پاکستان کو ہندوستان اور افغانستان کے کچھ حصے کاٹ کر، چھوٹی چھوٹی ریاستوں اور بنگال کو ملا کر ایک ملک بنایا گیا۔ کس نے بنایا کیوں بنایا اس بحث میں جائے بنا اس بات پہ سوچیں کہ اسلام کے نام پہ بننے والا قلعہ ۲۵ سال میں دولخت کیوں ہوا اور اگر ہم اس بات کو سنجیدہ لینے کو تیار ہیں تو محمود خان اچکزئی کی باتوں کو سنجیدہ لینا پڑےگا۔
موجودہ دور میں اگر اس خطے اور پاکستانی سیاستدانوں میں کوئی سیاسی لیڈر بصیرت اور منطق کی بات کرتا ہے تو ان میں سے ایک نام محمود خان اچکزئی کا ہے۔ اس ملک میں رہنے والے زیادہ تر لوگوں کو اس کی بات سے اختلاف ہو سکتا ہے پر ان لوگوں کو کبھی نہیں ہو سکتا جو ان کی بات سمجھتے ہیں۔
محمود خان اچکزئی کہیں دہائیوں سے ایک بات کہتے چلے ارہے ہیں کہ ہر ادارہ اپنے دائرے میں رہ کر کام کرے اور طاقت کا سرچشمہ پارلیمان ہونا چائیے۔ ان کی اس بات کو اس وقت کوئی نہیں سمجھ سکا اور آج سب اس بات پہ متفق ہیں کہ ہر ادارے کا اپنے دائرے سے نکال جانے کے کیا نقصانات ہوتے ہیں۔
محمود خان اچکزئی یہ بات اپنی سیاسی بصیرت کی بنیاد پہ کرتے رہے ہیں اور باقیوں نے اس کا خمیازہ بھگتا، ٹھوکریں کھائیں، ادھا ملک اور کہیں سیاسی لیڈران کی قربانی دے کر اس بات پہ متفق ہوئے ہیں۔ لیکن اب بھی بہت سوں کو ادراک نہیں یا پھر سمجھنا ہی نہیں چاہتے۔
اگست کو اسمبلی کے فلور پہ انھوں نے کہا تھا کہ ’’جمہوری اور غیر جمہوری قوتوں کی آخری لڑائی شروع ہونے والی ہے لڑائی کا یہ مطلب نہیں کہ بندوق اٹھائیں ایک دوسرے کو ماریں۔ ہمارا اس ملک میں رہنے والی اقوام کا ایک دوسرے کے ساتھ رشتہ آئین کے علاوہ کوئی نہیں۔ اس آئین کی ضمانت ہی اس ملک کو بچا سکتی‘‘۔
چمن بارڈر پہ رہنے والے پشتون کا، بدین کے سندھی کے ساتھ آئین کے سوا اور کونسا رشتہ ہے جس پہ ہم یہ کہے کہ ہم ایک قوم ہیں۔ مذہب کا رشتہ توہمارا سارے عالم اسلام کے ساتھ ہیں۔ اگر آپ اس آئین کو چھیڑیں گے تو ہمارا کوئی بھی دوسرا رشتہ نہیں رہے گا۔ اگر اس آئین کو نکال دیا جائے تو پشتونوں کا قومیت، اسلام اور کلچر کا رشتہ افغانستان سے زیادہ گہرااور پرانا ہے۔
محمود خان اچکزئی کا آئین سے پاسداری اور وفاداری کا درس لوگوں کو شاید اتنی اچھا نہ لگے لیکن وقت اسکا ادراک کرا دے گا لیکن میری دعا ہے کہ مزید تلخ تجربات سے پہلے ان کی بات کی حساسیت اور اہمیت کا اندازہ کر کے خود کو پاکستانی قوم کہنے والا یہ ہجوم کسی ایک بات پہ اتفاق کرلیں نہیں تو بہت دیر ہو جائے۔
محمود خان اچکزئی نے ایک تجویز دی تھی کہ آئین میں ترمیم کر کے ایک شق کا اضافہ کیا جائے کہ ’’جس دن کسی نے بھی آئین کو چھیڑا اسی لمحے فیڈریشن کا تصور ختم ہو۔‘‘۔ اس تجویز کو کسی نے سنجیدہ نہیں لیا جبکہ یہ ایک آئینی ضمانت ہوگی ان اقوام کے لیے جو اپنا سب کچھ داؤ پہ لگا کرنام نہاد اور خود ساختہ اسلام کے نعرے پہ متفق ہوئے ہیں۔ لیکن خالی اور کھوکھلے نعروں سے کچھ نہیں بنے گا۔ ان نعروں پہ تو آپ پاکستان جو ایک غیر فطری ریاست تھی اسکو پچیس سال تک سلامت نہ رکھ سکے۔ بقول محمود خان کے اتنے عرصے میں ایک اچھی سائیکل بھی نہیں ٹوٹتی جتنے عرصے میں ہمارا ملک ٹوٹ گیا۔
جذباتی اور جھوٹ موٹ کی داستانوں پہ آپ کب تک اپنی ساکھ اور بساط بچائے رکھو گے۔ پاکستان کی سب سے بڑی اکائی سے جب نئے عمرانی معاہدے کی آواز اٹھے تو اسکا مطلب کہ آپ کے جھوٹ میں اب وہ دم خم نہیں رہا۔ ہر چیز کے ساتھ مذاق کر لیں لیکن آئین کے ساتھ نہیں۔
بقول محمود خان اچکزئی کہ ڈکٹیشن ہوگی تو صرف اس پارلیمنٹ کی ہوگی۔ اور سب کو اس کی بات ماننی پڑے گی نہیں تو اس ملک کو نہ تو بندوق چاچا بچا سکے گا نہ ہی کالا کوٹ۔ اس کو ایک حقیقت مان کر اگر اس پہ ہی اتفاق کی جائے کہ آج تک جو بھی کچھ اگر غلط کر چکے ہیں اس پہ توبہ کریں اور آگے کی طرف دیکھیں اپنی غلطیوں سے سیکھیں اور اس خطے اور دنیا میں اب کچھ اچھا کرنے کا ارادہ کر لیں تو اس خطے سے بہترین خطہ کوئی نہیں۔
سب کو پتہ ہے کہ پاکستان کیسے بنا اور مختلف اقوام کو لارا لپا دے کر جذباتی نعروں اور جھوٹی داستانوں سے ایک ساتھ رہنے کی تکرار بہت ہو چکی۔ اب ہمیں ایک بات پہ اتفاق کر کے آئین کی ضمانت دینی پڑے گی۔ ۱۱ اگست کو تو اس شریف آدمی محمد علی جناح نے کہہ دیا تھا کہ یہ ملک سب کا ہے لیکن ان کی باتوں کو آج بھی کسی نے دل سے تسلیم نہیں کیا۔
♥