔ انھوں نے دنیا اور انسانیت کو مثبت انداز میں متاثر کیا۔ ان کتابوں میں ایک کتاب جس نے بنی نوع کو بہت زیادہ متاثر کیا وہ چارلس ڈارون(1809۔1882) کی کتاب “اوریجن آف سیپی شیز” تھی۔
یہ کتاب 1859 میں چھپی تھی اور اس نے چھپتے ساتھ ہی سائنسی اور علمی حلقوں میں تہلکہ مچادیا تھا۔اپنی اس کتاب میں ڈارون نے بتایا تھا کہ زندگی کی مختلف اشکال جو ہم اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں خواہ وہ جانورہوں، چرند پرند ہوں یا پھر انسان سبھی ارتقائی سفر طے کرکے اپنی موجودہ صورت میں متشکل ہوئی ہیں۔
ڈارون کی سائنسی دریافت نے تخلیق کے الوہی نظریئے کوزک پہنچائی اور انسان کی موجودہ صورت کو ارتقا کا حاصل قرار دیا۔ ڈارون کے نظریہ ارتقانے انسان کی فکری زندگی میں انقلاب برپا کردیا اور اس نے مافوق الفطرت قوتوں پر بھروسہ کرنے کی بجائے خود پر اعتماد کرنا شروع کردیا۔
دوسری کتاب جس نے ڈارون کے نظریئے کا اثبات کرتےہوئے اسے سماج اور اس کے پیداواری نظام پر منطبق کیا وہ کارل مارکس(1818-1883) اور اس کے ساتھی اینگلز کی سرمایہ تھی۔ کارل مارکس کی سرمایہ 1867 میں چھپی تھی اور اس کو لکھنے میں کارل مارکس نے اپنی زندگی کے بہترین ماہ و سال صرف کئے تھے۔ ان سالوں میں عسر ت و تنگ دستی نے کارل مارکس کی زندگی کو اجیرن بنائے رکھا تھا۔
کارل مارکس کی کتا ب نے سرمایہ داری نظام معیشت کو سمجھنے میں وہی کردار ادا کیا جو ڈارون کی کتاب نے انسانی ارتقا کی تفہیم میں کیا تھا۔ کارل مارکس نے ثابت کیا کہ مزدوروں کی محنت ہی ہے جو انسانی سماج کی ترقی اور خوشحالی میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے اور انسان کی موجودہ ترقی اس کی محنت ہی کا نتیجہ ہے۔ کارل مارکس کے نظریات سے متاثر ہوکر دنیا بھر کے عوام نے ایک بہتر سماج کی تشکیل کے لئے جد وجہد کا آغاز کیا جو ہنوز جاری ہے۔
تیسری کتاب سگمنڈ فرائڈ کی تھی جس نے بنی نوع انسان کی سوچ و فکر اور اس کی نفسیاتی پیچیدگیوں اور الجھنوں کو سمجھنے اور ان کے حل ڈھونڈنے کی راہیں سجھائیں۔ یہ وہ کتابیں تھیں جنھوں نے بنی نوع انسان کی ترقی، خوشحالی اور فرد کے شخصی مسائل اور ان کے حل کے راستے تلاش کرنے میں مدد کی تھی۔ لیکن کچھ کتابیں ایسی بھی تھیں جن کی بدولت بنی نوع انسان کی نہ صرف ترقی و خوشحالی کے تصور کو نقصان پہنچا بلکہ اس سے لاکھوں لوگ بغیر کسی قصور موت کے منہ میں چلے گئے۔
ان میں ایک کتاب گوبینو کی تھی جس میں اس نے سفید فام اقوام کی برتری کا نظریہ پیش کیا تھا یہ کتاب 1852 میں شائع ہوئی تھی۔ یہ کتاب سامراجیوں کے لئے کتاب مقدس کا درجہ رکھتی تھی کیونکہ یہ ان کی قبضہ گیری کو نظریاتی جواز فراہم کرتی تھی۔ ہربرٹ سپنسر نے ڈارون کی تھیوری کو فلسفے کی زبان میں بیان کیا اور کہا کہ صرف طاقتور قوموں ہی کو زندہ رہنے کا حق حاصل ہے۔
ایک کتاب جس نے مسلمانوں میں تحقیق و جستجو اور اجتہاد کے دروازے بند کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا وہ غزالی کی احیاالعلوم تھی۔غزالی نےاپنی اس کتاب میں مذہب کی کسی بھی نئی تفسیر کو ہمیشہ کے لئے مسترد کر دیا تھا۔ وہ قرون اولی کی مذہبی فکر کے داعی تھے اور اس کی پیروکاری کے مبلغ۔
غزالی کی احیاالعلوم نے مسلمانوں میں فکری اجتہاد کو بند کرنے میں بہت اہم رول ادا کیا اور مذہبی اور نظریاتی جمود کو پروان چڑھانے میں کلیدی رول ادا کیا۔ یہ غزالی کی احیاالعلوم ہی تھی جس نے مذہبی جمود کو پروان چڑھایا اور روایت پرستی کو اصل دین قرار دیتے ہوئے فکر نو کو زندیقی اور کفر قرار دیا تھا۔
♦
2 Comments