مغرب کے اہلِ دانش کی طرف سے اِنسانی زندگی سماجی شعبوں میں دِئیے ہوئے تصوراتِ زندگی میں سرِ فہرست جدیدجمہوریت کا فلسفہ شامل ہے ۔یہ تصور تا ریخ میں اِس سے پہلے کبھی اِتنا نکھر ا ہوا اُور غالب و کارفرما نہیں تھا۔تاریخ عالم میں شہنشاہوں اُور بادشاہوں کے لامتناہی دور گزرے ہیں جو فرد کی آزادی کے اَزلی دشمن تھے ، اُو ر اَپنے مقام و مرتبے کو آسمانی مخلوق سے کم تر نہ تصور کرتے تھے ۔اِس جمود کو توڑنے میں اُور ایک جدید سائنسی انداز میں جمہوریت کو بحال کرنے میں یورپ نے حقیقی اُور بنیادی کردار ادا کیا ۔
یورپ نے اَپنے اداروں میں زبردست اکھاڑ پچھاڑ کی اُور ایک راستہ اُور شاہر ہ ہموار کر کے دی جس کو دُنیا آج ’’جدید جمہوریت ‘‘کے نام سے جانتی ہے ۔جمہوریت کی بحالی کے پس منظر میں برطانیہ میں ہونے والی پندرہویں صدی کی اِس جدوجہد کو بھی پیشِ نظر رکھا جائے جس میں برطانیہ کو جمہوریت کی ماں اُور باقی دنیا کو اِس کا مقلد بنا کر جدید طرزِ سیاست کو سائنسی بنیادوں پر یوں اُستوار کیا کہ آج تک اِس تصور میں تغیرو تبدل کی گنجائش ممکن نہیں ہے ۔
اِس جدو جہد میں برطانیہ کے بادشاہ کا سر قلم ہوا ،نوجوانوں میں مسلح تصادم ہوا،اُور عوام میں خانہ جنگی ہوئی۔ صرف برطانیہ ہی نہیں بلکہ پورے یوررپ میں عوام اُ ور اہلِ اقتدار کے درمیان مسلح تصادم ہوا ،اِس تصادم میں لوگوں کی املاک تباہ ہوئیں، صدیوں انسان کا سکون برباد رہا پھر جا کر آزادی اُورجمہوریت کی صبح طلوع ہوئی ،اُور دُنیا کے لیے یومِ نجات آیا ۔یورپ کے مفکرین نے آزادی اُور حریت کو اِنسان کی بنیادی ضرورت قرار دیا ۔اِس کی تعمیر و ترقی کے لیے ایک ناگزیر راستہ بتایا ۔
ہابس ، جان لاک،روسو اُور تھامس پین جیسے مغربی مفکروں نے اہلِ یورپ کی زندگی میں ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا جو فلسفہ آزادی کی فتح پر متنج ہوا ۔مغرب ایسی تبدیلی کی زَد میں آ گیا جو اس کی وجہ افتخار بن گئی۔فرد کے بنیادی حقوق مسلّم ہو گئے ۔مغرب کی پارلیمانی اُور سائنسی جمہوریت کو قائم کرنے اُور رُوبکار لانے کے لیے نہایت ہی تفصیلی ضابطے متعین و مقرر ہیں۔اِس جمہوری نظام کا ہر اِقدام اُور ہر ایک مرحلہ ایک طے شدہ پروگرام کے تحت انتخابات ہوتے ہیں ۔ملک کو مختلف انتخابی حلقوں میں تقسیم کیاجاتا ہے ۔معروف سیاسی جماعتیں ایک ضابطے کے تحت انتخابات میں حصہ لیتی ہیں۔
مقابلے میں حصہ لینے والے امیدوروں کی اہلیت طے ہوتی ہے جس میں اِن کی عمر،تعلیم،اُور صحت جیسی تفصیلات کا ضابطہ موجود ہے ۔رائے دہندگان کا بھی پیشگی تعین ہوتا ہے ،حتی کہ رائے دِینے کے اُوقات بھی مقرر ہوتے ہیں ۔اسمبلی میں پہنچ جانے کے بعد حزبِ اقتدار اُور حزبِ اختلاف کی کارکردگی کا ایک طے شدہ طریقہ کار ہوتا ہے ۔قانون سازی کا ایک طریقہ ہے کہ جس میں بل کی خواندگی اُور منظوری کے ضابطے ملحوظ رکھنے پڑتے ہیں۔سربراہ مملکت اُور انتظامیہ میں سے کس کو کتنے اِختیار ات حاصل ہوں گے، سب کچھ طے ہو تا ہے ۔حتی کہ عدلیہ اُور فوج کا دائرہ کار بھی متعین ہوتا ہے ۔
اِن تمام تفصیلی ضابطوں کے نتیجے میں پارلیمانی جمہوریت ایک سائنسی جمہوریت میں تبدیل ہو گئی ہے ۔جس میں کوئی کام بے ضابطہ نہیں ہوتا ۔آج دُنیا کا کوئی ایسا دُستور نہیں ہے جس میں فرد کے بُنیادی حقوق کا ذکر نہ ہو۔جان و مال ،عزت و آبر و کے تحفظ اُور پیشے کی آزادی کے ساتھ آزادی اظہارِ رائے کا اظہار سب کا بنیادی حق قرار دیا گیا ہے ۔اِن حقوق پر نہ حکومت قید لگا سکتی ہے ،نہ کوئی فرد دُوسرے فرد کے اِن حقوق کو پامال کر سکتا ہے ۔اَگر ایسا کیاجائے گا تو قانون حرکت میں آئے گا،اُور زِیادتی کرنے والے کو سزا دے گا ۔اس سے بڑی سائنسیِ جمہوریت اُور کیا ہو سکتی ہے ؟؟؟۔
مغربی جمہوریت کے تصورات سے پہلے جدید جمہوری نظام کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔اہل یونان کی جمہوریت صرف اپنے لیے تھی ۔یونانی جمہوریت میں غلام ،غیر یونانی اور پیشہ ور لوگ شامل نہیں تھے۔واضح رہے کہ یہ لوگ یونانیوں کی کل آبادی میں بہت زیادہ تعداد میں رہتے تھے مگر پھر بھی سیاسی عمل سے خارج تھے ۔یونانی جمہوریت موجودہ سائنسی جمہوریت کی طرح منظم اور اُستوار بھی نہیں تھی ۔جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے تو یورپ کی بیداری کے وقت سب سے بڑی سیاسی وحدت خلافتِ عثمانیہ تھی ۔اس میں ایک امیر المومنین ہوتا تھا ،جو موروثی طور پر مقرر ہوتا تھا ۔اُس کے پاس من پسند مشیروں کی ایک جماعت ہوتی تھی ۔اَمیر المومنین ایک فرمان جاری کر تا تھا، جو مملکت میں قانون کی حیثیت رکھتا تھا ۔نہ عدلیہ اورانتظامیہ کی جدید شکل و صورت تھی اور نہ ہی باقاعدہ فوج تھی ۔
اِس سے پہلے جو مسلم بادشاہ تھے ان کی حالت اس سے بھی بدتر تھی ۔ جمہوریت کے لیے انگریزی کا لفظ ’’ڈیموکریسی ‘‘ استعمال کیا جاتا ہے ۔جس کا مطلب ہے ’عوام کی حکومت ‘ یہ ایک ایسا طرز حکومت ہے جس میں عوام اپنے منتخب نمائندں کے ذریعے حکومت کر تے ہیں۔جدید سائنسی جمہوریت کی سب سے جامع اور مختصر تعریف امریکہ کا سابق صدڈر ابراہام لنکن کچھ یوں کرتا ہے ۔’’عوام کی حکومت ،عوام کے لیے اور عوام کے ذریعے ‘‘۔واضح رہے کہ جمہوری حکومت دیگر حکومتوں کے مقابلے میں عام لوگوں کی فلاح و بہبود کا زیادہ خیال رکھتی ہے ۔اس نظام حکومت میں کسی مراعات یافتہ طبقے کی بالاتری کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ۔
جمہوریت عوام کے اخلاق کو بلندکرتی ہے ،انہیں انسان دوستی ،شرافت ،باہمی ایثار اور محبت کے اصول سکھاتی ہے ۔اس لیے اس نظامِ حکومت کو اخلاقی افادیت کی بناء پر بھی پسند کیا جاتا ہے ۔جمہوری نظامِ حکومت میں ملک گیری کی ہوس کم ہو جاتی ہے ۔حکمرانوں میں جنگوں کا رجحان بھی کم ہو تا ہے اور وہ امن پسند ہو جاتے ہیں ۔برٹرینڈرسل نے درست کہا تھا کہ ’’ جمہوریت کا ایک فائدہ یہ ہے کہ یہ دوسری حکومتوں کی نسبت امن کو زیادہ پسند کر تی ہے ‘‘۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں ترقی معکوس کا سفر جاری ہے ،پاکستان میں کون سا نظام حکومت ہے ؟؟۔اس کا جواب یہ ہے کہ پاکستان میں اصل جمہوریت نافذ ہی نہیں کی جا سکی ۔اس ملک میں انگریز نے بورژوازی کا ایک طبقہ مسلط کیا ہوا ہے ۔یہ لوگ تمام سیاسی پارٹیوں میں موجود ہیں جو جمہوریت کو اصل شکل میں نافذ نہیں ہو نے دیتے۔ کیوں کہ اس کی وجہ سے ان کا سرمایہ اور مفاد پر ضرب پڑتی ہے۔
فرانس اور انگلینڈ کے سرمایہ داروں نے اپنے پیسے کی بڑہوتری کے لیے جاگیرداروں کے ساتھ ایک کلاسیکی جنگ لڑی تھی ۔اور لڑائی لڑنے کے بعد بورژوا انقلاب برپا کیا تھا مگر یہاں پر صورتحال مختلف تھی۔ پاک و ہند کے سرمایہ داروں اور جاگیر داروں نے اپنے جائیدادیں بنانے کے لیے انگریز کی غلامی کو قبول کیا تھا ۔اس وجہ سے یہ لوگ اس قبل ہے ہی نہیں کہ یہ جمہوریت کو اصل شکل میں نافذ کر سکیں ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کے عوام بیدار ہوں اور متحد ہو کر جمہوری انقلاب کے لیے جدو جہد کر یں تاکہ نسلِ انسانی کو راحت نصیب ہو ۔اور پاکستان میں جمہوری انقلاب کے پنپنے کے خوا ب پورا ہو جائے ۔
♠