علی احمد جان
دیگر جمہوری ممالک کی طرح پاکستان کا آئین بھی بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت دیتا ہے اور ان حقوق کی فرد تک فراہمی کو تحفظ دیتا ہے۔ دیگر بنیادی حقوق کے ساتھ حق انجمن سازی اور سیاسی عمل میں شرکت کا حق بھی شامل ہیں جس کے تحت افراد کو کسی قسم کی انجمن بنانے یا کسی انجمن میں شرکت سے نہیں روکا جاسکتا ہے تا وقتیکہ وہ انجمن ملک کےاقتدار اعلیٰ کے خلاف کسی سرگرمی میں ملوث نہ ہو ۔ آزادی سے قبل ۱۸۶۰ میں ایک ایکٹ کے تحت برصغیر کے لوگوںکو بھی ا نجمن سازی کا حق دیا گیا تھا جس کے نتیجے میں محمڈن ایجوکیشنل سو سائٹی وجود میں آئی جس کا سفر علی گڑھ ، مسلم لیگ اور پاکستان پر منتج ہوا۔
پاکستان کے وجود میں آتے ہی اس نو زائیدہ ملک میں نئے نظریات پنپنے لگے اور نئی سیاسی جماعتیں بھی و جود میں آنے لگیں۔ کچھ جماعتیں نئے ملک میں رہنے والی مختلف قومیتوں اور انتظامی اکائیوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے کچھ نئے ملک میں ایک معاشی اور سماجی ڈھانچے کی تشکیل کے لئےاپنے اپنے منشور اور پروگرام لے کر سامنے آئیں۔
وقت کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کی دائیں اور بازو کی شناخت ابھرنے لگی ۔ بائیں بازو جماعتیں سماجی تبدیلی کے لئے سرگرم عمل ہوئیں دائیں بازو کی جماعتیں ملک کو مذہبی شناخت دینے کے لئے مصروف عمل ہوگئیں جبکہ دیگر جماعتیں ملک کے نظام میں بغیر کسی بڑی تبدیلی کے اس میں تواتر کی حامی رہیں۔
پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ کی بیشتر سیاسی قیادت بٹوارے کے بعد مشرقی حصے سے ہجرت کرکے آئی تھی جس کا یہاں سیاسی حلقہ انتخاب نہ ہونے کی وجہ سے انتخابات اور جمہوری عمل کے بجائے ملک کو ایک غیر منتخب حکومتوں کے ذریعے چلانے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں سیاسی بساط لپیٹ کرفوجی آمریت مسلط کر دی گئی۔اس کے بعد تواتر کے ساتھ جمہوریت کی بساط لپیٹ کر جمہوری عمل کے بار بار نئے سرے سے آغاز نے یہاں جمہوریت اور جمہوری اداروں کو کمزور سے کمزور تر کردیا ۔
پاکستان کے وجود میں آنے اور پھر دو حصوں میں تقسیم ہونے کے بعد بھی یہ سوال آج بھی پوچھا جاتا ہے کہ ملک کو کس نظام کے تحت چلایا جائے ۔ گزشتہ ستر سالوں میں مختلف تجربات کئے گئے جس میں سے ایک تجربہ یہاں سیاسی قیادت کوبار بار غیر فطری طریقوں سے بدلنے کا تھا۔ محمد علی بوگرہ سے شوکت عزیز تک ملک کی انتظامی مشینری چلانے کے لئے بطور وزیر اعظم کئی ایسے لوگ ڈھونڈ کر لائے گئےجو اپنے اپنے اختیار کردہ پیشے میں تو یکتا تھے مگر رموز سیاست سےعدم واقفیت کی بنا پر عوامی پزیرائی سے محروم رہے ۔ ایسے درآمد کردہ لوگوں کی بطور سیاست دان ناکامی سے یہ سبق سیکھنے کے بجائے کہ سیاسی قیادت تجربات کی لیبارٹری میں پیدا نہیں کی جا سکتی بلکہ گلیوں اور سڑکوں پر عوام کی حمایت سے ابھر کر آتی ہے، یہ تجربہ بار بار دھرایا گیا۔
غیر معمولی سیا سی قیادت ہمیشہ غیر معمولی حالات میں ابھرتی ہے۔ کسی ملک میں سیاسی بحران ریاست کے اندر مقتدر قوتوں اور شہریوں کے درمیان عدم اعتماد کا نتیجہ ہوتا ہے جس میں ریاست ایسے بحران کو صرف نظرکرکےآگے بڑھنے کی اور سیاسی قیادت بحران کو حل کرنےکی کوشش کرتی ہے، جس سے ریاست کے مقتدر حلقوں اور سیاسی قیادت میں تناؤ اور کشیدگی پیدا ہوجاتی ہے۔
اگر ریاست کے مقتدر قوتوں کی نظر سے دیکھا جائے تو تمام مقبول راہنما بشمول نیلسن منڈیلا، مہاتماگاندھی، باچا خان ، ذوالفقار علی بھٹو اور یاسر عرفات سب ہی اپنے سیاسی کردار کی وجہ سے مجرم سمجھے گئے اور ان کو قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں یا جان سے جانا پڑا۔
دوسری طرف عوام کی نظر سے دیکھیں تو جو ریاست کے معتوب ٹھہرے وہ عام لوگوں کے محبوب ہوئے ۔ عام لوگوں نے اپنے راہنماؤں کے خلاف ریاستی موقف اور فیصلے کو کبھی تسلیم نہیں کیا ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ریاستی فیصلےعوام میں غیر مقبول ہوئے اور جن کے خلاف فیصلے دئے گئے تھے وہ مقبول عام ہوئے ۔ آج نیلس منڈیلا اور باچا خان کی قید و بند ان کی قربانی سے تعبیر کی جاتی ہے، بھٹو کی عدالتی پھانسی کو اس کے بد ترین مخالفین بھی آج قتل قرار دیتے ہیں۔
پاکستان میں مقبول سیاسی قیادت کو راستے سے ہٹانے یا دیوار سے لگانے کا رواج ابتداسے ہی پروان چڑھا۔ پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو شہید ملت قرار دینے کے باوجود ان کے قتل کے پیچھے کی جانے والی سازش کا سراغ نہیں لگایا جاسکا۔ کہنے والے بابائے قوم قائد اعظم کی موت کو بھی غیر فطری اور ان کی بہن مادر ملت فاطمہ جناح کی موت کو صریحاً قتل عمد کہتے ہیں مگر تحقیقات نہ ہو سکیں۔ بے نظیر بھٹو کا قتل کل ہی کی بات ہے جو ایک معمہ بن چکا ہے ۔ جس ملک میں دہایوں تک آمریت رہی وہاں عوامی ووٹوں سے منتخب کسی ایک منتخب وزیر اعظم کو بھی اپنی مدت پوری کرنے کی مہلت نہ ملی۔
پاکستان میں جب بھی اقتدار پر قبضہ ہوا ہمیشہ لوگوں نے مزاحمت کے زریعے اپنی حق حاکمیت کو واپس لایا ہے۔ لیبیا کے کرنل قذافی، اعراق کے صدام حسین اور سعودی عرب اور دیگر عرب امارات کی طرح ایک شخص یا ایک خاندان کی اجارہ داری قائم نہ ہو پائی۔ یہاںمطلق العنان آمر دس دس سال تک بلا شرکت غیرے حکومت کرنے کے باوجود اپنی سیاسی میراث نہ بنا سکے۔ سیاسی عمل میں بار بار مداخلت اور نت نئے تجربات کے باوجود پاکستان کے عوام نے ہمیشہ اپنے راہنما چننے کا ختیار اپنے پاس ہی رکھا ہے اور جب بھی موقع ملا مقتدر حلقوں کے منشا کےخلاف اپنا فیصلہ دیا ۔
حال ہی میں پارلیمنٹ نے سیاسی جماعتوں کی قیادت کے فیصلے کا حق عوام کو دیکر بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے یا عدالت نے عوام کو اپنی سیاسی جماعت یا انجمن کی قیادت کے انتخاب کے حق سے محروم کرکے ، اس سوال کا جواب ہمیں بار بار ملا ہے۔
یہ بات سچ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو بھی ایوب خان کی کابینہ سے اٹھے۔ مگر بھٹو نے بہت جلد ملک کو درپیش آئینی اور جمہوری بحران سے نکالنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ ملک کومتفقہ آئین دیا ، لوگوں کو اپنے حق کے لئے آواز اٹھانے کا حوصلہ دیا ۔ ان کو ہٹانے والے ضیاءالحق نے آئین توڑا اور بنیادی حقوق سلب کئے، آج ان دونوں کی قبروں پر جاکر دیکھتے ہیں تو اس سوال کا جواب مل جاتا ہے۔ بھٹو کی قبر آج مرجع خلائق ہے جبکہ ضیاءالحق کی قبر پر شائد ہی کوئی فاتحہ پڑھتا ہو۔
جب نواز شریف کو جنرل ضیاءلحق کی چھتر سائے میں سیاست کی بھول بھلیوں میں لایا گیا تھا تو وہ لیڈر نہیں تھا بلکہ ایک کاروباری شخص تھا جس نے سیاست میں سرمایہ کاری کی تھی ۔۱۹۹۹ میں اپنی معزولی، قید و بند اور جلا وطنی کے بعد آج نواز شریف ایک لیڈر بن چکا ہے جس کا اپنا ایک حلقہ اثر ہے، ووٹ بنک ہے اور چاہنے والے ہیں۔ نواز شریف کو سیاست میں لانا جتنی بڑی غلطی تھی اس سے بڑی غلطی اس کو سیاست سے جبری بے دخل کردینا ہوگی ۔ نواز شریف کو معزول کرنے والے پرویز مشرف کو بھی عوامی حمایت کی غلط فہمی تھی مگر اقتدار سے الگ ہونے کے بعد وہ اپنی جماعت کی پوری مرکزی کابینہ بھی نہ بنا سکے۔
عمومی سیاست سیاسی حریفوں اور حلیفوں کا کھیل ہے جس میں ریاستی اداروں کو غیر جانب دار رہنا چاہئے۔ سیاست میں ر یاستی ادارے بشمول عدلیہ ، افواج اور انتظامیہ کی مداخلت کے نتائج نہ پہلے بہتر آئے تھے نہ مستقبل میں بہتر آئیں گے۔ ایسی بے جا مداخلت سے اداروں کی غیر جانبداری پر سوالات اٹھیں گے اورریاست اداروں پر لوگوں کے اعتماد میں کمی آئیگی۔
♥