مشتاق احمد درانی
اللہ اللہ کر کے این اے 120 کا معرکہ سر ہوا۔ حسب توقع حکمران جماعت کی امیدوار جو ان دنوں بعرض علاج لندن میں ہے نااہل کئے گئے سابق وزیراعظم کی اہلیہ کلثوم نواز کامیابی سے ہمکنار ہوئی اور امپائیر کی انگلی اٹھنے کا انتظار کرنے والے دیکھتے رہ گئے۔ تحریک انصاف کی امیدوارہ ڈاکٹر یاسمن راشد جو نواز شریف سے پچھلا الیکشن چالیس ہزار ووٹوں سے ہاری تھی اس دفعہ یہ فرق چودہ ہزار ووٹوں کے فرق تک لے آئی۔
جس کو تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے مسلم لیگ ن کو ان کے گھر میں ٹف ٹائم دیتے ہوئے اپنی جماعت پی ٹی آئی کی فتح سے تشبیہ دی۔ لیکن ان کی جماعت کے دوسرے رہنما دھاندلی کا رونا روتے ہوئے 29000 ووٹوں کا تذکرہ کرتے نظر آئے۔ دوسری جانب حکمران جماعت بھی اپنے کارکنوں کی گمشدگی اور ان کو ووٹ کے حق سے محروم کرنے کا ذکر کرتے رہے۔
لاہور کے اس معرکے میں اگر کوئی بڑا اپ سٹ ہوا تو وہ تیسرے اور چوتھے نمبر پر آنے والے امیدواروں جن میں ڈیڑھ مہینہ پہلے عالمی سطح پر دہشت گرد قرار دی گئی جماعت الدعوہ کے بطن سے جنم لینے والی جماعت ملی مسلم لیگ کے امیدوار یعقوب شیخ اور تحریک لبیک یارسول کے امیدوار شیخ اظہر حسین کی طرف سے تھا۔ دونوں امیدواروں نے باترتیب 5822 اور 7130 ووٹ لیکر جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی جیسی سیاسی و مذہبی جماعتوں کے امیدواروں کو جنہوں نے باترتیب 592 اور 1414 ووٹ حاصل کئے کو پیچھے چھوڑا۔
لاہور کے اس ضمنی الیکشن میں ڈیڑھ دو مہینے پہلے وجود میں آنے والے جماعت ملی مسلم لیگ جو ابھی الیکشن کمیشن کے ساتھ رجسٹرڈ بھی نہیں ہوئی اور جو بطور سیاسی پارٹی اپنا پہلا الیکشن لڑنے جا رہی تھی کے امیدوار یعقوب شیخ کے نتائج تھے جنکی پشت پر کالعدم جماعت الدعوہ سرگرم تھی۔ یہ یاد رہے کہ کہ جماعت الدعوۃکہ شمار ان تنظیموں میں ہوتا ہے جن کو اقوام متحدہ اور امریکہ نے شدت پسند او دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں ڈال کر ان پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔
اس تنظیم کا سربراہ حافظ سعید کا نام امریکہ کو انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں بھی ہے اور امریکہ نے اسکے سر پر دس ملین ڈالر کا انعام بھی مقرر کر رکھا ہے۔ پاکستان میں جماعت الدعوۃ اور اسکے سربراہ کو حکومت نے چند سال قبل واچ لسٹ میں ڈال رکھا ہے۔
امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کے مطابق این اے 120 میں ملی مسلم لیگ کے امیدوار (درپردہ جماعت الدعوہ) یعقوب شیخ کو امریکا نے سال 2012 میں عالمی دہشتگردوں کی فہرست میں ڈال رکھا ہے۔ یہ حکومت کے لئے لمحہ فکریہ ہونا چاہیئے کہ عالمی سطح پر دہشت گرد قرار دیا گیا شخص پاکستان میں وزیراعظم کی نااہلی سے خالی ہوئی نشست سے قومی اسمبلی کا انتخابی دنگل لڑتا ہے اور 44 امیدواروں میں ووٹوں کے حساب سے چوتھی پوزیشن کا حقدار بنتا ہے۔
اب آتے ہیں این اے 4 پشاور کی طرف، یہ نشست تحریک انصاف کے ایم ان اے سابق بیروکریٹ گلزار خان کی وفات سے خالی ہوگئ تھی اور الیکشن کمیشن کے نوٹیفیکیشن کے مطابق قومی اسمبلی کے اس حلقے پر اکتوبر کے آخری ہفتے میں ضمنی الیکشن ہونے جارہا ہے۔
اس حلقے سے کل 22 امیداروں نے درخواستیں جمع کرائی ہیں، جن میں سیاسی اور مذہبی پارٹیوں کے امیدواروں (بشمول ملی مسلم لیگ کے حاجی لیاقت) کے ساتھ ساتھ آزاد امیدوار بھی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے اس بار ارباب عامر ایوب کو میدان میں اتارا گیا ہے، جو اے این پی کے سابق رکن قومی و صوبائی اسمبلی کے بھائی ہیں، انہوں نے اپنے بھائی کی وفات کے بعد پی ٹی آئی سے ناطہ جوڑ لیا ہے۔
اگرچہ ارباب عامر کو ٹکٹ دینے سے عمران خان کے کچھ پرانے سپورٹرز ناراض بھی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کے ہی کچھ ممبرز (جن میں تحریک انصاف نظریاتی کا امیدوار بھی شامل ہے) اپنے پارٹی امیدوار کے خلاف آزاد حیثیت میں بھی الیکشن لڑ رہے ہیں۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کی روایتی حریف مسلم لیگ ن کی جانب سے ناصر خان موسی زئی میدان میں ہیں جو پچھلے الیکشن میں اس حلقے سے رنر اپ رہے تھے۔ اور الیکشن کمیشن کے اصولوں کے خلاف پیسکو کے بورڈ آف ڈائیریکٹرز کے ممبر بھی ہے اور اپنے اسی عہدے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے صوبائی صدر اور سابق وزیراعظم امیر مقام صاحب کی آشیر آباد سے محلے محلے ٹرانسفرمرز تقسیم کرتے نظر آرہے ہیں۔
پیپلز پارٹی کی طرف سے اسی حلقے کے ہی پی ٹی آئی کے سابق رکن قومی اسمبلی گلزار خان مرحوم کے بیٹے اسد گلزار یہ معرکہ انجام دینے کے لئے میدان میں ہے، جنہوں نے زرداری صاحب کے حالیہ دورہ پشاور پر پارٹی میں شمولیت اختیار کی ہے۔ گلزار خان کے پی ٹی آئی قیادت سے اختلافات جو دھرنے کے دنوں میں استعفی سے انکار پر شروع ہوئے تھے کسی سے ڈھکے چھپے نہیں اور ان کے جنازے میں پارٹی کی مرکزی اور صوبائی قیادت میں سے کسی نے بھی شرکت نہ کر کے ان رنجشوں اور اختلافات کو مزید گہرا کیا جسکی بدولت زرداری صاحب کو اس حلقے کے لئے جیالا مل گیا۔
عوامی نیشنل پارٹی نے اپنے سابقہ رکن صوبائی اسمبلی و ڈپٹی سپیکر خوشدل خان ایڈوکیٹ کو اعتماد کا ووٹ دیکر میدان میں اتارا ہے۔ موصوف عوامی آدمی ہے، اپنے حلقے کے ہر خوشی و غم میں شریک ہوتے ہیں، کالج پالیٹکس سے ہی اے این پی سے وابستہ ہے لیکن قومی اسمبلی کے لئے پہلی بار الیکشن لڑ رہے ہیں۔ یہ وہی خوشدل خان ہے جو 2008 کی دہشت گردی کی لہر کے وقت ہاتھ میں بندوق لئے خود سڑک پر پہرہ دیتے تھے، ان دنوں میں بھی جب اے این پی کے لیڈران و کارکنان کو ٹارگٹڈ بم دھماکوں اور حملوں کا سامنا تھا خوشدل خان اپنے آبائی علاقے جو ایک طرف سے باڑہ خیبر ایجنسی جہاں پر ان دنوں منگل باغ کا حکم چلتا تھا سے منسلک ہے تو دوسری جانب درہ آدم خیل سے منسلک ہے جہاں پر تحریک طالبان پاکستان نے حکومتی رٹ چیلنج کر رہی تھی کو چھوڑ کر نہیں گئے بلکہ اپنے لوگوں کا حوصلہ بڑھانے کے لئے ہر وقت ان کے درمیاں موجود رہے۔
قریبی دیہاتوں میں منگل باغ اور تحریک طالبان کے حملوں کی روک تھام کے لئے علاقے کی سطح پر امن لشکروں کے قیام کا سہرا بھی خوشدل خان کے سر ہے جسکی تقلید کرتے ہوئے اس وقت کی صوبائی حکومت نے ان لشکروں کا دائرہ سوات، بونیر اور دیر کے بشمول دہشت گردی سے متاثرہ باقی علاقوں میں بھی پھیلا دیا۔ دہشت گردی کے خلاف اسی آہنی عزم کی سزا کے طور ان کے گھر اور گاڑی کو بھی کئی دفعہ شدت پسندوں نے نشانہ بنایا جن میں وہ اور ان کے ساتھی محفوظ رہے۔
پچھلے جنرل الیکشن میں جب پورے صوبے میں اے این پی بری طرح ہاری تھی خوشدل خان ہی تھے جو تحریک انصاف کے امیدوار سے سب سے پورے صوبے میں سب سے کم مارجن (1072 ووٹوں کے فرق سے) سے ہارے تھے۔ اسلئے اس حلقے میں ان کے اثر کو نظ انداز نہیں کیا جا سکتا۔
جماعت اسلامی کی طرف سے اے این پی کے ہی ایک سابق یونین کونسل ناظم واصل فاروق اپنا پہلا پارلیمانی الیکشن لڑنے جا رہے ہیں جو کچھ ہی عرصہ پہلے جماعت اسلامی میں شامل ہوئے ہیں۔ ایم ایم اے کے دور میں جماعت اسلامی کے صابر حسین اعوان اس حلقے سے قومی اسمبلی کے رکن رہ چکے ہیں۔
فالحال روایتی جوڑ و توڑ کا سلسلہ جاری ہے، قومی وطن پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام ف نے اپنے امیدوار مسلم لیگ ن کے حق میں دستبردار کروادئیے ہیں۔ تحریک انصاف بھی اپنی پارٹی کے ایک ناراض امیدوار کو منانے اور ارباب عامر کے حق میں دستبردار ہونے میں کامیاب ہوچکی ہے۔ اے این پی بھی اس معاملے میں دو وکٹیں گرا کر پاکستان راہ حق پارٹی کے اور ایک آزاد امیدوار کو اپنے حق میں دستبردار کرانے میں کامیاب ہو چکی ہے۔ گاوں گاوں سارے امیدوار اپنے صوبائی اور مرکزی رہنماوں کی مدد سے جلسے جلوس او شمولیتی تقریبات کرانے میں لگے ہوئے ہیں۔ جن میں اے این پی کے حاجی غلام احمد بلور، لطیف لالا ایڈوکیٹ، میاں افتخار حسین، ایمل ولی خان، سردار حسین بابک، ثاقب اللہ خان چمکنی، مسلم لیگ ن کے شانگلہ سے ایم این اے ڈاکٹر عباداللہ، پی ٹی آئی کے اشتیاق ارمڑ، شاہ فرمان اور جماعت اسلامی کے صابر حسین اعوان قابل ذکر ہے۔
صوبائی اور وفاقی حکومت کی جانب سے الیکشن کمیشن کے قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک دوسرے پر قبل از انتخابات حلقے میں ترقیاتی کاموں کی آڑ میں دھاندلی اور سرکاری مشینری کے استعمال کا الزام بھی لگایا جارہا ہے، جو دونوں جانب سے محض الزام نہیں حقیقت بھی ہے، جس پر صوبائی الیکشن کمیشن نے آج نوٹس بھی لے لیا ہے۔
الیکشن کا نتیجہ کیا ہوگا؟ یہ تو 26 اکتوبر کی شام کو پتہ چلے لگا لیکن زمینی صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل نہیں کہ اصل مقابلہ صوبائی حکمران جماعت پی ٹی آئی، وفاقی حکمران جماعت مسلم لیگ ن اور عوامی نیشنل پارٹی کے امیدواروں کے مابین ہے اور یہی الیکشن، 2018 کے انتخابات میں خیبر پختونخوا کا سیاسی منظر نامہ بھی واضح کر دے گا کہ کونسی سیاسی پارٹی کتنے پانی میں ہے۔
♦