چین کے صوبے سنکیانگ میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی سرگرمیوں کے بعد چینی حکومت نے سنکیانگ کے مسلمانوں پر مزید پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ چینی حکام کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کی مذہبی کتاب، قرآن میں شدت پسند مواد موجود ہےجس کی وجہ سے حکومت اسے ضبط کرنے پر مجبور ہے۔
بی بی سی کی جانب سے شائع ہونے والی اس خبر کو ایک ہفتہ سے زائد ہوچکا ہے لیکن دنیا بھر کے مسلمان ممالک یا مذہبی تنظیموں نے چینی حکومت کے اس اقدام کو نظر انداز کر دیا ہے ۔ کوئی بھی مسلم ملک یا تنظیم چینی حکومت کے اس اقدام پر احتجاج کرنے کو تیار نہیں۔اگر یہی اقدام کسی مغربی ملک نے اٹھایا ہوتا تو دنیا بھر میں ایک کہرام مچ چکا ہوتا۔
بی بی سی کے مطابق چین کے صوبے سنکیانگ سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق چینی حکام نے مقامی مسلمان آبادی کو حکم دیا ہے کہ وہ تمام مذہبی اشیا بشمول مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن اور جائے نماز حکام کے حوالے کر دیں۔
خبر رساں ادارے ریڈیو فری ایشیا کے مطابق صوبے میں جہاں زیادہ تر اویغور، قزاک، اور کرگز نسل کے مسلمان رہائش پذیر ہیں، وہاں حکام نے مقامی مساجد اور محلوں میں اعلان کروایا ہے کہ رہائشی فوری طور پر ان احکامات پر عمل کریں ورنہ انھیں سخت سزا دی جائے گی۔
گذشتہ بدھ کو قزاکستان کی سرحد کے قریب آلٹے کے علاقے سے ایک شخص نے بتایا کہ دیہات، ضلع اور کاؤنٹی سطح پر تمام قرآن ضبط کیے جا رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اس علاقے میں تقریباً ہر گھر میں قرآن اور جائے نماز ہے۔
ادھر ورلڈ اویغور کانگریس کے ترجمان دلژت راژت کا کہنا ہے کہ اسی طرح کی اطلاعات کاشغر، ہوتان اور دیگر علاقوں سے گذشتہ ایک ہفتے
سے مل رہی ہیں۔انھوں نے کہا کہ انھیں نوٹیفیکیشن موصول ہوا ہے کہ ہر اویغور کو اسلام سے متعلق تمام اشیا جمع کروانی ہوں گی۔انھوں نے کہا کہ پولیس یہ اعلانات سوشل میڈیا پیلٹ فورم وی چیٹ پر کر رہی ہے۔
اس سال کے آغاز میں سنکیانگ میں حکام نے پانچ سال سے زیادہ عرصہ پہلے چھپنے والے تمام قرآن یہ کہہ کر ضبط کر لیے تھے کہ’ان میں شدت پسند مواد‘ ہو سکتا ہے۔
اطلاعات کے مطابق مہم ’تھری الیگل اینڈ ون آئٹم‘ کے تحت غیر قانونی قرار پانے والی اشیا میں مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن سمیت تمام مذہبی کارروائیوں اور ممکنہ دہشت گردی کے آلات جیسے کہ ریموٹ کنٹرول کھلونے، بڑی چھریاں اور آتش گیر مواد پر پابندی لگائی گئی تھی۔
♠
One Comment