ثقافت سے تمدن تک ارتقاء کاسفر

پائند خان خروٹی

ہمارے اکثر مقامی دانشور حضرات اور فل برائیٹ پروفیسر ز اپنی روایت اور اردگرد کے ماحول سے اس قدر متاثر بلکہ مغلوب ہوچکے ہیں کہ اس سے آگے دیکھنے کی صلاحیت کھو بیٹھے ہیں ۔ اپنی کم علمی ، کم مائیگی اور محدود تناظر کے باعث وہ آفاقی سچائیوں اور انسانی اقدار کی ہمہ گیری اور وسعت کو قبول کرنے سے قاصر رہتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے اہل قلم اکثر اپنے خلقی فوالکلور کوجدید انٹر نیشنل لٹریچر کے مقابلے پر کھڑا کرنے کی سعی کرتے ہیں، مقامی وقبائلی شخصیات کو بڑھا چڑھا کر پوری انسانیت کے مشترکہ ہیروز کے مساوی کھڑا کرنے کی ناکام کوشش میں مصروف رہتے ہیں ۔ 

علاقائی کلچر کو طویل ثقافتی اور تہذیبی سفر کانچوڑ بین الاقوامی مشترکہ انسانی تمدن کے مقابلہ میں لاکھڑا کرتے ہیں ۔ اس کے نتیجے میں عام ذہنوں میں ابہام پیدا ہوتا ہے اور خود مقامی دانشور او ر کلچر کو شدید دھچکا لگتا ہے ۔ ایک جانب یہ حضرات آفاقی سچائیوں اور جدید علوم تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں اور دوسری جانب یہ اپنے مستقبل کو خطرات میں ڈال کر خودبھی قبل از وقت مرجاتے ہیں ۔

زیر نظر موضوع کلچر اینڈ سویلائزیشن پر بحث کا مقصد ان دونوں اصطلاحات کی مائیت اور تاریخ کے حوالے سے علیحدہ علیحدہ تفہیم حاصل کرنا ہے ۔ انگریزی کے ان دونوں الفاظ کے ترجمے ثقافت ،تہذیب اور تمدن کواردو زبان میں اکثر ایک ہی معنی میں استعمال کیاجاتا ہے جس کی وجہ سے اس کے بارے میں عام قاری کے ذہن میں درست توضع موجود نہیں ۔ کلچر کالفظ لاطینی زبان کے الفاظ کلتورا، کلٹی ویشن سے ماخوذ ہے جس کاتعلق زمین کی زرخیزی اور کھیتی باڑی یعنی زرعی معاشرے سے ہے ۔ اس کے مقابلے میں سویلائزیشن کالفظ (سویز)سے ماخوذ ہے جس کے معنی مدنیت ہے اس کاتعلق شہری زندگی سے ہے ۔ اس طرح سویلائزیشن میں تعمیرات ،ٹیکنالوجی ، ایجادات ، تجارتی مراکز اور جدید علم وہنر کو بنیادی حیثیت حاصل ہے ۔ 

مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں یہ بات باآسانی کی جاسکتی ہے کہ انسانی زندگی میں تبدیلی کاتعلق پیداواری ذرائع اور رشتہ پیداوار میں تبدیلی سے ہوتا ہے ۔ انسانی زندگی کے تمام شعبوں میں رجحانات کاتعین اس دور میں موجود طریقہ پیدا وار کی بنیاد پر ہوتا ہے ۔ لہذا طریقہ پیداوار کاشعور حاصل کیے بغیرمعاشرے کی ساخت اور اس میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو سمجھنا ممکن ہی نہیں ہے ۔ اردو کی معروف علمی وادبی شخصیت ڈاکٹر جمیل جالبی کراچی جیسے بڑے جدید صنعتی شہر میں رہتے ہوئے اور جدید تہذیب وتمدن سے استفادہ کرنے کے باوجود اپنی کتاب (1) میں یہ رائے دیتے ہیں کہ کلچر کُل ہے جبکہ باقی تمام مظاہر اس کے ہی حصے ہیں ۔ یہ صرف موجود طریقہ پیدوار سے ناواقفیت اور پیداواری رشتوں سے لاعلمی کانتیجہ ہے ۔

کلچر یاکلتور کو اگر تاریخی پس منظر میں دیکھا جائے جب انسان نے وحشی وجنگلی زندگی کو ترک کرکے منظم انسانی زندگی کاآغاز کیا تو اس سے اپنی اجتماعی نشو ونما اور تحفظ کیلئے معیشت ، سماجی زندگی اور نظم وضبط کو رواج دینا شروع کیا ۔ اس سلسلے میں جانوروں کو پالتو بنایا گیا ۔ اس سے باقاعدہ انسانی ضروریات پوری کی جانے لگی ۔ زمین کو قابل کاشت بنایا گیا ۔ اجناس پیدا ہونے لگیں تب انسان نے اپنے ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ذرائع کو برقرار رکھنے اور ترقی دینے کی غرض سے تقسیم کار اور اشیاء کو منظم کرنا شروع کیا ۔ محنت اور اشتراک کے نتیجے میں ایک منظم زرعی معاشرے کی بنیاد پڑی ۔یہی سے مخصوص رسم ورواج، ضابطے اور پھر کلچر کاآغاز ہوا ۔

اشتراک اور اجتماع کے بعد انسان نے اپنی بود وباش اور اضافی پیداوار حاصل کرنے کی کوششیں شروع کیں ۔ اس سلسلے میں تاریخ بتاتی ہے کہ انسانی آبادیوں کاباقاعدہ آغاز ان علاقوں سے ہوا جو دریاؤں سے متصل تھے ۔ ایسے علاقوں میں زرعی زندگی کی نشو ونما اور ترقی کے قدرتی مواقع موجودتھے جہاں انسان نے رہنے کیلئے مزید محفوظ عمارات تعمیر کرنے شروع کیں اور ضرورت سے زائد ہونے والی پیداوار کو منافع میں تبدیل کرنے کیلئے تجارتی منڈی کا آغاز کیا ۔انسانی آبادی کے استحکام اور تجارت کی وسعت نے تمدن کے ابتدائی نقوش اُبھارے ۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر مورخین اسے’’ دریاؤں کے تمدن ‘‘کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔

قدیم تہذیبی وتمدنی آثار کے بارے میں اب تک جو حقائق سامنے آئے ہیں ان کے مطابق سب سے بڑا تمدنی مرکز موجودہ ملک عراق سے مصر تک کاخطہ بتایا جاتا ہے جس نے دریائے فراط ، دجلہ ، نیل کے ساتھ ساتھ معروف شہر اُور،بابل ، دمشق وغیرہ شامل ہیں ۔ جدید تحقیق کے مطابق موجودہ افغانستان کا تاریخی شہر اورشہروں کی ماں یعنی ’’اُم البلاد بلخ ‘‘سے لیکر پاکستان کے شہر ٹیکسیلاتک اور موہنجودڑو سے لیکر مہر گڑ تک زیادہ پرانے تمدن کے آثار نمودار ہوئے ہیں جو دو دریاؤں یعنی دریائے سندھ(اباسین) اور دریائے آمو کے کنارے واقع ہیں تاہم اس سلسلے میں ابھی تک خاطر خواہ کام نہیں کیا جاسکا ہے جس کی وجہ سے مذکورہ علاقوں میں موجود تمدن کے جلوے آشکارہ نہیں ہوئے ۔ 

اس پورے خطے بالخصوص پشتون خوا وطن کی تمدنی تاریخ کی یافت اب بھی باقی ہے ۔ قدیم تہذیب وتمدن پر اب تک سامنے  آنے والے تحقیقی حقائق کوعلی عباس جلالپوری نے کچھ یوں بیان کیاکہ’’ تہذیب وتمدن کی تاسیس کاشرف ول ڈیوران نے سُمیریوں کو بخشا ہے اور سرآرتھر کیتھ لکھتے ہیں کہ قدیم سمیریوں کے نسلی آثار کا کھوج مشرق کی جانب افغانستان اور بلوچستان سے لیکر وادی سندھ تک کے باشندوں میں لگایا جاسکتا ہے جومیسو پوٹیمیا سے ڈیڑھ ہزار میل کی مسافت پر واقع ہے ۔ ہڑپہ اور موہنجودڑو کی کھدائی میں ایک ترقی یافتہ تمدن کے آثار دریافت کے گئے ہیں ۔ ان مقامات سے جوایشاء کھود کر نکالی گئی ہے ان میں وہ چوکور مُہریں خاص طور سے دلچسپی کاباعث ہیں جو ساخت ، ہیت اورنقوش کے لحاظ سے اُن مہروں سے ملتی جلتی ہیں جو سمیریا میں پائی گئی تھیں‘‘(2)۔

اپنے قارئین کیلئے کلچر اور سویلائزیشن کا فرق مزید واضح کرنے کیلئے یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ کلچر کاتعلق ماضی سے ہے جبکہ سویلائزیشن حال اور اس کے ذریعہ مستقبل سے وابستہ ہے ۔ کلچر کا دائرہ کار مخصوص خطہ اور قوم تک محدودو رہتا ہے جبکہ سویلائزیشن تمام نسل انسانی کی مشترکہ وارث ہے ۔

انسانی تمدن نے ارتقاء کاطویل سفر طے کرکے آج ایک منظم پہلو دار اور ہمہ گیر شکل اختیار کردی ہے ۔ آج تمدن کے اوصاف میں بڑی بڑی شہری آبادیاں ، صنعتی مراکز ،تحقیقی اور سائنسی علوم ، ٹیکنالوجی کی ترقی، مواصلات کے شعبے ہونے والی حیران کن تبدیلیاں ،چیزوں کو محفوظ کرنے اور ابلاغ کے جدید طریقے وغیرہ شامل ہیں ۔ اس میں شک وشبہ نہیں کہ بیسویں صدی سائنسی ایجادات ، عقل کی بالا دستی اور جدید علوم کی ترقی کے لحاظ سے انسانی معراج کی صدی تھی لیکن اس صدی کااواخر میں ٹیکنالوجی کے شعبے میں انقلاب اور خاص طورپر مواصلات میں تبدیلیوں نے انسانی تاریخ کو ایک نہایت روشن اور ترقی یافتہ مرحلے سے ہمکنار کیا ۔

ٹیکنالوجی کے انقلاب نے ایک جانب دنیا کو سمیٹ کر ایک گلوبل ویلج کی شکل دی اور دوسری جانب تاریخ کے سفر کو حیران کن حد تک تیز رفتار بنادیا۔ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے اس ترقیافتہ دور کے تقاضوں کومد نظر رکھتے ہوئے ’’آج ہماری زندگی کے ہر شعبے میں ’’تیسری موج‘‘ کے جدید ڈھانچے تخلیق کرنے کی ضرورت محسوس ہورہی ہے اور لاکھوں اس جانب پیش قدمی شروع کرچکے ہیں لیکن ہمارا سیاسی نظام فرسودگی کی انتہا تک پہنچ کر سماج کیلئے ایک خطرہ بن چکا ہے ۔ بد قسمتی تو یہ ہے کہ اس میدان میں بنیادی تبدیلی لانے کی بابت سوچنے کو بھی کوئی تیار نہیں ہے ۔‘‘(3)۔

اشتراکی مفکرین کے مطابق کلچر چو نکہ تاریخ کے ایک خاص عہد کی نشانی ہے لہذا اس میں اڑے رہنے کی صفت بدرجہ ا تم موجود ہے لہذا یہ موجودہ سسٹم اینڈ اسٹیس کو کو برقرار رکھنے، غیر فطری معاشی ناہمواری اورغیر انسانی طبقاتی تقسیم کا حصہ بننے کیلئے حکمران طبقے کے لئے کارگر ہتھیار ثابت ہوتا ہے ۔ اس اعتبار سے کلچر قبائلی یاجاگیر دار نہ معاشرے میں بااختیار افراد اور رجعتی قوتوں کو بدلنے کی بجائے ان کے اوصاف گنوانے کو اپنا فریضہ جانتا ہے ۔ کلچر میں موجود اسی جمود کی کیفیت کے باعث عہد جدید کے دانشور سیاسی مفکر ین نے ایک نئی رائے دی ہے کہ کلچر سے حالت کاجوں کاتوں رکھنے کی حالت کو ختم کرنے کیلئے اسے عوامی سطح پر لے جانے اور عوامی زندگی تبدیلی کرنے کیلئے بطور قوت متحرکہ کے طو رپر ترقی دینے کی اشد ضرورت ہے ۔ اس ضمن میں استاد حفیظ اللہ امین نے کہا ہے کہ’’ ثقافتی انقلاب کااولین مقصد حقیقی خلقی کلتور کو تشکیل دینا ہے ۔ اس کے ذریعہ تمام معنوی ثروت اور سائنس اورآرٹ کو عوام کے تصرف میں لانا اور اس پر اجتماعی ملکیت کو تسلیم کرانا ہے ۔‘‘(4)۔

سرمایہ دار نہ نظام میں جہاں منافع کو بنیادی قدر کے حیثیت حاصل ہے وہاں پر دیگر شے کی طرح کلچر کو بھی جنس بنادیا اور بڑے بڑے اداروں میں ثقافت اور ثقافتی اقدار کو بھی منافع بخش صنعت کی شکل دی ۔کبھی کبھار سرمایہ دارانہ نظام میں روایتی اورثقافتی سرگرمیوں میں معاشرے کی عظیم اکثریت کواُلجھا کر انقلابی تحریکوں کوسبوثاژ کرنے اورعوام کی توجہ حقیقی مسائل سے ہٹانے کاہتھیار کے طورپر بھی استعمال کیاجاتا ہے ۔ تیسری دنیا کے ملکوں میں سیاسی اور ادبی شخصیات بھی کلچر کو اپنے ذاتی مقاصد کے حصول کیلئے استعمال کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں ۔’’ ہم جانتے ہیں کہ سماجی عدم استحکام اور سیاسی بے یقینی سے تباہی کے راستے کھُل جاتے ہیں ۔ تاریخ میں ایسے حالات جنگوں اوراقتصادی تباہی کاموجب رہے ہیں اور سماجی نااہلیت سے آمرانہ نظام جنم لیتے ہیں‘‘(5)۔

کلچر اور سویلائزیشن پر گفتگو کرتے ہوئے اس بات کاذکر غیر متعلق نہیں ہے کہ معاشرتی ارتقاء میں اس موضوع کی اہمیت کے پیش نظر دنیا کے مختلف ممالک میں سنجیدہ بحثیں کی گئیں اور وہ کتابی شکل میں بھی محفوظ ہیں جن کامطالعہ ، کلچر اور سویلائزیشن کی ترقی اور متعلقہ پہلوؤں سے آگاہی حاصل کرنے میں یقینی طور پر مددگار ثابت ہوسکتا ہے تاہم یہاں پر میں ان بحثوں کابطور حوالہ ذکر کرنا چاہتا ہوں اور ان کی تفصیل آئندہ کسی مضمون یا مضامین میں بھی پیش کی جائیگی۔

۔1۔ کمیو نیسٹ پارٹی آف سوویت یونین کی مرکزی کمیٹی میں ولاد میر لینن کی تعلیمات کی روشنی میں ’’سوشلسٹ ورکر ز کلچر ‘‘پر بحث
۔2۔ براعظم یورپ میں سیاسی اورفکری تشکیل کے حوالے سے نمایاں اہمیت کے حامل ’’فرینکفرٹ سکول آف تھاٹس ‘‘کی ثقافت پر بحثیں
۔3۔ چین میں عوامی جمہوری انقلاب سے پہلے اور بعد میں چینی کمیونیسٹ پارٹی کے زیراہتمام کلچر پر تین مختلف طویل عوامی بحثیں اور ’’چیئرمین ماؤ زتنگ کا کلچرل تھیوری ‘‘۔

واضح رہے کہ انسانی ارتقا ء کو سرانے اور تمدن کے ترقی یافتہ مرحلے کااعتراف کرنے کاکسی طور پر یہ مقصد نہیں کہ اولسی فوالکلور ، قومی ثقافت اور لوک دانش کی اہمیت سے انکار کیاجائے ۔ اس میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ کلچر کے تمام پہلوؤں میں انسانی تجربات اور مشاہدات کانچوڑ ہے تاہم انسان کاسفرکہیں رُکتا نہیں ہے ۔ انسان آگے اور آگے کی جانب بڑھتا رہتا ہے ۔ آج کے دور میں انٹر نیشنل لٹریچر ، مشترکہ جدید انسانی تمدن اور سائنسی ایجادات اور قوانین نے ان کی جگہ لے لی ہیں لہذا پرانی چیزوں تک محدود رہنے کی بجائے نئے مظاہر سے بھرپور استفادہ کرنے کی اشد ضرورت ہیں مگر تہذیب وتمدن کاحقیقی نکھارمعاشی غلامی اور سیاسی محکومی کے خاتمے سے مشروط ہے ۔

حوالہ جات:۔
۔1۔ ڈاکٹرجمیل جالبی ، پاکستانی کلچر، ناشر محمود برادرز راول پنڈی،2008ص42
۔2۔ علی عباس جلال پوری ، روح عصر ، ناشر تخلیقات،2013، ص25/26
۔3۔ ایلون ٹوفلر ، موج سوم اردو ترجمہ توحید احمد ، ڈاکٹر محمود الرحمن ، مقتدر ہ قومی زبان پاکستان،1999، ص373/374
۔4۔ حفیظ اللہ امین ، انقلابی لار ، افغان خلق حکومت پایہ تخت کابل، ص160
۔5۔ ایلون ٹوفلر ، موج سوم اردو ترجمہ توحید احمد ، ڈاکٹر محمود الرحمن ، مقتدر ہ قومی زبان پاکستان،1999، ص374

2 Comments